گنے کے کاشتکاروں کی تذلیل

ہفتہ 17 فروری 2018

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

ہمارے ملک کا اب تک زیادہ علاقہ دیہاتی ہے اور ہمارے ملک میں کھانے پینے سمیت بہت سی مصنوعات کا انحصار ہماری اپنی ملکی پیداوار کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔اس لئے ہمارے معاشرتی پہلوؤں کے بڑے اثرات کسانوں اور زمینداروں پر بھی پڑتے ہیں۔ بیشتر علاقے ہمارے نہری ہیں اس لئے کسان انہی فصلوں کی ترجیحات، فصل کے منافع کے ساتھ مشروط رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے قیام پاکستان سے اب تک کسان بھی بھیڑ چال کا شکار رہے ہیں۔

بہت دفعہ نقصان اٹھایا ہے لیکن اس کے باوجود باز نہیں آتے۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے اب تک کسانوں سے ہمیشہ ہاتھ ہی ہوا ہے۔ ان کی مدد بھی کی گئی ہے ان کو قرضہ بھی دیا گیا ہے ان کے ٹیوب ویل بھی لگے ہیں تو ان عوامل کے پیچھے ملکی ترقی ملکی پیداوار کی بہتری کی بجائے سیاسی فوائد ہی نظر آئے ہیں۔

(جاری ہے)

وہ کسان جس نے گنا کاشت کرنے سے پہلے اس کی بہتر فصل سے اپنی بچیوں کی شادیاں کرنے اور نئے مکان بنانے کا پروگرام بنا رکھا تھا وہ کسان دن رات کی محنت کے بعد گنے کی خوبصورت فصل کو آگ لگانے پر مجبور ہیں۔

حکومت نے گنے کی قیمت جو شروع میں مقرر کی تھی شوگر مالکان وہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ گنے کی ٹرالیاں کئی کئی دن ملز کے باہر کھڑی رہتی ہیں۔ ڈرائیور مالکان مزدور بھوکے پیاسے گنا کی وصولی کے لئے بیمار ہو رہے ہیں ان کا گنا ملز لینے کے لئے تیار نہیں۔ وزیراعظم سے لے کر وزرائے اعلیٰ نے شوگر ملز مالکان کو ہدایت کر رکھی ہے۔ کسانوں کو گنے کی سرکاری قیمت 180 روپے من کے حساب سے ادا کی جائے مگر کئی کئی ہفتے گزرنے کے باوجود ادائیگیاں نہیں کی جا رہیں۔

منیجر ملز بلیک میل کرتے ہوئے کسانوں کو کہتے ہیں 135روپے کے حساب سے رقم لینی ہے تو لے لو،کسان ملز مالکان کے منیجرز کے ہاتھوں بُری طرح ذلیل خوار ہو رہے ہیں۔ غریب کسان جن کے خاندانوں کی زندگی کی سانسیں گنے کی قیمت آنے سے وابستہ ہے وہ مجبوراً 120روپے سے 135روپے کے حساب سے لینے پر مجبور ہیں اس سے بڑھ کر کسانوں کو ذلیل کیا جا رہا ہے اور کم قیمت دینے کے ساتھ ان کی زبان بندی کے لئے حلفیہ اشٹام لئے جا رہے ہیں۔

آپ میڈیا کے سامنے کوئی بیان نہیں دیں گے شوگر ملز مالکان کسانوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے پروگرام میں متحد نظر آتے ہیں۔ مالکان کے گٹھ جوڑ نے کسانوں کو ذلیل خوار کرنے میں نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ مالکان کے نمائندے کسانوں کو سادہ چٹوں پر ادائیگیاں کر رہے ہیں۔ ایک کسان نے دو لاکھ لینا ہے اس کو 20ہزار روپے دے کر چپ رہنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

کسانوں کو شوگر مافیا کروڑوں کا ٹیکہ لگا رہی ہے۔ 90 فیصد کسانوں نے حکومت کے سامنے رونا رویا ہے کہ ہماری پیداواری لاگت بھی پوری نہیں ہو رہی اس لئے ہم گنے کی کاشت سے توبہ کر رہے ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں کسانوں کی کسمپرسی کا یہ حال ہے ۔ ایک ایک ماہ سے ان کے گنے کی ٹرالیاں جو کرائے کی ہیں ملوں کے باہر کھڑی ہیں لمبی لمبی میلوں پر محیط لائنوں میں لگی ہیں جو میڈیا کے سامنے آ جاتا ہو اپنا بیان ریکارڈ کرا دیتا ہے اس کو گنا سزا کے طورپر ملز نہیں لے رہیں میاں شہبازشریف کے کئی اعلانات پر آج تک عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

کسانوں کو بلیک میل کرنے والے ملزمالکان کے نمائندوں کی گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں، مگر اخباری بیانات تک، عملی طور پر کچھ نہیں ہو رہا۔ گنے کے جس کا شتکار سے بات کریں وہ گنے کی کاشت سے توبہ توبہ کرتا نظر آتا ہے۔ پنجاب سندھ کے کسان ملز مالکان کی اجارہ داری ، ظلم کے آگے کھڑا ہونے کی بجائے آئندہ گنے کی کاشت نہ کرنے کا ایکا کر رہے ہیں۔ یہ کوئی نیک شگون نہیں ہے۔

شوگر مافیا اتنا پاور فل ہے۔ طاقت ور ہے۔ حکومت اس کی پولیس، عدلیہ اور اس کے احکامات کسی پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ ہمارا قرآن ہمارا اسلام، ہمارا مذہب کسی مزدور کی مزدوری اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ چار ماہ تک گنے کی کاشت کے پہلے دن سے فصل تیار ہونے تک قرضے لے لے کر غریب کسان بچوں کی طرح فصل تیار کرتا ہے جب ثمر لینے کا وقت آتا ہے اس وقت مخصوص لابی اپنے مفادات کے لئے غریبوں کے خوابوں کا قتل عام کرنے کے لئے گٹھ جوڑ کر لیتی ہے۔

گنے کی کاشت پر فی ایکڑ جو اخراجات آ رہے ہیں اس کا اگر جائزہ لیں تو منصف حضرات کو بھی فیصلہ کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔ایک ایکڑ کا سالانہ ٹھیکہ 35سے 40ہزار گنے کا بیج 10ہزار، کھاد کی دو بوری 7ہزار، یوریا کھاد 5بوری ،6500، سپرے 4000 گنے کی کٹائی+لوڈنگ،10ہزار کل خرچہ تقریباً 87ہزار 500بنتا ہے اس وقت جو انکم ہو رہی ہے وہ ہے 99ہزار 4سو روپے کسان کی سالانہ فی ایکڑ گنے کی کمائی 11900روپے بن رہی ہے۔

اب فیصلہ قوم کرے ان ظالم حکمرانوں کا قصور ہے یا ظالم شوگر مافیا کا ان کے ظلم و ستم کی وجہ سے ہمارا غریب کسان تباہ و برباد ہو رہا ہے۔ کاشتکاری سے توبہ کر رہا ہے۔ زمین، کافی ایکڑ ٹھیکہ جو 70ہزار تک ہو گیا ہے اب 30سے 35ہزار تک آ گیا ہے میں نے صرف گنے کی کاشت پر بات کی ہے۔ ہمارے کسانوں کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔
ہر فضل پر ایک کالم لکھا جا سکتا ہے اے اہل اقتدار ہوش کے ناخن لیں۔میں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔کاش کہ دل میں اتر جائے میری بات؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :