اچھا ہوا۔ عاصمہ جہانگیر انتقال کر گئیں

پیر 19 فروری 2018

Ammar Masood

عمار مسعود

عاصمہ جہانگیر نے اچھا کیا کہ وہ انتقال کرگئیں۔ عاصمہ جہانگیر نے بہت اچھا کیا کہ وہ اس وقت انتقال گئیں۔
زندگی موت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اس معاملے میں انسان بے بس ہے۔ لیکن اگر اپنی موت کے وقت کے تعین کا اختیار کسی کے پاس ہوتا تو عاصمہ جہانگیر کے انتقال کے لیے اس سے بہتر وقت کا انتخاب نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ میں ان کی موت پر سوگوار نہیں۔

میرا دل بھی تمام جمہوریت پسندوں کے ساتھ مل کر خون کے آنسو بہا رہا ہے۔میری آنکھیں بھی تمام انسانی حقوق کی جنگ لڑنے والوں کے ساتھ اشک بار ہیں۔ ہرمظلوم کے لئے آواز اٹھانے والی شخصیت کے انتقال پر میرے آنسو بھی نہیں تھم رہے ۔ لیکن اس سب کے باوجود مجھے کہنے دیجئے کہ عاصمہ جہانگیر نے بہت اچھا کیا کہ وہ اس وقت ہی انتقال کر گئیں۔

(جاری ہے)


ذرا ٹائمنگ تو دیکھئے کہ یہ وہ وقت ہے جب ہر طرف جمہوریت کا ”رولا“ پڑا ہوا ہے۔

آمریت کے خلاف آواز بلند کرنا عام ہو گیا ہے۔ جبر کے خلاف جدوجہد کرنا بہادری سمجھا جا رہا ہے۔ووٹ کے تقدس کا نعرہ لگ رہا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ملک کا جمہوری وزیراعظم عدالتوں نے کھڑے کھڑے بس ایک اقامے کی بنیاد پر فارغ کر دیا ۔ عدلیہ کے فیصلوں پر روز بہ روز تنازعات ہو رہے ہیں۔ عدالتوں کے ماضی کے کارناموں پر بات ہو رہی ہے۔ ڈکٹیٹروں کوپابند سلاسل کرنے پربحث جاری ہے۔

جے آئی ٹی کا فساد زیر بحث آ رہا ہے۔ ایسے میں عاصمہ جہانگیر جیسے لوگوں کی اہمیت بڑھ رہی تھی۔ لوگ ان جیسی جری شخصیات کے قصیدے پڑھ رہے تھے۔ ملک کا نااہل کر دہ وزیر اعظم ان سے خود اکثر فون پر بات کر رہا تھا۔ جمہوریت کے حق میں ہر مقدمے کا استغاثہ ان کو سونپا جا رہا تھا۔ عدالتوں کے ماضی پر بات کرنے کے لئے ان کو ہر چینل پر بلایا جا رہا تھا۔

بار کے تقریبات میں مہمان خصوصی وہ بن رہی تھیں۔ آمروں کے قبیح کردار پر بحث کے لئے ان کا چناو ہو رہا تھا۔ اقلیتوں کی آواز بلند کرنے کے لئے شمع محفل ان کے سامنے رکھ دی جاتی تھی۔ نقیب محسود کے بہیمانہ قتل پر پریس کلب میں خطاب کے لئے ان کو دعوت دی جا رہی تھی۔ ان کی شخصیت کی صفات پر ڈاکومنٹریاں بن رہی تھیں۔ بیرون ملک پاکستان میں ایک جمہوری پاکستان کے تصور کے لئے ان کا چہرہ استعمال کیا جا رہا تھا۔

2013 کی طرح اس بار بھی نگران وزیر اعظم کے لیے انکا نام سامنے آ رہا تھا۔ اگر چہ اس کارکن خاتون کو کبھی بھی کسی نے نگران وزیر اعظم نہیں بنانا تھا مگر جموریت کا نعرہ مارنے والوں کے لئے یہ نام فضا میں بلند کرنا ضروری تھا۔ ہونا وہی تھا جو سیاسی جماعتوں کی مصلحتوں نے گوارہ کرنا تھا اورسیاسی مصلحتوں میں عاصمہ جہانگیر کا نام کبھی پنپ نہیں سکتاتھا۔

وہ دبنگ خاتوں تھیں، سچ بولتی تھیں ،مصلحتوں کے ساتھ انکا گذارا نہیں ہو سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج سوشل میڈیا انکی یاد کے پیغاموں سے اٹا پرا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر سپیشل ٹرانسمیشنز ہو رہی ہیں۔پر نٹ میڈیا میں سپیشل سپلیمنٹ شائع کیئے جا رہے ہیں ۔قومی اعزاز سے تدفین کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ جنازے کی خبر فرنٹ پیج کی زینت بن رہی ہیں۔ بہادری کے اعزازات انکے نام ہو رہے ہیں۔

بین الاقوامی میڈیا میں انکی جرات اور بہادری کے گن گائے جا رہیں ہے۔ یہی وہ بہترین موقع تھا جب عاصمہ جہانگیر کو مرجانا چاہیے تھا۔ اس سے بہتر موقع اس ملک کے تاریخ میں میسر نہیں آ سکتا تھا۔
فرض کریں عاصمہ جہانگیر مرنے کا فیصلہ ایوب دور میں کرتیں یا پھر اجل کا فرشتہ اس زمانے میں ان پر جھپٹتا۔ تو اس وقت عاصمہ جہانگیرتاریخ کا ایک قابل نفرین کردار ہوتیں۔

وہ ایک ڈکٹیٹر کے خلاف جد و جہد کا آغاز کرتیں۔ جبر کے ماحول میں لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق کا سبق پڑ ھاتیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگروہ اس زمانے میں ہوتیں تو جگہ جگہ ،سرعام ایوب خان کے خلاف تقریرں کرتیں۔ فاطمہ جناح کے ایک آمر کے خلاف الیکشن لڑنے کا خوشدلی سے استقبال کرتیں۔ ہر جلسے میں ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتیں ۔ جب فاطمہ جناح کے جلوس پر گولی چلتی اور کئی نوجوان مارے جاتے تو انکا مقدمہ لے کر عدالت کے سامنے ڈٹ جاتیں۔

فاطمہ جناح کو غدار کہنے والے کو منہ بھر کر گالی دیتیں اور خود بھی غدار وطن کا خطاب پاتیں۔ ان باتوں سے بے پرواہ وہ ایسے میں عورتوں کی سیاسی جدوجہد کو منظم کرتیں۔ ایوب کے بنیادی حکومتوں کے نظام کے خلاف سینہ سپر ہو جاتیں اور اسے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتیں۔ایوب کے دس سالہ جشن آمریت سے انہیں قے آتی۔ جب ہر جگہ ایک ڈکٹیٹرکی حکومت کے دس سال مکمل ہونے پر شادیانے بج رہے ہوتے تو ایسے میں عاصمہ جہانگیر ہر چوک پر ماتم ڈال دیتیں۔

سرکاری پولیس ایسے میں انکو گرفتار کر کے کسی عقوبت خانے میں ڈال دیتی اور کسی اندھیری کال کوٹھڑی میں ان کی روح فقس عنصری سے پار ہو گئی ہوتی۔ ان کی موت گمنامی اور بدنامی میں ہوتی۔ ان کو وطن دشمن کا خطاب ملتا۔ انڈین ایجنٹ اور بھارتی جاسوس کہا جاتا اور ان کی موت پر شادیانے بجائے جاتے۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ عاصمہ جہانگیر نے بہت اچھا کیا جو اب انتقال کر گئیں۔


فرض کریں عاصمہ جہانگیر کا انتقال ضیاء الحق کے دور میں ہوتا تو اس خبر کا کہیں ذکر نہیں ہونا تھا۔ اس لئے کہ عاصمہ جانگیر پہلے تو بھٹو کے عدالتی قتل پر ہر فورم پر ماتم کرتٰیں ۔ ایک فوجی آمر کے ہاتھوں حلف اٹھانے والے ججوں کے خلاف ہاتھ دھو کر پڑ جاتیں۔ہم ان کی شکل سے بھی واقف نہ ہوتے اس لیے کہ وہ ٹی وی پر آنے کے لیے سر پر زبردستی ڈوپٹہ کرنے کی شرط قبول نہ کرتیں۔

ضیاء الحق کے اسلام کے خلاف وہ آواز بلند کرتیں۔ بچوں کو زبردستی ملییشیا کے یونیفارم پہنانے کا نوٹس لیتیں۔ روس کے جنگ میں خود جھونک دینی کی پالیسی کی خلاف جگہ جگہ بیان دیتیں۔ افغان مجاہدین کی فصل اپنی دھرتی پر تیار کرنے کے فیصلے کے خلاف سینہ سپر ہوتیں۔ ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کی مناہی کرتیں۔ ایم کیو ایم کی لسانی بنیادوں پر تنظیم پر ماتم کناں ہوتیں۔

جونیجو حکومت کو برطرف کرنے پر وہ اکیلی ہی کسی چوک میں دھرنہ دیتیں۔ بھارت سے مذاکرت کی خواہش پر ان کو ننگ وطن کہا جاتا۔ ہولی کھیلنے پر ان کو بدکردار مانا جاتا۔ مردانہ وار کام کرنے پر ان پر فاحشہ ہونے کا الزام لگتا۔ ان کے بارے میں مجلس شوری قرارداد پیش کرتی۔ علماء کنونشن میں انکے خلاف فتوی دیا جاتا۔ اوجڑی کیمپ کیس میں بے گناہ مر جانے والوں کا مقدمہ لڑنے پر ان کے خلاف غداری کے مقدمے بنتے۔

مسلسل گستاخیوں کی پاداش میں ان کو سرعام کوڑے لگائے جاتے۔ ان کی ایسی ملحدانہ اور کافرانہ صفات کی وجہ سے ان کو اصل جائے مقام یعنی قلعہ لاہور میں بنی زیرزمیں عقوبت گاہ میں پہنچا دیا جاتا۔ جس کی گیلی اور سلی دیواروں میں وہ جان سے گزر جاتیں اور ایک ملحد ، ملعون اور کافر کے مرنے پر سرکاری طور پر شکرانے کے نفل ادا کیے جاتے۔ اسی لیے بار بار کہتا ہوں کہ عاصمہ جہانگیر نے بہت اچھا کیا جو ابھی انتقال کر گئیں۔


یہ بھی اچھا ہوا کہ عاصمہ جہانگیر کا انتقال مشرف کے نو سالہ دور آمریت میں نہ ہوا۔ کیونکہ یہ وہ وقت تھاکہ جب وہ ایک بے بنیاد طیارہ سازش سے نالاں تھیں۔ جب وہ پی سی او ججز کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔ نواز شریف اور بے نظیر کو وطن واپس نہ آنے دینے کے فیصلے پر احتجاج کررہی تھیں۔ نائین الیون کے بعد آنے والے ایک فون کال پر ملک کے مستقبل کو تبدیل کرنے پر سرعام ماتم کر رہی تھیں۔

ڈرون حملوں میں مرنے والوں کا ماتم کر رہی تھیں ۔ مسنگ پرسنز کا نوٹس لے رہی تھیں۔ لال مسجد میں گولیوں کی بوچھاڑوں سے چھلنی ہونے والی بچیوں کے گھر گھر جا کر آنسو بہا رہی تھیں۔بے نظیرکے قتل کا ذمہ دار اس دور کے حاکم کو ٹہر ارہی تھیں۔ آمریت سے تعفن کا اظہار کر رہی تھیں۔ اکبر بگتی کے بہیمانہ قتل پر دنیا بھرمیں آواز بلند کررہی تھیں۔ روز بہ روز ہونے والے دھماکوں کا مورد الزام ایک ڈکٹیٹر کو ٹھر ارہی تھیں۔

یہ وہ وقت تھا جب وکلاء تحریک میں صف اول میں شامل تھیں۔انکے اختیار میں ہوتا تو بارہ مئی کو کراچی میں سڑکوں پر اندھا دھند فائرنگ سے مرنے والے وکیلوں کے ساتھ سینے پر گولی کھاتیں۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش پر غدار وطن کہلائی جا رہی تھیں۔یہ انکی خوش قسمتی تھی کہ ڈکٹیڑوں کے خلاف گستاخیوں پراور کسی دن اچانک اکبر بگتی کی طرح ایک بم سے ان جسم کے پر خچے نہیں اڑا دیے گئے۔

مجھے یقین ہے کہ اگر اایسا ہوتا تو ان کی موت پر سرکاری طور پرسکھ کا سانس لیا جاتا۔ میڈیا پر بات کرنے کی ممانعت ہوتی ۔ موم بتیاں جلانے والوں کو سزا ہوتی۔
عاصمہ جہانگیر اس ملک میں آذادنہ سوچ کا وہ استعارہ تھیں جو قوموں کو صدیوں میں نصیب ہوتا ہے۔ اسی طرح کی شخصیات کے انتقال کا وقت بھی نصیب کی بات ہوتی ہے۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ عاصمہ جہانگیر کا انتقال اس زمانے میں ہوا جب ہم ان پر فخر کر سکتے تھے۔ جب عورتیں ان کے جنازے میں شامل ہو سکتی تھیں۔ جب ہم ان کی مرگ کا شان سے ماتم کر سکتے تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :