ٹھگوں کے ٹولے !!

ہفتہ 24 فروری 2018

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

زیادہ پرانی بات نہیں ،کوئی پانچ برس قبل انہی دنوں میں عمران خان کا دعوی تھا کہ عام الیکشن میں وہ سلائیڈنگ وکٹری حاصل کریں گے۔ ایسا نا ہوسکا اور نا ہی انکے دعووں کے مطابق وہ گزشتہ انتخابات کو 70ء کے الیکشن بنا سکے، ایسا ہوہی نہیں سکتا تھا کیوں کہ70ء کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی نے سوشلزم کے نظریے اور ”منصوبہ بند معیشت“کی بنیا د پرلڑے تھے جبکہ تحریک انصاف کامعاشی پروگرام موجودہ لوٹ کھسوٹ پر مبنی سرمایہ داری پر مبنی ہے‘ جس کے سبب موجودہ سماج ابتری اور گراؤٹ کی گہرائیوں کا شکار ہے۔

سترکے انتخابات کے پیچھے 68-79ء کی سوشلسٹ تحریک تھی ، جس نے سماج کو ’انقلابی حدت‘ سے تپایا ہوا تھے۔ عمران خان کی’ تحریک انصاف‘ کے پاس صرف”تبدیلی“ کا نعرہ ہے،یہ تبدیلی کن معنوں میں ہو‘اس کی وضاحت کبھی نہیں ہوسکی۔

(جاری ہے)

تحریک انصاف 70ء کے الیکشن جیسے نتائج تب حاصل کرتی جب اسکے پاس ایک تو سماجی و معاشی تبدیلی کا سنجیدہ پروگرام ہوتا اور ساتھ ہی ستر سالوں سے جمود کو گہرے کرنے کے ذمہ دار اورموجودہ نظام کے گھاگ اور لٹیرے’ الیکٹ ایبلز‘ کی جگہ پر انقلابی امیدوار ہوتے۔

مگر 2013ء کے الیکشن میں ”تحریک انصاف“ کے پاس وہی انتخابی امیدواران تھے جو قبل ازیں نون،قاف لیگوں یا پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں (بقول عمران خاں) ظلم کے نظام کو قائم ودائم رکھے ہوئے تھے۔ عمران خان کی حمائت میں بیشتر مڈل کلاس سے رکھنے والے ہیں جو اکیس بائیس کروڑ کی آبادی میں ڈھائی تین کروڑآ بادی کے ایک فعال حصے پرمشتمل ہے۔اکثریتی طبقے کو عمران خان نے کبھی سنجیدیگی سے ایڈریس ہی نہیں کیا، وجہ اسکی جماعت کا ’کلاس کیریکٹر‘ ہے ۔

پچھلے عام انتخابات میں تمام تر ڈھینگوں ، دعووں اور بڑی باتوں کے بعد‘وہ کامیابی نہیں مل سکی جسکے دعوے کئے جارہے تھے!اب بظاہر عمران خاں کی سیاست کا کوئی جواز نہیں بچتا تھا۔ مگر ”نان ایشوز‘ ‘پاکستان کی سیاست کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ لہذا پہلے مخصوص حلقوں کی دھاندلی پر شورشرابا بپا کیا گیا، کارپوریٹ میڈیا کی مدد سے پورے سماج کو اپنے نرغے میں لے لیا گیا۔

اسی دوران 124دن پر محیط پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین دھرنا دیا گیا۔عمران خان کی مدد کیلئے کینڈین مولانا طاہر القادری بھی عمران خان کے ہمسایہ بن بیٹھے۔ خوب گرج چمک ہوئی، زمین وآسمان کے قلابے ملائے گئے،حتہ کہ دھرنوں پر مامور کارپوریٹ میڈیا بالآخر کیمروں کو فکس کرکے اسٹیج تک ہی محدود کرنے پر مجبور ہوگیا،دھرنے تھے مگر لوگ نداردر۔

16دسمبرکا خونی دن جہاں پورے پاکستان کو لہو لہان کرگیا،ہردل آزردہ ہوگیا ،وہیں عمران خان کے عوام سے خالی دھرنے کو بھی باعزت راہ فرار فراہم کرگیا۔ یکایک پھر پاناما لیکس کا تحفہ آن ٹپکا اور وہی شورشرابہ پھر سے شروع ہوگیا۔ دوسرا دھرنا اپنے آغاز میں ہی ناکام ہورہا تھا وہاں سے پھر اس عدالتی کاروائی کا آغاز ہوا،جس سے ’عدالتی حکام‘ پہلو تہی کرتے آرہے تھے۔

اب تک بہت سے مراحل طے ہوچکے ،جن میں ”کرپشن کی امی جان “یعنی سرمایہ داری نظام کی بجائے اسکے ایک معمولی سے پیادے ’نواز شریف‘ کو بساط سے پٹخنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سوال کا جائیزہ لینے سے قبل کہ کیا کسی ایک نواز شریف یا ایک جہانگیر ترین کے سسٹم سے آؤٹ کرنے سے پورا نظام اپنی سمتوں اور مقاصد کو بدل لے گا؟ہم دیکھتے ہیں کہ اس پورے عرصہ یعنی13مئی 2013ء سے تادم تحریر1745دنوں یعنی پونے پانچ سالوں کے عرصے میں کانوں اور حواس کو معطل کیا رکھنے والے شورشرابے کے عقب میں کیا ہوتا رہا ہے۔

صرف چار سالوں میں پاکستان پر 35ارب ڈالر کے قرضوں کا اضافہ ہوا ،ان میں سے 17ارب ڈالر جون 2017ء تک پچھلے قرضوں کی ادائیگی کے لئے بطور قرض لئے گئے۔پچھلے پانچ سالوں میں30فی صدکی شرح اضافہ سے بڑھنے والے قرضوں کا کل حجم 79.2ارب ڈالر ہوچکا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک سال میں سب سے زیادہ قرضہ پچھلے سال یعنی2017میں 10.2ارب ڈالر لیا گیا۔تجارتی خسارے کیلئے 8ارب ڈالر مزید درکار ہیں۔

اسی دوران اس ڈالر کا ایکسچینج ریٹ پھر ناصرف 100روپے سے بڑھ کر 111.65روپے ہوچکے ہیں جس کے استحکام کے دعوے پوری شد ومد سے نواز حکومت اور اسحاق ڈار کرتے چلے آرہے تھے۔عالمی مارکیٹ میں فی بیرل تیل کے نرخ 62.66ڈالر ہیں ،عالمی منڈی میں یہی نرخ 2007ء میں بھی تھے مگر اس وقت پاکستان میں ڈیزل کے نرخ 64.88روپے فی لٹر تھے جبکہ اب یہ قیمت 98روپے فی لٹر سے بڑھ چکی ہے۔

اسکی وجہ ڈالر کے نرخ بڑھنا بھی ہے اور صارفین کومہیا کئے جانے والی پیٹرولیم مصنوعات پرعالمی مالیاتی اداروں کی دباؤ پر حکومتوں کی طرف سے عائد بھاری ٹیکسز اور ڈیوٹیاں بھی ہیں۔یہ سب اس شور شرابے کے عقب میں جاری وساری ہے ۔ عمران خان، عدالتیں اور حکومت کی سرگرمیوں کا کانوں کو پھاڑدینے والا شور 22کروڑ لوگوں کے حواس کو معطل کئے ہوئے ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق صرف 2016ء میں دولاکھ اڑتالیس لاکھ بچے پیدا ہوتے ہی مرگئے،یہ شرح اموا ت دنیا بھر کی اموات کا 10فی صدہے۔اسی طرح پیدا ہوکر پانچ سال تک کی عمر کے دوران غذائی قلت ، ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے 1133 بچے روزانہ موت سے ہمکنارہوتے ہیں،یعنی سالانہ چارلاکھ چودہ ہزاربچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے اس نظام کے عفریت کے ہاتھوں مرجاتے ہیں۔

جبکہ ایک اور سروے کے مطابق پاکستان کی 86فی صد آبادی فضلہ ملا پانی پینے پر مجبور ہے ۔اس گندے پانی کی وجہ سے جگر،معدے،ہڈیوں،جلد کی بیماریوں سے مرنے والوں کے اعدادوشمار میسرنہیں ہیں ،اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بے وقت کی موت کا شکار ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہی ہوگی۔اس وقت تین کروڑ کے قریب بچے سکول جانے کی عمر میں سکولوں سے باہر ہیں۔

کسی” ہنگامہ خیز “کے پاس اس بھیانک نظام کامتبادل نہیں ہے جس نے 64 فیصد آبادی کو غربت کی لکیر(دوسوبائیس روپے دہاڑی)سے نیچے دھکیلاہوا ہے۔حکومت کی طرف سے طے شدہ‘ مزدور کی کم ازکم اجرت 15000روپے ماہانہ ہے،جو کہ ایک غیر حقیقی اجرت ہے مگر المیہ یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد بھی ناہونے کے برابر ہے۔ایسے قانون کی حکمرانی عمران خاں کا خواب ہے جو اسکو اور اسکی پارٹی کو اقتدار پر پہنچادے تاکہ اسکے ساتھی کروڑوں روپے کو اربوں روپے میں بدل سکیں مگر ایسا کوئی جملہ اسکی زبان سے’ جھوٹ موٹ ‘میں بھی نہیں نکلا کہ وہ مزدورکی اجرت کو مزدوروں کے مطالبے کے مطابق ایک تولہ سونے کی قیمت کے برابر کریگا جوکہ پاکستان میں 2006ء تک دی جاتی تھی۔

عمران خان نے کبھی بھیانک سرمایہ داری اور خونخوار سامراجیت کے خلاف ایک لفظ منہ سے نہیں نکالا۔ نجکاری پالیسی اسکو بھی اتنی مرغوب ہے جتنی نواز شریف کی۔ عمران خان،زرداری اور نواز شریف نجی ملکیت کے نظام کے حامی ہیں۔نجی ملکیت کا نظام اس بددیانتی یا کرپشن کی ماں ہے جس پر عمران خان واویلہ مچا کر عام لوگوں کے اعصاب کومفلوج کئے ہوئے ہے ۔

مگر اسکا واویلہ آدھے سچ کے ساتھ ہے،اسکا ہدف صرف نواز شریف خاندان کی حکمرانی ہے،اسکا مقصد صرف اپنے اقتدار کا راستہ ہموارکرنا ہے۔ جبکہ وہ پورا سچ بولنے کی ناہمت رکھتاہے اورناہی پورے سچ کے نظام کا داعی ہے۔آدھے اور’سلیکٹڈ سچ‘ کی اس سٹوری سے عام آدمی کو کیادلچسپی ہوسکتی ہے ؟ عام آدمی کا مسئلہ نا تو پانامہ لیکس ہے،ناہی نوازشریف کے مسند اقتدار پربیٹھنے یا بے دخل ہونے میں ہے۔

عام آدمی اور پاکستان کے محنت کش طبقے کی اپنی زندگی اور اپنے مسائل ہیں۔ان مسائل کو جاننے اور حل کرنے کے درمیان سرمائے کی ایک دیوارنے عمران خان اورپاکستان کے محنت کش عوام کو ایک دوسرے سے دور کیا ہوا ہے۔ یہ دیوار عمران خان نا توڑ سکتا ہے اور نا ہی اکثریتی محنت کش طبقے کی حمائت حاصل کرسکتا ہے۔پھر سازشوں اورایمپائیر کی انگلیوں کا طریقہ کار ہی باقی رہ جاتا ہے۔

پہلا ایمپائیر دوغلی گیم کررہا تھا مگر دوسرا ایمپائیر ٹھگوں کے ٹولوں کے ایک حصے کو بے بس کرکے ٹھگوں کے نئے ٹولے کیلئے راستے ہموار کررہا ہے۔ستر سالوں سے درجنوں اقتدارنشین بدلے ہیں لیکن اگر نہیں بدلا تو اکثریتی محنت کش طبقے کا مقدر نہیں بدلا۔ اقتدار کی اس میوزیکل گیم کے شور کے پیچھے 22کروڑ لوگ ”تبدیلی کے ناٹک“ کو دیکھ رہے ہیں،مگرکب تک؟ ایک دن ان کواپنا مقدر خود بدلنے کیلئے تاریخ کے میدان میں نکلنا ہوگا تاکہ جعلی دھرنوں،جعلی تبدیلی اور جعلی انصاف کے ان ڈراموں کوہمیشہ کیلئے ختم کرکے حقیقی تبدیلی لائی جاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :