جب نظریات کھو جائیں

اتوار 11 فروری 2018

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

6جنوری 2018ء کی شام زورکوٹ میں منعقدپاکستان پیپلزپارٹی کا جلسہ عام تھا۔ جلسے کا انتظام وانصرام عوامی ثقافت کی بجائے ’کارپوریٹ کلچر‘ کی چغلی کھارہا تھا۔تین چار مختلف قسم کی درجہ بندیوں والی نشستوں کے بعد عوام الناس کی بھی ایک تعداد موجود تھی۔ اس جلسے کی تشہیری مہم میں جلسے کا کم اور ’ہولو گرام ٹیکنالوجی‘ کا زیادہ چرچا تھا۔

بہت سے لوگوں کو جلسہ سننے سے زیادہ ’ہولو ٹیکنالوجی ‘ دیکھنے کا زیادہ اشتیاق تھا۔ا خیال تھا کہ یہ ’ویڈیو لنک ‘ سے زیادہ ایڈوانس ٹیکنالوجی ہوگی جس میں ’براہ راست‘خطاب کی سہولت کے ساتھ ناظرین اور سامعین کو سوال کرنے اور براہ راست جواب سننے کا بھی موقع ملے گا۔مگرایساکچھ بھی نہیں تھا۔یہ بھی خیال تھا کہ اس مبینہ ٹیکنالوجی کے ذریعے پارٹی چیئرمین ہر شہر،قصبے، یونین کونسل میں پارٹی کے ووٹرتک رسائی حاصل کریں گے۔

(جاری ہے)

لگتا تھاکہ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ بیرون ملک گزارنے والے بلاول بھٹو اس”ٹیکنالوجی “ کے ذریعے گراس روٹ کے مسائل ،معاشی اورمعاشرتی کیفیت اور عام لوگوں کے رہن سہن اور سوچنے کے انداز کا مطالعہ کرنے کی کوشش کریں گے ۔ مگربدقسمتی سے ایسا کچھ بھی نا تھا۔ جس قسم کی ’ہولو ٹیکنالوجی‘ کا مظاہرہ دیکھنے کاموقع ملاوہ دراصل ایک ریکارڈشدہ فلم تھی ،جیسے پہلے سی ڈی ،ڈی وی ڈی یایو ایس بی میں محفوظ ڈیٹا سکرین پر دکھایا جاتا تھا۔

پہلے سے ریکارڈشدہ فلم کا ایک حصہ سندھ حکومت کے چند ترقیاتی منصوبوں کی عکس بندی پرمشتمل تھا جبکہ اصل فلم پاکستان پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ایک پیغام پر مشتمل تھی جس کا حتمی مقصد کارکنان کو پارٹی رکنیت سازی کی طرف مائل کرنا تھا۔یہ مہم ملک گیر چلائی جارہی ہے اور اس کا اصل مقصد اس سال کے وسط میں ہونے والے عام انتخابات کیلئے ”بچے کچھے کارکنان“ کو متحرک کرنا ہے تاکہ پھر ان’ بھٹی کے بالن‘ بننے والوں کوطبقہ امراء اور الیکٹ ایبلزکے الاؤ میں ڈالا جاسکے۔

الیکشن سے چند ماہ پہلے کی جانے والی رکنیت سازی مہم کا تعلق براہ راست الیکشن مہم کیلئے متحرک کارکنوں کی ضروریات کے تحت ہوتاہے اسکامقصد قطعی طور پر ”پارٹی کی تنظیم“ کو استوار کرنا نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو پارٹی کی رکنیت سازی کی مہم کئی سال پہلے شروع کی جاتی تاکہ الیکشن سے قبل صرف اراکین میں ہی اضافہ نا ہوبلکہ پارٹی بھی مضبوط ہوسکے۔

پچھلی دودھائیوں سے واضع طور پر محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی پربراجمان قیادتیں شعوری طور پر بغیر منظم پارٹی اور ڈھانچوں کے سیاست کرنا چاہ رہی ہیں۔بالکل پارٹی کے بغیر بھی گزارا نہیں ہے اس لئے جس قسم کے ضروری ڈھانچے مطلوب ہیں وہاں پر نامزد مخصوص قسم کے” کلونڈ“اشخاص کو ’عہدے دار‘ بنا یا جاتا ہے۔ یہ سب غیر جمہوری طریقے سے ہورہا ہے حالانکہ اس کے لئے ”پارٹی الیکشن “ کا باقاعدہ ڈھونگ رچایاجاتا ہے۔

مگر’ایران برانڈ جمہوریت‘ کی طرح عہدے کے طالب افرادسے باقاعدہ سی وی مانگ کر کارپوریٹ کمپنیوں کی طرزپر انٹرویو کیا جاتاہے ۔ جوشخص پارٹی قیادت کی طے کردہ’ جمہوری حدود‘ اور نظریاتی بندھنوں میں مقید ہوسکتا ہو اسی کو عہدے پر رکھا جاتا ہے۔ ایک صحت مند جمہوری بحث مباحثے اور آزادانہ سیاسی ماحول کوپروان چڑھانے کے راستے بندکردیے گئے ہیں۔

عہدے داری کیلئے کسی کارپوریٹ کمپنی کے ملازمین کی تقرری جیسا طریقہ کاروضع کیا گیا ہے۔ سیاسی کارکنان کا’نظریات کے بغیرکردار‘ کسی ’ موت کے کنویں‘ کے باہر لگے ہوئے پھٹے پر ناچنے والے ہجڑوں جیسا ہوتا ہے۔یہ ہجڑے ناچ ناچ کر مجمع جمع کرتے ہیں اور انکی وساطت سے ’موت کے کنویں ‘ کاٹکٹ بکتا ہے۔ اپنی ریکارڈ شدہ ’ہولوگرام‘ تقریر کے پہلے حصے میں بلاول بھٹو زرداری نے جو تہمید باندھی وہ تاریخی حقائق کے برعکس اور ایک من گھڑت نظریے پر مبنی تھی۔

انہوں نے کہا کہ بھٹو شہید نے پیپلز پارٹی ’تمام طبقات‘ کیلئے بنائی تھی، یہ سراسرتاریخ کومسخ کرنے والا بیان ہے جس کی’ مین بلیوارڈ لاہور‘ میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں 30نومبراور یکم دسمبر 1967ء میں بننے والی پیپلز پارٹی کے تاسیسی مقاصد کے ساتھ کسی قسم کی مطابقت نہیں ہے۔ تاسیسی پروگرام میں واضع کیا گیا ہے کہ ”پی پی بنانے کامقصد طبقات سے پاک سماج کی تشکیل ہے جو آج کے عہد میں صرف سوشلزم کے تحت ہی ممکن ہے “۔

دنیا بھر میں بننے والی ہر پارٹی کا ایک طبقاتی کردار ہوتا ہے، ہر پارٹی یا تو حکمران،استحصالی اور صاحب جائیداد طبقے کی نمائندہ ہوتی ہے یا محنت کش طبقے کی۔دونوں طبقے اگر ایک دوسرے کی ضد اور موت ہیں توپھر کوئی پارٹی دونوں متحارب اور کشمکش میں مبتلا طبقات کی یکساں نمائندہ کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ توسراسرا دھوکہ دہی ہے اور اس دھوکہ دہی کا نتیجہ کیا نکلا تھا ؟ بلاول بھٹو اور ملٹی کلاس پارٹی کے نظریات رکھنے والوں کے لئے ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی گھاٹ سے چند قدم کے فاصلہ پر اپنی کوٹھڑی میں بیٹھ کر ایک تحریر لکھی تھی جو بعد میں ”اگر مجھے قتل کیا گیا“ کے نام سے کتابی شکل میں چھپی تھی۔

اس کتاب میں بھٹو لکھتے ہیں کہ ”میں اس آزمائش(5جولائی 1977ء) میں اسلئے مبتلا ہوں ،کیونکہ میں نے ملک کے شکستہ ڈھانچے کوجوڑنے کیلئے ’دوطبقات ‘ کے مابین ایک آبرومندانہ مصالحت کرانے کی کوشش کی تھی، اس فوجی بغاوت کا سبق ہے کہ متضاد مفاد ات کے حامل طبقات کے مابین کسی قسم کی مفاہمت ایک یوٹوپیائی خواب ہے،ایک طبقاتی جنگ ناگزیر ہے جس میں ایک طبقہ برباد اور دوسرا فتح یاب ہوگا“۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی بدقسمتی ہے کہ اسکی تاسیسی دستاویزات اورموت کی کوٹھری میں بھٹو کے اعتراف اور تجزیے کو پارٹی کے چیئرمین تک نے یا تو پڑھا نہیں ہے یا پھربلاول بھٹو کے اساتذہ بننے یاکہلوانے والے خواتین وحضرات شعوری طور پر پی پی پی کی تاریخ کو مسخ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ہمہ قسم کی مسلم لیگوں، جماعت اسلامی ،تحریک انصاف سمیت بلاول کے بزرگوں اور سیاسی ٹیوٹرز کے سیاسی نظریات اور طبقاتی عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔

مگر تاریخ جس سرمایہ داری نظام اور سامراجیت پر مبنی مالیاتی نظام کو مسترد کرچکی ہے،اس پر پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کے انحصاراور اعتقاد کامطلب ہے کہ حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں اور انکی پارٹیوں کے پاس پاکستان کے بے روزگاری، پسماندگی ،جہالت ،لاعلاجی اور دھتکارے ہوئے عوام کو مصیبتوں سے نکالنے کیلئے کوئی حل نہیں ہے ۔جس سوشل ڈیموکریسی کابار بار پی پی قیادت ذکر کرکے اپنے لئے اسکو آئیڈیل قراردیتی ہے اسکا ماڈل بھی قصہ پارینہ بن چکا ہے۔

’ سوشل ڈیموکریسی ‘ کاچکمہ واپس اپنے اصل روپ، ڈراونے چہرے ،کٹوتیوں، چھانٹیوں، مستقل کی بجائے عارضی ملازمتوں اور کھلے استحصال کے ساتھ ان ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے جو سرد جنگ کے دوران مثالی بنا کردنیا کوسوشلزم کے متبادل کے طور پر دکھائے جاتے تھے۔ پارٹی قیادت جن نظریات کے ساتھ پورے پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں فتح کا خواب دے رہی ہے،ان پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے سیاسی دارالحکومت لاہور میں پیپلز پارٹی بنی تھی اور ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی تھی۔1970ء کے الیکشن میں پی پی پی نے لاہور کی سات میں سے سات قومی اسمبلی کی نشستوں پر فتح حاصل کی تھی۔ منصورہ کی نشست پر جماعت اسلامی کے مولانا محمد طفیل کو بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید نے شکست فاش سے ہمکنارکیا تھا۔ مولانا طفیل کے پاس پاکستانی روپوں کیس ساتھ امریکی ڈالر بھی تھے،کئی سال سے پی پی کے خلاف زہریلے پراپگنڈہ مہم ،ایک منظم دائیں بازو کی جماعت اور بہت سا اور بھی بارود تھا جب کہ شیخ محمد رشید کے پاس الیکشن فیس جمع کرانے کے بعد الیکشن مہم چلانے کیلئے ایک روپے بھی نہیں تھا۔

بس کچھ تھا تو صرف سوشلزم کے نظریات تھے۔انہی نظریات کے ساتھ قصور کے ملک اللہ دتہ جو کہ پیشے کے اعتبار سے نائی تھے نے ضلع قصور کے نامی گرامی جاگیرداروں کی ضمانتیں ضبط کرادی تھیں۔ایسے حیران کن نتائج ملک کے طول وعرض میں مرتب ہوئے تھے۔تب پارٹی نظریات کیا تھے؟ اور اب پارٹی کس گراوٹ پر کھڑی ہے ؟اگر اس سوال پر پارٹی اور قیادت غورکرلے تو شائد پھر وہ تاریخ کے بلیک ہول سے بھی بچ سکتے ہیں اور نظریات کے متبادل کے طور پر نئی ٹیکنالوجی ہولوگرام کے سطحی سہاروں کی محتاجی سے بھی بچ سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :