چھوٹی چھوٹی باتیں !

پیر 19 فروری 2018

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

ڈاکٹر عبدالکریم بکار شامی شہری ہیں ،معاشرتی موضوعات پر چالیس سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں ۔ یہ اپنے منفرد مقالات اور مضامین کی بنا پر دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ سعودی عرب کی اکثر یونیورسٹیوں میں تدریسی خدمات سرانجام دے چکے ہیں اوردنیا بھر کے سینکڑوں رسالوں اور اخبارات میں ان کے مضامین چھپتے ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے ان کی ایک تحریر نظر سے گزری، اس تحریر میں انہوں نے ہماری گھریلو زندگی کے لیے ایک دستور مرتب کیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ جس طرح کوئی ملک بغیر دستور کے نہیں چل سکتا اسی طرح جب تک گھر میں ہم کسی دستور کو نافذ نہیں کریں گے تو ہم گھر کو ٹھیک طرح سے نہیں چلا سکتے ۔

وہ کہتے ہیں کہ والدین ہرگز اس انتظار میں نا رہیں کہ سکول کالج ان کی اولاد کو اچھا شہری بنائیں گے بلکہ والدین کو خود اس ذمہ داری کا احساس کرنا ہو گا۔

(جاری ہے)

کیا ہی اچھا ہو کہ والدین گھروں میں ہی کچھ ایسے ہلکے پھلکے قوانین نافذ کر دیں جن پر عمل کر کے بچوں کے کردار میں پختگی آئے اور ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہو۔ڈاکٹر عبدالکریم نے جو دستور مرتب کیا ہے وہ تقریبا ہر گھر کے لیے قابل عمل ہے لیکن پھر بھی والدین اپنے گھر کے ماحول کے مطابق اس میں مناسب ترمیم و اضافہ کر سکتے ہیں ۔


گھر کا ہر فرد نماز کو اس کے وقت پر ادا کرے گا۔ ”برائے مہربانی“ اور ”جزاک اللہ“ کے کلمات کو گھر میں رواج دیا جائے گا۔ گھر میں مار پٹائی،گالم گلوچ یا لعن طعن والی ایسی کوئی بات نہیں ہوگی جس سے بدذوقی کا احساس پیدا ہو۔ اپنے احساسات اور خیالات کو ادب و احترام اور وضاحت کے ساتھ اپنے گھر والوں سے شیئر کیا جا ئے گا۔ جو کوئی بھی جس جس چیز کو (دروازہ، کھڑکی، ڈبہ، پلیٹ) کھولے گا اْسے بند بھی کرے گا، کچھ گر جائے تو اْسے اٹھائے گا اور جگہ کو اْس سے زیادہ صاف کر کے رکھے گا جیسے پہلے تھی۔

آپ کا کمرہ خالص آپ کی ذمہ داری ہے اور اس کی صفائی ستھرائی کے صرف آپ ذمہ دار ہوں گے۔ جو کوئی بات کرے گا، اْسے ٹوکے بغیر سنی جائے گی اور بات کو درمیان میں سے کوئی نہیں کاٹے گا۔ دو اشخاص دوسروں کے سامنے اتنے دھیمے لہجہ میں ہرگز گفتگو نہیں کریں گے کہ سننے والوں میں سے کسی کو چغلی یا غیبت کا احساس ہو ۔گھر کے بزرگ،سربراہان،والدین کوئی بات ،مشورہ یا حکم دیں اسے من و عن ماننا ہو گا خواہ آپ کو غلط لگے ۔

گھر میں داخل اور خارج ہوتے ہوئے سلام کرنا ہوگا۔ گھر کا ہر فرد روزانہ قرآن مجید کاایک پارہ تلاوت کرے گا۔ جو ہم سے ملنے آئے وہ ہمارے قوانین کا احترام کرے گا۔ گھر کا کوئی بھی فرد اپنے کمروں میں جا کر کچھ نہیں کھائے گا۔ رات گیارہ بجے کے بعد کوئی بھی نہیں جاگے گا۔ صبح فجر سے پہلے ہر شخص کوبشمول بچے اور بوڑھے جاگناہو گا-سمارٹ فون اور ڈیوائسز صرف رات نو بجے سے لیکر رات گیارہ بجے کے درمیان استعمال کی جا سکتی ہیں۔

والدین کے لئے احتراما کھڑا ہونا، اْن کے سر پر بوسہ دینا یا اْن کے ہاتھ چومنا ضروری شمار ہوگا۔ مل کر بیٹھنے کا وقت طے کیا جائے گا اور اس میں کسی قسم کی مواصلاتی ڈیوائس کا استعمال منع ہوگا۔ کھانے پینے کے وقت میں سب کی حاضری اور شمولیت ضروری ہوگی۔ رات کو بارہ بجے کے بعد کسی قسم کی تعلیمی سرگرمی کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔ گھر کے سارے افراد گھر اور گھر میں موجود ہر شئے کی حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے۔

اپنا کام ہر کوئی خود کرے گا، کوئی کسی دوسرے پر حکم نہیں جھاڑے گا، گھر کے سربراہان اپنا کام کسی کو کہہ سکتے ہیں اور اسکی تعمیل ہو گی- خاندان اور اْس کی ضروریات کسی بھی دوسری ضرورت پر مقدم ہو گی ۔کوئی بھی کسی کے کمرے یا علیحدگی والی جگہ پر دروازہ کھٹکھٹائے یا اس کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوگا۔ مہمان کے آنے پر خوش ہوا جائے گا، خوشی کا اظہار کیا جائے گا، انہیں ان کے مرتبہ سے بڑھ کر خوش آمدید کہا جائے گا اورمہمان کی خاطر مدارات اپنی حیثیت سے بڑھ کر کی جائے گی۔

گھر کا ہر فرد صبح سورہ یسین اور رات سوتے وقت سورہ الملک پڑھنے کا پابند ہو گا، کم از کم بیس سورتیں بچوں کو زبانی یا دکروائی جائیں گی ۔ گھر میں اسٹڈی روم کے نام سے ایک الگ کمرہ بنایا جا ئے گا جس میں سب بیٹھ کر کم از کم ایک گھنٹہ مطالعہ ضرور کریں گے ۔ درود شریف اور استغفار کی تسبیحات گھر کے ہر فرد پر لازم ہو ں گی اور رمضان میں تہجد پڑھنا سب کے لیے لازم ہو گا ۔


یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جنہیں ہم گھر کے دستور العمل کے طور پر نافذ کر سکتے ہیں ۔ ہر گھر اور اس کا سربراہ اپنے ماحول کے مطابق اس میں ترمیم و اضافہ کر سکتا ہے ۔ اگر ہم شروع سے ہی اپنے بچوں کو اس طرح کے دستور کا پابند بنا دیں تو ہمیں اسکول کالج سے یہ شکوہ نہ رہے کہ یہ ادارے بچوں کی تربیت نہیں کر تے ۔ یہ حقیقت ہے جو بچہ گھر سے تربیت نہیں سیکھتا اسے آپ دنیا کے مہنگے سے مہنگے اداروں میں داخل کر وا دیں وہ وہاں بھی تربیت نہیں سیکھے گا اس لیے والدین کو ابھی سے اس نکتے کو سمجھ لینا چاہئے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :