61ہزار لوگوں کی بد دعائیں اور احد چیمہ

بدھ 28 فروری 2018

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

جب کوئی بے کس و لاچار ، غریب ، محنت کش انسان صبر کی تما م حدوں سے گذرتا ہے تو اس کے پاس صرف ایک ہی ہتھیار باقی بچتا ہے اور وہ بد دعا ہے ۔تاریخ کے اوراق کنھگالے جائیں تو معلوم ہو تا ہے بڑے بڑے فرعون، قارون اور طاقت ور کسی ایک غریب ، لاچار اور مسکین کی بد دعا کی وجہ سے ماضی کا حصہ بن گئے۔ ایسی ذلالت ان کا مقدر ٹہری کہ پھر کوئی دریا برد ہوا، کسی کو اپنے ہی ملک سے نکال دیا گیا اور کوئی اپنے ہی گھر میں مار دیاگیا۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ کسی بھی مسلمان حاکم کو کسی علاقے میں حکمرانی کے لئے نامزد کرتے تو اسے لوگوں کی بد دعا سے بچنے کے احکامات بھی ضرور صادر کرتے ۔ بخاری کی حدیث نمبر:2448میں جسے نقل کیا گیا ہے کہ حضرت ابن عباس  سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ  کو جب عامل بنا کر یمن بھیجاتو آپ ﷺ نے انہیں ہدایت فر مائی کہ مظلوم کی بد دعا سے ڈرتے رہنا ، اس لئے کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے در میان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)

نبی رحمت ﷺ کا ایک اور ارشاد گرامی ہے کہ مظلوم کی بد دعا چنگاریوں کی طرح آسمانوں پرپہنچتی ہے ۔
قارئین !دور حاضر میں بھی بد دعاکی سنگینی کے کئے ایسے واقعات دیکھنے کو ملے جس میں حسنی مبارک، معمر قذافی اور اس جیسے کئی لوگ جو طاقت کی نشانی سمجھے جاتے تھے ماضی کا حصہ بن گئے ۔ ایسا ہی ایک واقعہ احد چیمہ کے ساتھ پیش آیا ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ ان 61ہزار لوگوں کی بد دعائیں ہیں جنہوں نے بڑی مشکل سے ادھار لے کر ، اپنی چیزیں بیچ کر یا کسی سے پیسے مانگ کر آج سے تین سال قبل ، دل میں اپنے گھر کی خواہش سجا کر آشیانہ اقبال کے فارم خریدے اور بنک میں جمع کرائے۔

ان غریبوں نے جو نسل در نسل کرائے کے گھروں میں رہتے آرہے تھے ، اپنے گھر کا خواب آنکھوں میں سجائے معلوم نہیں کیا کیا سوچا ہو گا ، اس وقت لوگوں کو بتایا گیا کہ آپکو بیلٹنگ اور اس سے متعلقہ امور کی خوشخبری جلد ہی آپکے فون نمبرز پر دی جائے گی ۔
غریب لوگ روزانہ اپنا فون دیکھتے ، ہر گذرتے دن کے ساتھ مایوسی اور نا امیدی کی شاہراہ کا مسافر بنتے اور امید توڑنے والوں کے خلاف ہاتھ بلند کرتے ہوئے اپنے حقیقی مالک کی عدالت میں ان کے خلاف شکایات درج کراتے ۔

بالآخر جو مضطرب دلوں کی فریاد سنتا ہے اور ظالم کو مزید ڈھیل دیتا ہے کہ شاید وہ باز آجائے اور سخت پکڑ سے بچ جائے ۔ لیکن یہاں تو کرپشن اور حرام خوری کا ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا کھاتہ کھلتا جا رہا تھا ۔ مدینہ ثانی کی غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی کو ہڑپ کیا جا رہا تھا ، 50لاکھ شہدا کی قربانیوں کی نتیجے میں قائم ہونے والے پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹا جا رہا تھا ، لاالہ الااللہ کا نعرے کے سایہ میں وجود میں آنے والی عظیم مملکت کو نقصان پہنچایا جا رہاتھا ۔


ایسے میں پھر ظالم ، چور اور ڈکیت کیسے اللہ کی پکڑ سے بچ سکتے ہیں ۔ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ نیب کے افسران طاقت ور بیوروکریسی کے خلاف حرکت میں آتے ہیں اور اپنے آپ کو پھنے خان اور وزیر اعلیٰ ثانی سمجھنے والے احد چیمہ کو گرفتار کیا جا تا ہے ۔ جس کے نتیجے میں کرپشن کی ایسی ایسی داستانیں سننے کو ملتے ہیں کہ پھر حالیہ دنوں میں پنجاب حکومت کے حق میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی تما م رپورٹس جعلی اور خود ساختہ محسوس ہو نا شروع ہو جاتی ہیں ۔

خادم اعلیٰ کے کرپشن فری پنجاب پر شک ہو نا شروع ہو جا تا ہے ۔ چیمہ کی گرفتاری کے بعد اورنیب افسران کی جانب سے حقائق منظر عام پر لانے پر چوروں کے ساتھیوں کی طرف سے جو طوفان بد تمیزی بر پا کیا جاتا ہے وہ انتہائی شرمناک اورقابل مذمت فعل ہے ۔ سر کاری ملازم جو ریاست اور عوام کے خادم ہوتے ہیں اور ان کے ٹیکسوں پر تما م عیاشیاں کرتے ہیں جو پہلے بھی عوام کو ذلیل وخوار کر نے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن اس موقع پر کسی سیاسی جماعت کی طرح دفتروں کو تالے لگاکر نیب پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔

غریبوں کے پیسوں پر پلنے والے ، بڑے بڑے محلات بنا نے والے ، غیر ملکی نیشنیلٹی لینے والے اور اپنے بنک اکاؤنٹ بھرنے والے صرف ان بابوؤں کی جانب سے ہی نہیں بلکہ کئی ”سیاہ ست دانوں“کی طرف سے بھی نیب پر حملے جاری ہیں ۔
قارئین کرام ! اس ساری صورتحال میں بطور صحافی جب میں نے دونوں جانب کی رائے لینے کی کوشش کی تو سر کاری بابوؤں کی جانب سے حقائق سے خالی دعوے کئے گئے جو ان کی کمزوری اور مجرمانہ غفلت کی عکاسی کرتے تھے اور جب نیب لاہور کے ڈی۔

جی سے دوسری جانب سے آنے والے شدید پریشر بارے دریافت کیا تو انہوں نے بڑے دبنگ لہجے میں جواب دیا کہ میں اپنے اللہ ، ملک کے آئین کو جواب دہ ہوں ، میری ڈکشنری میں پریشر نامی کوئی لفظ نہیں ۔
مجھے امید ہے کہ اگر نیب اوردوسرے احتساب کر نے والے ادارے اسی سپرٹ کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے تو کچھ بعید نہیں کہ دونوں ہاتھوں سے عوام کے پیسوں کو ہڑپ کر نے والے بیووکریٹس اپنی اوقات میں آجائیں اور پھر کسی کو 61ہزار شہریوں کے خواب چھیننے کی ہمت نہ ہو ۔ اور اگر خدانخواستہ ایسے لوگوں کو خلاف کچھ نہ ہوا تو پھر یہ بھی یاد رکھا جائے کہ مستقبل میں کبھی ان لٹیروں ، چوروں اور ڈاکوؤں کے خلاف کچھ نہ ہو سکے گا جس کی ذمہ داری نیب کے سر ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :