کتاب میلہ یا لوٹ میلہ

بدھ 7 فروری 2018

Hussain Jan

حُسین جان

کتاب پڑھنا اور پھر اس پر عمل کرنا ہی علم کی میراث۔ کتب بینی سے کے مندرجہ زیل فوائد ہیں۔ دماغی سکون، سٹریس میں کمی، علم کا بڑھوتڑی، الفاظ کے ذخیرہ میں اضافہ، یاداشت میں اصافہ، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ ، مستقل مزاجی، فوکس اور اچھا لکھنے میں مدد ۔ اب جس چیز کے اتنے فوائد ہوں اس کو حکومتی سطح پر نظر انداز کرنا بہت بڑی نااہلی ہے۔

معاشرئے میں بڑھتے جرائم اور جہالت و غربت میں واضح کمی کے لیے بھی کتب بینی بہت ضروری ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کے راز اگر دیکھیں جائیں تو اُنہوں نے اپنے عوام کو زیادہ سے زیادہ وہ سہولت مہیا کی جس سے معاشرئے میں بہتری کے امکانات زیادہ ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے تک ملک میں موٹرسائیکل کافی مہنگی تھیں۔ پھر حکومت نے مختلف کمپنیوں کو اس فیلڈ میں آنے کی دعوت دی جس سے اس سواری کی بہتات ہو گئی۔

(جاری ہے)

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے لوگوں کو بہت سے فوائد حاصل ہوئے۔
کسی زمانے میں پاکستان میں بھی کتب بینی کا بہت رواج تھا۔ گلی گلی کرایہ پر کتابیں ملتی تھیں۔ بچے کیا بڑھے سب کے سب ہی کتابیں کرائے پر لے جاتے ۔ پھر آہستہ آہستہ یہ روا ج دم توڑتا گیا۔ بڑی بڑی لائبریریاں بند ہوگئیں۔ بچوں کے ہاتھوں میں کتابوں کی جگہ موبائل آگئے۔ حکومت کو کتب بینی کو بڑھانے میں کبھی بھی دلچسپی نہیں رہی۔

خود کو دھوکہ دینے کے لیے ہم کہتے ہیں کہ موبائل سے بھی بچے سیکھ رہے ہیں۔ بالکل سیکھ رہے ہیں مگر ایسی چیزیں جن کے سیکھنے کی ابھی عمر نہیں ہوتی۔
لاہور میں چند سالوں سے ایک عظیم الشان کتاب میلے کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ ہم پہلے دن سے ہی اس کے عاشقوں میں شامل ہیں۔ کتاب میلے کے مقاصد بہت واضح ہونے چاہییں۔ تاکہ آنے والی نسل میں کتب بینی کا شوق بیدار ہو۔

کتاب میلے میں ہر طرح کی کتابیں مل جاتی ہیں۔ ہر سال کوئی نہ کوئی نیا ٹرینڈ ہوتا ہے۔ اس دفعہ ہم نے دیکھا کہ تاریخ پر بہت سی کتب تقریبا تمام سٹالز پر موجود تھیں۔ صلاح الدین ایوبی سے لے کر ٹیپو سلطان تک۔ شائد قوم میں جذبہ جہاد اُجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو کہ بظاہر مشکل نظر آرہا ہے۔
دوسرے ممالک میں کتاب میلوں کے مقاصد ، بچوں اور بڑوں کو کتابوں کی بہت سی قسمیں ایک ہی جگہ پر مہیا کرنا۔

والدین اور بچوں میں ایک ساتھ مطالع کا شوق پیدا کرنا۔ اچھی ادبی، معاشرتی، سیاسی، سائنسی اور دیگر کتابوں تک رسائی وغیرہ ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں جو چیز مہنگی ہو گی اس چیز سے لوگ دور بھاگتے ہیں۔ ہمارے ہاں کتاب میلے کا مقصد صرف اور صرف پیسے بنانا ہے۔ منتظمین کو سٹالز سے کمائی اور پبلشرز کو کتابیوں سے کمائی۔ پاکستان میں کبھی بھی کسی بھی حکومت نے شائد پبلشرز کے لیے کوئی ریگولیٹری سسٹم نافذ نہیں کیا۔

یہ لوگ کتاب کے نرخ بہت زیادہ رکھتے ہیں اور پھر اس پر چالیس پچاس فیصد ڈسکاونٹ نے نام پر عوام کو اُلو بناتے ہیں۔ بڑئے بڑئے کتب بین بھی اس زیادتی پر آواز بلند نہیں کرتے۔ 500یا 1000سے کم میں اچھی اور معیاری بک حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یہ زمہ داری حکومتوں پر ہوتی ہے کہ وہ کتابوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرئے۔ اس کے ساتھ اچھے لکھاری شائد رائلٹی بہت زیادہ لیتے ہوں گے تبی تو یہ لوگ کتابیں مہنگی بیچتے ہیں۔

ایک پبلشرز سے پوچھا کہ بھائی کتابوں پر آپ لو گ جو کاغذ استعمال کرتے ہو وہ بھی اتنا میعاری نہیں ہوتا اس کے باوجود کتابیں مہنگی کیو ں ہیں تو صاحب کا کہنا تھا کہ مصنفین ہم سے بہت زیادہ رائلٹی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ یہ مصنف اپنی کتابوں میں عوام کے مسائل پر روتے نظر آتے ہیں مگر رائلٹی کو کم کرنے پر کبھی تیار نہیں ہوتے۔ بہت سے پبلشرز وفات پا چکے لوگوں کی کتابوں چھاپ کر بھی بہت سا مال بناتے ہیں۔


کتاب میلے میں سرکاری اداروں میں سے صرف پنجاب بک فائڈیشن کا ہی سٹال نظر آیا لیکن اس دفعہ اس سٹال پر کوئی بھی قابل زکر کتاب موجود نہیں تھی۔ تقریبا تمام اداروں نے پرانی کتابوں کو ہی زینت بنا رکھا تھا۔ کیونکہ پاکستان میں نئے لکھنے والے رہے ہی نہیں۔ جن کو تھوڑا بہت لکھنا آتا ہے وہ اخبارات اور ٹیلی ویژن کا رُخ کئے ہوئے ہیں کہ بھائی بال بچوں کا پیٹ بھی پالنا ہے۔

بہت جلدی ترقی کرنے کے رازوں کی کتابیں بھی لوگ دھڑا دھڑ خرید رہے تھے۔ جبکہ لوگوں کو اندازہ ہونا چاہئے کہ کامیاب لوگوں کے پاس اتنا وقت کہاں ہوتا تھا کہ وہ ایسی کتب پڑھتے جو آجکل اُن کی کامیابوں پر لوگوں کو پڑھائی جارہی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس طرف بھرپور توجہ دے۔ کتابوں کی قیمتوں کو کم کرے ۔ اور قومی اداروں کے لیے بڑئے بڑئے مصنفین کی خدمات حاصل کر کے سرکاری خزانے سے ان کو ادئیگی کرے اور سستی کتابیں لوگوں کہ مہیا کرے۔

اس سے کتب بینی کے سوق کو تقویت ملے گی۔ اور ساتھ ساتھ پبلشرز کی اجاراداری بھی ختم ہو گی۔ باہر سے زیادہ تر بلکہ تمام تر کتابیں نجی پبلشرز ہی امپورٹ کرتے ہیں اسی لیے وہ پھر من مانی قیمتیں وصول کرتے ہیں۔ اگر یہی کام حکومتیں کریں تو عوام کو ریلف ملے گا۔یہ کام بھی ترجہی بنیادوں پر کرنے والا ہے۔ جس طرح سیاست میں کہا جاتا ہے کہ اقتدار کو نچلی سطح پر منتقل کیا جانا چاہیے۔ کہ اس سے بہترین لیڈر شپ پیدا ہوتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کو اس کا بہترین حل سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح ہر یوسی میں ایک اعدد بڑی لائبریری ہونی چاہیے تاکہ نچلی سطح سے بڑئے بڑئے لوگ اُوپر آئیں اور ملک کی بہتری کے لیے کام کر سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :