ایک چہرے پر کتنے چہرے!!

ہفتہ 17 فروری 2018

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

’انسانی زندگی‘ کے ارتقاء کی تاریخ انسان سے بھی پہلے’ زندگی کے جنم‘کے مراحل سے شروع ہوتی ہے۔حرکت کی موجودگی کی وجہ سے تبدیلیوں کا یہ ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ ’سادہ زندگی‘ کادارومدارماضی کے معاشی نظاموں کے ذرائع پیدوار کے سادہ ہونے اورپیداواری رشتوں کے مابین پچیدگیوں ،تضادات اور کشمکش کے پُرپیچ ہونے سے قبل تھا۔

انسانی محنت کے لوٹنے کا عمل بھی پہلے پہل سادہ اورنظرآنے والاہوا کرتا تھا۔مگرتبدیلی کسی ایک جہت میں تو نہیں ہوتی۔ براہ راست استحصال کی بجائے،ذرائع پیداوار کی جدت، رفتار اورپچیدگی کے ساتھ اسمبلی لائین کے وجودمیں آنے کے بعد ’محنت ‘ کو بھی ایک کی بجائے زیادہ مرحلوں ،تہہ در تہہ اور باربار لوٹنے کے طریقے متعارف کرائے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

پہلے براہ راست محنت لوٹی جاتی تھی۔ پھر اجرت کے درمیان میں آنے کے ساتھ کا
م کادورانیہ استحصال کوگہرا کرنے کابنیادی جزو بن گیا۔اگلے وقتوں میں 8گھنٹوں کا محنت کا دن ،مشینوں کی تیز رفتاری کی وجہ سے 16گھنٹے کے برابر محنت لوٹنے میں بدل چکا ہے۔100مزدوروں سے 200مزدوروں کی محنت کے برابر کام لینے کیلئے ورکنگ آورز بڑھائے بغیر بس ’مشین‘ کو تیز کردیا گیاہے۔

اس فارمولے کو کئی جہتوں سے لاگو کیا گیا ہے۔ براہ راست استحصال کوجتنا ملفوف بنایا جاتارہا ہے،اسکے اثرات اذہان،شعور،نفسیات،رویووں اور سماجی تعلقات پر بھی مرتب ہوتے آرہے ہیں۔اخلاقیات اور اخلاقی قدریں زمین پرتبدیلیوں کے ساتھ ساتھ بدلتی ہیں۔نسل انسان کے باہمی تعلقات غیرمرئی اورمبہم بنیادوں پر تشکیل نہیں پاتے اور ایسا چاہنے والوں کومایوسی کے علاوہ کچھ نصیب نہیں ہوتا۔

یہاں یہ واضع کرنا ضروری ہے کہ ’انسان ‘کا لفظ تاریخ کے لاامتناعی حوالے سے ’وحدت‘ کے طور پرتودرست معانی دے سکتا ہے ،مگر طبقات میں بٹی انسانی آبادی میں لفظ ’انسان‘سے پہلے ہمیں لازمی طور پر جاننا ہوگا کہ ہم اس انسان کی بات کررہے ہیں جو’ محنت‘ کررہا ہے یا ایسے انسان کا تذکرہ کیا جارہا ہے جو’ محنت ‘کو لوٹ رہا ہے ۔

جسمانی ہیئت اور جنیاتی بنیادوں پر ایک ہی قسم کی مخلوق ہونے کے باوجودمختلف طبقوں کے انسانوں کے دکھ،سکھ،فوائداور نقصان،خوشیاں اورغم سب ہی مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔اگرچہ زیردست طبقات کی بیشتر اخلاقی قدروں کاتعین بالادست طبقہ اور اسکے مفادات کا تحفظ کرنے والاحکمران طبقہ ہی کررہا ہوتا ہے مگر دو مختلف قسم کے طبقات کی اخلاقی قدروں کے عقب میں بھی معاشی رشتے اور مفادات پنہاں ہوتے ہیں۔

محنت کش طبقے اور طبقہ بالاء کی درمیانی پرت جس کومڈل کلاس کہا جاتا ہے میں سماجی طورپرسب سے زیادہ مستعمل لفظ ’منافقت‘ہے۔ زندگی کا کونسا شعبہ ،کونسی آبادی،کونسا کاروبار‘یاعلاقہ ہے جہاں ہر روز اس لفظ کی مالا جپنا ضروری نا خیال کیا جاتا ہو۔ملاں ، پروہت،پادری،ناصح،نیکو کار،سیاسی زعماء،استاد سب منافقت کے منارے کے گردطواف کرتے سماج پر نوحہ کناں ہیں۔

سینہ کوبی اور کوسنوں کی گونج میں منافقت کاعمل بھی جدید سے جدید پیرائے میں جاری وساری ہے۔ منافقت ہمارے عہد کا ناگزیر رویہ بن چکا ہے جس کا رونا رونے والے بھی اس پر عمل پیرا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔اس ’رویے ‘ کو پیداواری رشتوں سے الگ کرکے دیکھنے ،پرکھنے اور جانچنے کی ہر کوشش ناکامی اور بے بسی پر ہی منتنج ہوتی ہے۔چہروں پر چہرے سجائے لوگوں کی اس دنیا میں ہر انسان کوکتنا زیادہ کشٹ کاٹنا پڑتا ہے۔

منڈی کی معیشت کے انسان کا اصل چہرہ اسکے گھر میں بھی نہیں نظر آتا ہے۔مذہبی ٹونزلگانے والے فون اٹھاتے ہی دھندے کی ضروریات کے تابع کسی بھی حد کوپامال کرنے میں پشیمانی محسوس نہیں کرتے۔ وہ باپ جس کی دوکان داری،آڑھت اور لین دین کا انحصار ہی جھوٹ اور دھوکہ دہی پر ہوتاہے اس کو اپنے بچوں کوسچ بولنے کادرس دینا پڑتا ہے۔سڑک پر خود رانگ سائیڈ اور دائیں طرف چلنے والے استاد‘ طلباء کو بائیں طرف چلنے کا سبق دیتے نظر آتے ہیں۔

باہر تانک جھانک کے شوقین مردحضرات گھر کے اندر اپنی خواتین کو پردہ کرنے،غیرمردوں کی جانب توجہ نادینے اور خاندان کی سماجی وفاداری پر زوردیتے لمحہ بھی اپنے افعال پر شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔اس نظام کے کسی بھی ثناء خوان کیلئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ تمام ضابطے اپنے لئے بھی ضروری سمجھتا ہو جس کا وہ مبلغ ہو۔جس خوش اخلاقی،سادہ دلی ،تہذیب،اعلی گفتاراورشائستگی کامظاہرہ وہ اپنے باس یاکسی اور اعلی رتبے کے حامل سے کرتا ہے ،ماتحت یاکمترسے بات کرتے وہ 180کے زاویے کاموڑ کاٹتی دکھائی دیتی ہے۔

صالحین جس وقت گناہگاروں کو عاجزی اورانکساری کا درس دے رہے ہوتے ہیں انکے علم اور اعلی کردار کا گھمنڈ چھپائے نہیں چھپ رہا ہوتا۔ اس امر کاہم ہر روز نظارہ کرتے ہیں کہ ملک کے اندر جمہوریت مانگنے والی پارٹیوں کے اندر سخت قسم کی آمریتیں نافذ ہیں۔ ہر پارٹی میں ایک ”ہم خیال“ ٹولہ قوم کی قسمت کافیصلہ کرتا ہے۔پاکستان کی کسی بھی پارٹی کے اندر ’آزادانہ‘ طور پر پالیسیز پر مباحثہ نہیں ہوتا۔

کسی بھی سیاسی پارٹی میں نیچے سے اوپر تک ایسے ادارے ہی نہیں ہیں جہاں معیشت،خارجہ پالیسی،تعلیم،صحت،روزگار،غربت میں کمی،مزدوروں اور کسانوں سے متعلق معاملات،مہنگائی،توانائی سے متعلقہ موضوعات،ملک کو درپیش مختلف قسم کے مسائل،قومی اور صوبائی حلقوں میں مقامی نوعیت کے معاملات،انفراسٹرکچرز سے متعلقہ منصوبہ بندی وغیرہ پر گراس روٹ لیول سے سیاسی کارکنان یا پارٹی اراکین کی رائے کومرتب کیا جاسکے۔

پھراسکے بعد ان جملہ موضوعات پردرجہ بدرجہ بحث کو حتمی شکل کی طرف لیجایا جاسکے۔ مگرجمہوریت کاراگ ہر طرف بپا ہے ۔بلکہ ایک ستم ظریف نے تو ’جمہوریت کو بہترین انتقام‘ قراردینے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔بس پھر سب اس انتقامی جمہوریت کے ذریعہ عوام کی گوشمالی میں مصروف کار ہیں۔ لفظ انصاف کابھی بے تحاشہ استعمال کیا جاتا ہے بلکہ کچھ عرصہ پہلے تو ایک سیاسی پارٹی ہی اس نام سے بن چکی ہے۔

اس پارٹی کے جملہ لیڈر صاحبان کو اپنے مختلف قسم کے عدالتی کیسوں کو چلانے اور انصاف کے حصول کیلئے ’کروڑوں روپے‘ ان وکلاء کو دینے پڑرہے ہیں جو’ انصاف کے مندروں‘ کی زنجیریں ہلانے میں مہارت کے حوالے سے مشہور ہیں۔اگر کسی نظام میں ’انصاف ‘ بھی مارکیٹ میں بکنے والی ایک ’پراڈکٹ ‘ ہو تو پھر کسی بھی ’تحریک انصاف ‘ کا وجودبے معنی اور فاضل ہوجاتا ہے۔

اس دنیا میں وہ قوتیں جو امن اورشانتی سے منسوب قرارپاتی ہیں،بیشترجنگوں،خانہ جنگیوں،فسادات،قتل وغارت گری اوردھشت گردی کی پشت بانی میں بھی مصروف نظر آتی ہیں۔ پچھلی دھائی سے مارکیٹ میں سب سے زیادہ بکنے والی ’پراڈکٹ‘ دھشت گردی ہے۔دولت کا ایک بڑا حصہ دھشت گردی کرنے اور اسکو روکنے والوں کی جیبوں میں منتقل ہورہا ہے۔ کمپیوٹرسے متعلقہ افراد بخوبی جانتے ہیں کہ وائرس پھیلانے کا کام بھی انٹی وائرس پروگرام بنانے والی ’سافٹ وئیرکمپنیاں‘ہی کرتی ہیں۔

اسی طرح مارکیٹ اکانومی (سرمایہ داری) میں ادویات بناکر سالانہ کھربوں ڈالر کمانے والی کمپنیاں کیسے چاہیں گی کہ بیماریوں کا خاتمہ ہوجائے۔ صبر،تسلیم ورضا،اطاعت وبرداشت پرمبنی اخلاقیات کی تبلیغ اوربالادست طبقے کے احترام کی’تلقین‘ کے پیچھے بھی ‘آخر کچھ تو پنہاں ہے ! جبر،لوٹ کھسوٹ، دھوکہ دہی،جھوٹ اور چیٹنگ پر استوار اس نظام پر ایک حرف اٹھائے بغیر اس نظام کو سہنے والوں کی ’اخلاقی تربیت‘کے خواہاں معزز ناصحین آخر کارکس کی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں؟معززین کے پرسکون نورانی چہرے اس وقت وحشت اور قہر سے مسخ ہونا شروع ہوجاتے ہیں جب غربت،پسماندگی،بے بسی،امارت اورغربت کی خلیج جیسے سنگین معاملات پر انکی (دانستہ)’ہوائی اورمبہم باتوں‘کی بجائے زمینی حقائق اور ذمہ داران کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی جائے۔

اگر تو ہمارے اردگرد سب کچھ ہمیشہ سے ایسے ہی ہے جیسے اس وقت دکھائی دے رہا ہے ‘تب تویہ ظلم کا نظام دائمی قراردیا جاسکتا ہے۔ مگرغورکیا جائے تو صاف پتا چل جائے گا کہ ”جوہے وہ پہلے نہیں تھا اور جو اب ہے وہ نہیں رہے گا“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :