انصاف ، جج صاحب، انصاف

پیر 26 فروری 2018

Ammar Masood

عمار مسعود

گذشتہ دنوں ایک پروگرام میں خوش قسمتی سے میری ملاقات جسٹس ناصرہ اقبال سے ہوئی۔ میں نے پروگرام میں اسلام آباد سے شرکت کی ،جسٹس صاحبہ نے لاہور سے شمولیت کی۔ملاقات کی صورت صرف ٹی وی کی سکرین اور کیمرے تھے ۔ لیکن میں نے اسے بھی نصیب کی بات سمجھا۔ ایسے عاقل ، فہیم اور خاندانی لوگ اب کرنٹ افیئرز کے پروگراموں میں کم ہی نصیب ہوتے ہیں۔

کرنٹ افیئرز کی روز کی ”مارا ماری“ والی گفتگو میں جسٹس صاحبہ نے اینکر کے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ یہاں عدالتوں کا حال نہ پوچھیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرا اپنا ایک ذاتی مقدمہ سول کورٹس میں گذشتہ انیس سال سے انصاف کی تلاش میں چل رہا ہے۔ انیس سال ہو گئے ابھی تک اس مقدمے میں شواہد اور گواہ پیش کرنے تک کی نوبت نہیں آئی۔

(جاری ہے)

جسٹس ناصرہ اقبال کی یہ گفتگو سن کر میرے رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔

مجھے یوں لگا کہ شائد میں نے کچھ غلط سنا ہے۔ خیر پروگرام ختم ہوا ۔ میں نے پروڈیوسر سے جسٹس صاحبہ کا نمبر مانگا۔ اسکے دیئے ہوئے نمبر پر جب میں نے کال کی تو میرے فون پر مرحوم جسٹس جاوید اقبال کا نام جگمگانے لگا۔ جس سے مجھے پتہ چلا کہ جسٹس جاوید اقبال کے انتقال کے بعد اب انکا نمبر انکی اہلیہ کے استعمال میں ہے۔ میں نے نہائت ادب سے سلام کیا اور ایک دفعہ پھر تصدیق کی کہ کیا واقعی آپ کے ایک ذاتی سول کورٹ کے مقدمے کا گذشتہ انیس سال سے فیصلہ نہیں ہوا۔

جسٹس ناصرہ اقبال نے ایک دفعہ پھر اپنی بات کی تصدیق کی۔ فون بند ہوا اور میں دیر تک گم سم رہا۔بات ہی کچھ ایسی تھی۔جسٹس ناصرہ اقبال لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس رہی ہیں۔ انکے شوہر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے ہیں۔ جسٹس جاوید اقبال سپریم کورٹ کے بھی جج کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ انکا گھرانہ وہ گھر انہ ہے جس میں دو جسٹس اور تین وکیل ہیں ۔

سب سے بڑی رحمت اس خانوادے پر یہ ہے کہ یہ شاعر مشرق حضرت علامہ اقبا ل کا گھرانہ ہے۔ جسٹس جاوید اقبال ان کے صاحبزادے اور ناصرہ اقبال انکے بہوہیں۔ جس بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا وہ یہ المیہ ہے کہ اگر ہمارے انصاف کے نظام میں اس خاندان کو انصاف نہیں مل سکا تو عام آدمی کے لئے تو انصاف کا حصول صرف ایک خواب ہے۔ سراب ہے اور اکثر یہ ایک عذاب ہے۔


ہم نے ہمیشہ اس ملک میں سول ملٹری تعلقات کو ہی ایک اہم موضوع سمجھا ہے۔ لیکن اس ملک کی فاضل عدلیہ کی صورت حال پر کبھی نظر نہیں ڈالی گئی۔ ایک بہت محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ملک میں انیس لاکھ مقدمات انصاف کی تلاش میں در بدر ہو رہے ہیں۔ عدالتوں میں جا کر ایک عام سائل کے ساتھ کیا ہوتا ہے اس کا لوگوں کا بہت حد تک اندازہ ہوگا۔ ہمیشہ سے سمجھا گیا ہے کہ اگر اس ملک میں لوگوں کا انصاف ملنا شروع ہو جائے تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔

کام میرٹ پر ہونے شروع ہو جائیں گے۔ کرپشن کا خاتمہ ہوگا۔ حق دار کو اسکا حق ملنا شروع ہو جائے گا۔ قصور وار کو سزا ملے گی ۔ بے قصور کی جان بخشی ہوگی۔ خطا کار کو پابند سلاسل کیا جائے گا۔سائل کو انصاف ملے گا۔ ترازو کے دونوں پلڑے برابر رہیں گے تو بات بنے گی۔ اسی لئے تو انصاف کی دیوی کے ماتھے پر پٹی بندھی ہے۔ وہ حقیر اور امیر میں تمیز نہیں کرتی۔

وہ چھوٹے بڑے میں فرق روا نہیں رکھتی۔ عدالتوں کا کام ظلم کو روکنا ہے۔ ظالم کے ہاتھ میں ہتھکڑی ڈلوانا ہے۔ مظلوم کی داد
رسی کرنا ہے۔انصاف کے علم کو بلندکرنا ہے۔ اس ملک کے آئین کا تحفظ کرنا ہے۔انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ آزادی اظہار کا تحفظ کرنا ہے۔ انصاف ہر شخص کی دہلیز تک پہنچانا ہے۔ یہ اتنا کٹھن اور جان جوکھوں والا کام ہے ہے کہ اس کے حصول میں بہت تندہی درکا ر ہے۔

مسلسل محنت اور کاوش سے ہی یہ منزل حاصل ہو سکتی ہے۔لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے یوں لگ رہا ہے جیسے اس ملک میں صرف ایک کیس ہے، ایک ہی مجرم ہے اور ایک ہی مقدمہ فاضل عدالت کے زیر غور ہے۔باقی تو سارے ملک میں انصاف کا نور پھیل ہی چکا ہے۔
المیہ یہ ہے اپنے ادارے کی کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے ہم نے دیکھا ہے کہ تاریخی طور پر عدلیہ کی توجہ کچھ اور امور پر زیادہ رہی ہے۔

آئین کا تحفظ کرنے والے ادارے نے ہی ایل ایف او اور پی سی او جیسے ججز تخلیق کیئے ۔ آمروں نے اسی عدلیہ کو اپنے مقاصد کے لئے بہت سہولت سے استعمال بھی کیا ہے۔ انصاف کے ادارے کے دل میں ہمیشہ سے ڈکٹیٹروں کیلئے دل میں نرمی ہی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی ہمارے مقدر میں ایوب خان لکھ دیئے گئے۔ کبھی اس ملک کے مرد حق ، ضیاء الحق کہلائے اور کبھی مشرف جیسے لوگ ہم پر برسوں کے لئے تھونپ دیئے گئے۔

انہی آمروں کے دور میں آئین کی دھجیاں بکھریں گئیں، دستور کو قدموں تلے روندا گیا۔ قانون کا تماشہ بنایا گیا۔ پھر انہی عدالتوں نے جمہوری حکمرانوں کے خلاف من مانے فیصلے دیئے ۔کسی کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا کسی کو نااہل کر دیا گیا کسی پر توہین کا الزام لگا کر فارغ کر دیا گیا۔ایک لمحے کو سوچیں اگر ہماری عدالتیں ان ڈکٹیٹروں کے سامنے ڈٹ جاتیں، حق کا بول بالا کرتیں ، انصاف کا پرچم بلند کرتیں تونہ اس ملک میں کوئی ایل ایف اوہوتا ، نہ پی سی او ججز کی روایت پڑتی۔

نہ آئین میں من مانی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتیں۔ نہ جمہوریت کا چہرہ داغدار ہوتانہ ووٹ کی حرمت پر کوئی سوال ہوتا ، نہ کبھی پارلیمنٹ کی توہین کی بات ہوتی نہ آزادی اظہار پر کوئی قد غن ہوتی ۔ ایسا ہوتاتو یہ ملک کتنا مختلف ہوتا ۔ اس ملک کی تقدیر بدل چکی ہوتی۔ چائینہ اور بھارت کی طرح ہمارا بھی اس خطے میں کوئی معاشی مقام ہوتا۔
ہمارے اداروں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھے۔

ہم آج بھی انہی بنیادی سوالوں کا کاسہ ہاتھ میں لئے کھڑے ہیں جو آج سے ستر سال پہلے ہماری جھولی میں تھے۔ ہم آج بھی عدالتوں کو عوام کے حق رائے دہی کی اہمیت سمجھا رہے ہیں۔ آج بھی انصاف کا نظام اپنے ادارے کی سمت درست کرنے کے بجائے دوسرے اداروں کی راہ میں روڑے اٹکا رہاہے اور آج بھی عوام کے حق حاکمیت کا سوال اٹھ رہا ہے۔ آج بھی ایک منتخب جمہوری وزیر اعظم انہی فیصلوں کی بھینٹ چڑھ رہا ہے جن کا خمیازہ ہم ماضی میں بھگت چکے ہیں۔

توہین عدالت پر تو بہت فتوے لگے چکے توہین ایوان، توہین پارلیمان اور توہین عوام کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔۔ عوامی مینڈیٹ کو عدالتوں میں زیر دام لانے کی روایت آج بھی سامنے آ رہی ۔ یہ صورت حال جہاں انصاف کے نظام کے بغض کی نشاندہی کرتی ہے وہاں اسے معتوب حکمرانوں کی خوش قسمتی بھی تصور کی جا سکتی ہے۔ اس لئے کہ عوام عدالتی فیصلوں کی بناء پر اپنے رہنماوں کو نہیں پرکھتے ۔

ان کی محبت کے اسلوب نرالے ہوتے ہیں۔ نواز شریف خوش قسمت ہیں کہ اس بوسیدہ نظام عدل سے انکو نااہل کیا گیا ہے اس لئے کہ عوام ایسے نکالے ہوئے لیڈروں کو سر پر تاج کی طرح رکھتے ہیں اور اس بات کا ثبوت آئندہ آنے والا الیکشن بھی ہوگا۔
یاد رکھیں ہمارا مسئلہ b 58 2 یا 62, 63 نہیں ہے۔یہ دونوں آئین سے نکال دیں تو بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔جمہوریت کی تذلیل کے لیے کوئی اور شق وارد ہو جائے گی۔

مسئلے کا حل سوچ کی تبدیلی میں ہے۔ جمہوریت کو عزت دینے کی شکل میں ہے۔ ووٹ کی حرمت کو تسلیم کرنے میں ہے۔ اس کے لئے جو کچھ بھی بن پڑے کرنا ہوگا۔ چاہے اس کے لئے نیا قانون بنانا پڑے ، نیا نصاب لکھنا پڑے یا پھر آئین میں تبدیلی درکار ہو سب کچھ کر گزرنا چاہیے۔ ستر سال ان فیصلوں کے لئے بہت ہوتے ہیں۔ اب ہمیں تاریخ کو نئے سرے سے لکھنا ہوگا اور نواز شریف اس کے لیے ہر طرح تیار نظر آتے ہیں ۔ سمجھنے کی بات اتنی ہے کہ انصاف ، جج صاحب، انصاف کی دھائی اس وقت صرف نواز شریف ہی نہیں دے رہے بلکہ اس آواز میں انصاف کے متلاشی انیس لاکھ اورسائلین کی آواز بھی شامل ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :