جلتا ہے جن کا خون چراغوں میں رات بھر

جمعرات 22 فروری 2018

Mian Mehmood Ul Hassan Muavia

میاں محمود الحسن معاویہ

پہلا منظر :چند آدمی ایک باریش شخص کو گھسیٹتے ہوئے بادشاہ کے دربار میں لارہے ہیں۔ لانے والے بیڑیوں میں جکڑے شخص کو کوڑوں سے پیٹ بھی رہے ہیں۔ کوڑ ے کھانے کے بعد وہ مظلوم شخص دونوں ہاتھ بلند کر کے کچھ کہتاہے جس پر پھر اسے سرکار ی ہرکاروں کے دُرّے اور جھڑکیاں کھانا پڑتی ہیں۔ ملزم کو خلیفہ کے دربار میں لایا گیا ۔
دربار میں عوام الناس کے علاوہ ہزاروں سرکاری علماء ،خلیفہ کی حمایت میں کھڑے ہیں ۔

خلیفہ پوچھتاہے ”احمد تم اکیلے پوری امت مسلمہ سے الگ باغیانہ مو قف کیوں رکھتے ہوں؟“ احمد بات کے لیے کھڑ ے ہوتے ہیں کہ بھاری بھر کم بیڑیاں اور ہتھ کڑیاں اذیت اور رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں ۔ خلیفہ ہتھ کڑیاں ،بیڑیاں کھولنے کا حکم دیتاہے ۔ احمدخلیفہ کے اعتراض کے جواب میں کہتے ہیں ” مامون ! جمہور اور امت مسلمہ سے الگ موقف آپ نے اختیار کیاہے ،میر ا موقف اور عقیدہ وہی ہے جو سلف الصالحین ،تابعین اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا ۔

(جاری ہے)

امت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ قرآن اللہ تعالی ٰ کی صفت ہے ، مخلوق نہیں کلام متکلم کی صفت ہوتا ہے ۔ اور پھر احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے قرآن وحدیث اور اجماع امت سے جب اپنے موقف پہ دلائل دیے تو وہ درباری علماء جو کچھ دیر پہلے احمد بن حنبل کو باغی ،بد عقیدہ اور گمراہ ثابت کر چکے ہیں، دم بخود ہو گئے ۔ان کے لٹکے ہوئے چہرے ، رکتی ہوئی سانسیں اور امام احمد بن حنبل کے موقف کے سامنے گونگی زبانیں بزبان حال اپنی گمراہی ،بدعقیدگی اور کاسہ لیسی کا اقرار کر رہی تھیں۔


خلیفہ سے جب کچھ بن نہ پڑا تو احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کو قید میں ڈالنے اور کوڑے مارنے کا حکم دیا ۔تاریخ نے یہ بات بھی محفوظ کی ہے کہ احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کو روزانہ کوڑے مارے جاتے اور وہ کوڑ ا جس سے ضربیں لگائی جاتیں اتنا سخت تھا کہ اگر وہ ایک کوڑ اہاتھی کی پیٹھ پر لگتاتو ہاتھی چنگھاڑتا ۔ہر کوڑے کے بعد امام احمد باآواز بلند پکارتے” لوگو مجھے پہچانو میں احمد بن حنبل ہوں میر اموقف ہے قرآن مخلوق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عظیم صفت ہے “درباری اورسرکاری ہنستے کہ کہاں ساری حکومت اور کہاں ایک مجبور شخص کا موقف !
مگر پھر دنیا نے دیکھا کہ حکومت والے بھی مر گئے اور ان کا جھوٹا موقف بھی ۔

احمد تنہا تھے مگر آج صدیوں بعد بھی نام اور موقف انھی کا زندہ ہے ۔جن کے حکم سے کوڑے مارے گئے ان کے نام سے بھی شاید کوئی واقف نہ ہو جبکہ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ آج بھی کروڑوں مسلمانوں کے مقتداء وپیشوا ہیں۔
اب ذرا دوسرا منظر بھی ملاحظہ کیجیے !
جھنگ صدر پپلیاں والا محلہ کے ایک چھوٹے سے مکان میں ایک باریش آدمی رات کے وقت محو استراحت ہے کہ یکایک دروازے پر لاتوں اور ڈنڈوں کی بارش ہوتی ہے ۔

پینتیس سالہ باریش شخص جو چھوٹے قد اورکمزور جسم کی وجہ سے نحیف و ضعیف بزرگ معلوم ہورہاتھا، دھوتی اور بنیان میں ہی دروازے کی طرف دوڑا کہ قمیض پہننے تک باہر کا دروازہ ہی نہ توڑ دیا جائے۔ جیسے ہی بزرگ چہرے والے جوان نے دروازے سے باہر جھانکا،باہر کھڑے سرکاری محافظوں نے لاتوں ،مکوں ،گھونسوں سے تواضع کرتے ہوئے بالوں سے گھسیٹ کر گاڑی میں ڈالا اور یہ جاوہ جا ۔


گھر میں بیوی دل پکڑ کر بیٹھ گئی کہ یااللہ یہ اچانک کیا آفت نازل ہوگئی؟ باریش شخص کو گرفتار کرتے ہی ایس ایچ او نے حکام بالا کو گلا پھاڑتے ہوئے یوںآ گاہ کیا گویا کشمیر فتح کر لیا ہو۔ کوتوالی سے ملزم کو سیدھا میانوالی جیل بھیج کر کال کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا ۔ حالت یہ ہے کہ تن پر نہ ڈھنگ کے کپڑے اور نہ بچھونا۔ ایک ماہ گزرنے کے باوجود کسی عدالت میں اس لیے پیش نہیں کیا کہ پکڑنے والوں کے نزدیک ایسے مجرم کے لیے کوئی قانون نہیں۔

مزید براں ایسے ملزم ومجرم کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک کسی قانون کا سامنا کرنے متحمل نہیں ہو سکتا ۔
اس باریش ملزم کوجو بول چال اور احوال سے مولوی معلوم ہوتا تھا ،چوبیس گھنٹے سزائے موت کی کوٹھڑی میں بند رکھا جاتا اس دوران اسے صرف ایک دفعہ قیدیوں کا مخصوص کھانا دیا جاتا ،اس کو دیکھ کر ہی یہ قیدی سیر ہوجاتا۔ بار بار مطالبے کے باوجود اس شدید گرمی اور حبس کے موسم میں پہننے کے لیے کپڑ ے بھی فراہم نہ کیے گئے۔

کوٹھڑ ی میں موجود بیت الخلاء میں غسل تو دور کی بات قضائے حاجت کے لیے جانا بھی مستقل عذاب تھا ۔
روزانہ کوٹھڑی میں، باہر سے مختلف افسران بالا آتے، قیدی سے گفتگو کرتے ،کاغذ پر دستخط کوکہتے۔ مگر مجال ہے جو قیدی اپنے موقف اور مشن سے پیچھے ہٹے ۔افسران کے جانے کے بعد قیدی کی شامت آجاتی ۔لاتوں ،مکوں اور مغلظات سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی مگر قیدی اپنے جرم سے انکار نہ کرتا۔

مارنے والوں میں سے جب کسی کا دل پسیجتا تو کہتا ”مولوی تو نے کیا صحابہ صحابہ کی رٹ لگائی ہوئی ہے، خواہ مخواہ اپنے آ پ کو بھی اور اپنے گھر والوں کو بھی عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے، کیا صحابہ صرف تیرے ہی ہیں؟“
قیدی جواب دیتا” کاش تم میرا موقف سمجھتے تو شاید یہ نہ کہتے تم کیا جانو میں کتنی عظیم جنگ لڑ رہا ہوں، مجھے مارنے والو، مجھے مجرم سمجھنے والو!میں تمھارے ایمان کی بقا ء کی جنگ لڑ رہا ہوں، صحابہ صحابہ جن کی رَٹ کو تم جرم او ر فضول بحث سمجھ رہے ہو وہ صحابہ ایمان کا معیار ہیں ،صحابہ اسلام کے عینی گواہ ہیں، صحابہ امت او ر نبی کے درمیان واسطہ ہیں، ہم تک قرآن پہنچانے والے اور سکھانے والے صحابہ ہیں ،صحابہ اسلام کے گواہ ہیں اور جب کسی مقدمہ کے گواہ مجروح ہو جائیں تو وہ مقدمہ کمزور اور ختم ہوجاتا ہے میں اسلام کا مقدمہ لڑ رہا ہوں، اسلام کے گواہوں کا تحفظ اسلا م کا تحفظ ہے ۔

“ قیدی کی بات پر بعض ہنستے اور بعض متفکر ہوتے کہ یہ کیسا مجرم ہے جو ہمارے ایمان کی بقاء اور حفاظت کے لیے تکلیفیں اور مصائب جھیل رہا ہے ۔
ایک ماہ بعد قیدی کی مسجد کے متولی کمیٹی کے دیگر ارکان کے ہمراہ ملاقات کی اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ پپلیاں والا محلہ کی جامع مسجد کے متولی جن کا نام غالباً اللہ دتہ تھا جونہی ایک ماہ کے بعد اپنے خطیب سے ملتے ہیں تو قیدی خطیب کی حالت زار دیکھ کر آبدیدہ ہو جاتے ہیں حاجی صاحب قیدی خطیب سے کہتے ہیں ”مولوی صاحب آپ کو بہت مارا ہے ،ظلم کی انتہا ہے کہ آپ کو کپڑے تک نہیں دیے گئے !“
قیدی خطیب نے ،جس کی خطابت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمة اللہ علیہ کے بعد منفرد اور شہرہ آفاق تھی ،جواب دیا”ہاں حاجی صاحب مارا تو بہت ہے مگر حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کم!“
مدت بعد قیدی خطیب آزاد فضاؤں میں آیا ۔

اب وہ صرف خطیب ہی نہیں اہلِ سنت کے ہر مکتب فکر کے دلوں کی آواز اور مقتداء بن چکا تھا ۔ قدسی صفات کے مالک حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ عاشق صحابہ کے ترانے گاتا رہا ۔ وہ کہا کرتا تھا کہ اگرمیں سچا ہوا تومیرے موقف کے تایید ضرور حرمین شریفین سے ہوگی ۔قلندر ہر چہ گوید،دیدہ گوید ۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ وہ دنیا میں نہیں رہا مگر اس کے مشن اور موقف کا اعلان مسجد نبوی کا خطیب اعلیٰ شیخ علی عبدالرحمن الحذیفی منبرِ رسول سے کر رہاتھا ۔


خیر بات قیدی خطیب کی ہورہی تھی کہ جب قید ،کال کوٹھڑی ،ناجائز مقدمات ،زباں بندی ،ضلع بندی جیسے مظالم بھی اسے حق نوازی اور حق گوئی سے باز نہ رکھ سکے تو پھر ہمیشہ کی طرح باطل نے اپنا آخری حربہ آزمایا اورامیر الاحرار کی طرح، اپنے مشن کے لیے قید اورسفر میں زندگی گزارنے والے امیرِ عزیمت کو جھنگ کے پپلیاں والا محلہ میں، احرار پارک کے سامنے، اس کے گھر کی دہلیز پرشبِ جمعہ27 رجب 22 فروری 1990 کو رات کے اندھیرے میں گولیوں سے چھلنی کر دیا۔


شہید خطیب کے جنازے میں انسانوں کا ٹھاٹیں مارتا سمندر قیدی کو مارنے اور شہید کرنے والوں کو بزبان حال سے کہہ رہا تھا #
قتل گاہوں سے چن کے ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
قیدی خطیب کے جنازے پر حافظ القرآن والحدیث حضرت مولانا عبداللہ درخواستی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا: میں نے دو آدمیوں کے جنازے میں فرشتوں کو کثرت سے شریک ہوتے ایک احمد علی لاہوری رحمة اللہ علیہ اور دوسرا اس شہید کے جنازے میں“
قیدی بہت دور جا چکا ہے جہاں سے واپسی ناممکن ہے مگر قیدی خطیب کا مشن ،موقف اور قافلہ جغرافیائی سرحدوں سے نکل کر عالمگیر ہو چکا کہ اس کی بنیادوں میں امیرِ عزیمت اور ان کے بعد والوں کا شاداب لہو شامل ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :