کھیلواڑ ہو رہا کھیلواڑ ۔۔

ہفتہ 24 فروری 2018

Afzal Sayal

افضل سیال

میں بھی عوام کی طرح پہلے سیاسی صورت حال پر کنفثیون کا شکار تھا اور حقیقت کی تصویر بھی اسی کنفثیون میں کہیں چھپی ہوئی ہے ،نوازشریف کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں اور 28جولائی کی نااہلی کے بعد انکے بیانیے پر نظر ڈالیں تو مستقبل کی تصویر بنانے میں آپکو مدد ملے گی ۔۔۔ حالات بتا رہے ہیں کہ ایک بار پھر عوام کے ساتھ کھیلواڑ ہو رہا ہے ۔

ن لیگ کے لیے فعل حال اچھا نہیں لیکن مستقبل بلکل اچھا دکھائی دے رہا ہے ،احتساب کے نام پر بساط بچھانے والوں نے جو نقشہ کھینچا ہے اس میں عمران خان کو اصغر خان بنانے کے راستے پرگامزن کردیا گیا ہے ،نوازشریف نے اپنا بیانیہ میں بساط بچھانے والوں سے ڈیل کرکے اپنی توپوں کا رخ عدالت کی جانب موڑ دیا ہے اور اپنے اصل دشمنوں کو فری ہینڈ دے دیا ہے تاکہ وہ کھل کر اپنے پلان پر عمل درآمد کروائیں ۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔ ملک کا قاضی لکیر کا فقیر بنکر انصاف کا معیار دوہرا اپنائے ہوئے ہے ، واضع لگ رہا ہے کہ قاضی کے فیصلے نواز شریف کے بیانیے کو جلاد بخش رہے ہیں ،پہلے دوسال پانامہ کھود تے رہے جس سے جھوٹ، منی ٹریل، سمیت جے آئی ٹی نے کئی الزامات کے ثبوت دیے لیکن نااہلی ہومیو پیتھک فیصلے کا سہارا لیکر اقامے پر کی ۔۔ نواز شریف کی نااہلی سے ثابت ہوا کہ اقامہ رکھنا پاکستان کا سب سے بڑا جرم ٹھہرہ ! لیکن وزیر داخلہ احسن اقبال نے پریس کانفرنس میں اپنے اقامہ ہولڈر ہونے کا اعتراف کیا جبکہ وزیردفاع خواجہ آصف نے اسلام باد ہائی کورٹ میں جو جواب جمع کروایا اس میں تسلیم کیا کہ میں اقامہ ہولڈر ہوں اور پچھلے کئی سال سے ابوظہبی کی کمپنی سے ماہانہ 53 ہزار درہم تنخواہ موصول کررہا ہوں ۔

۔ یہ دونوں کیس ' کانفلیکٹ آف انٹرسٹ ' یعنی مفادات کا ٹکراؤ اور اثاثہ جات چھپانے کا اوپن اینڈ شٹ کیس ہیں جس کا فیصلہ محض 30 منٹ کی سماعت میں ہوسکتا ہے۔لیکن انصاف کے ترازہ کا تول دیکھیں کہ آپ ایک وزیرااعظم کو تو اقامے پر نااہل کردیتے ہیں جبکہ دیگر اقامہ ہولڈر پر آنکھیں بند کرلیتے ہیں ۔۔ کیا انصاف کا یہ رویہ نواز شریف کے بیانیے کو تقویت کا باعث نہیں بن رہا ؟؟ نوازشریف اور اسکی کچن کیبنٹ عدالت پر مسلسل حملے کر رہے ہیں لیکن آپ آنکھیں بند کرکے انکو موقع فراہم کررہے ہیں تاکہ وہ عوام کے سامنے مظلوم بنکر کھیلواڑ کرے جس میں وہ کامیاب بھی ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ۔

۔۔۔۔
قاضی کی طرح نوازشریف کا بھی دوہرا معیار ہے( میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو ) نواز شریف صاحب کیا بھول گئے آپ نے ‏25 مئی 1996 کو لاہور میں مطالبہ کیا کہ کرپٹ سیاست دانوں پر تا حیات پابندی ہونی چاہیے،، وزیر اعظم گیلانی کی نااہلی پرآپکا فرمان ریکارڈ پر موجود ہے کہ عدالت کی آزادی پر ایسے درجن وزیر اعظم قربان ۔کیا بھول گئے جب آپ افتخار چوہدری اور جنرل کیانی اور پاشا کے اشارے پر کالا کوٹ پہن کرخود سپریم کورٹ گئے تھے اور گیلانی نااہل ہوا اور آپ نے مٹھائیاں تقسیم کیں ،کیا آپ بھول گئے کہ پیپلز پارٹی کی گذشتہ حکومت کو جسٹس افتخار چوہدری سے ملکر آپ نے پانچ سال کام نہیں کرنے دیا اور مختلف کیسوں میں الجھائے رکھا ۔

۔ کیا آپ بھول گئے جب آپ کہتے تھے کہ میں نے لانگ مارچ کرکے یہ موجودہ عدلیہ آزاد کروائی ہے ، میاں صاحب کیا آپ بھول گئے جب عمران خان دھندلی کے ایشو پر بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کرتا تھا اور کہتا تھا کہ دیکھو عوام نے دھندلی کرنے والوں کے خلاف فیصلہ سنا دیا ہے تو آپ کیا جواب دیتے تھے کیا بھول گئے ۔۔۔ میں یاد کرواتا ہوں ۔ دھندلی کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے،جلسوں میں عوام نے نہیں کرنا ۔

پھر جب اسی عدالت نے دھندلی کیس کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا تو عدلیہ آزاد تھی ۔ جب حدبیہ پیپر ری اوپن کیس خارج کرے توعدل دکھائی دیتا ہے لیکن اپنی ناایلی غلط ۔ جب آپ کیانی پاشا اور افتخار چوہدری سے ملکر الیکشن ہائی جیک کریں تو درست اوراگریہ کام کوئی اور کرے تو غلط ۔۔ لمبی لسٹ ہے میاں صاحب کے بھول جانے اورعوام کے ساتھ کھیلواڑ کرنے کی ایک کالم میں نہیں لکھ سکتا ۔

۔ مختصرا قاضی اور نوازشریف کا ماضی تقریبا ایک جیسا ہے یہ دونوں نظریہ ضرورت کے پیروکار ہیں اور نظریہ ضرورت انکے خون میں کینسر کی طرح شامل ہے لہذا آپ جتنا مرضی علاج تجویز کرلیں یہ کینسر ختم نہیں ہوگا جب تک آپ نظریہ ضرورت پیدا کرنے والوں کا اعلاج نہیں کریں گے ۔ میاں صاحب نے مرض کے جڑ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رکھا ہے اپنے بھائی کو وزیر اعظم اور مریم کو مستقبل کا لیڈر بنانے کے لیے ۔

۔ اچھا کھیلواڑ کھیلا جا رہا ہے عوام کے ساتھ کھیلواڑ کھیلنے والوں کب تک اس عوام کو بیوقوف بناو گے کیا آپ بھول گئے کہ تحریر سکوائر سے پہلے وہاں کے تمام ظاقتور ادارے ، حکمران ، بیورکریٹ ، اور انکے آقا سب کا گٹھ جوڑ تھا
صدام، قذافی اور حسنی مُبارک بھی اپنے گٹھ جوڑ کے ذریعے عوام کے ساتھ کھیلواڑ کرتے رہے لیکن آخر انجام بھیانک ہوا اللہ کا قانُون بہت سخت ہے۔ اور وہ نافذ ہوکر رہے گا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :