ڈولفن فورس بھی ناکوں پر

ہفتہ 3 فروری 2018

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

موجودہ اور سابق حکومتوں کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود پولیس اپنی ساکھ بحال کرنے میں ناکام رہی ہے۔ کے پی کے پولیس کی مثالیں دی جا رہی تھیں کہ سیاسی مداخلت سے پاک کر دی گئی ہے۔ عاصمہ کے قاتلوں کی عدم گرفتاری پر سپریم کورٹ نے بھری عدالت میں کے پی کے پولیس کی کارکردگی کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ ایک کالم میں ملک بھر کی پولیس کی کارکردگی پر روشنی ڈالنا ممکن نہیں۔

پنجاب پولیس پر بات کرتی اور قارئین کو دعوت دینی ہے وہ تجاویز دیں کہ خرابی کہاں ہے۔ میاں شہبازشریف نے گزشتہ 9سال سے زائد عرصہ میں پولیس اصلاحات پر بہت کام کیا ہے۔ سب سے بڑا گلہ جو پولیس کے حوالے سے کیا جاتا تھا کہ ان کی تنخواہیں کم ہیں۔ الاؤنس نہیں دیئے جاتے اوور ٹائم نہیں ملتا۔دیا جانے والا اسلحہ جدید ساخت کا نہیں۔

(جاری ہے)

ٹرانسپورٹ پرانی ہے اس میں دورائے نہیں۔

خادم اعلیٰ نے ٹریفک پولیس سے لے کر پنجاب میں پولیس کے اہلکاروں سے افسروں تک کی تنخواہوں کو ڈبل سے بھی زیادہ کر دیا گیا ہے۔ جدید اسلحہ سے لیس بھی کر دیا ہے۔ جدید موٹربائیکس اور گاڑیاں فراہم کر دی ہیں۔ الاؤنس اور اوورٹائم کی ادائیگی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ اس کے باوجود پولیس فورس اپنی ذمہ داری ادا کیوں نہیں کر رہی۔ خادم اعلیٰ پنجاب نے تھانہ کلچر کی تبدیلی کا دعویٰ کیا تھا۔

یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ ایف آئی آر کے اندراج اور تھانہ کلچر میں دوستانہ ماحول لانے کے لئے خواتین کی تعیناتی کی جائے۔ پھر وزیراعلیٰ نے ایسا کر دکھایا۔ مگر ناکامی دیکھنے کو ملی۔پھر مثالی تھانہ کلچر متعارف کرانے کا فیصلہ ہوا۔ جدید سہولتوں سے آراستہ گاڑیاں، کمپیوٹر، فرنیچر، استقبالیہ موبائل سب کچھ فراہم کیا گیا۔نتیجہ صفر رہا۔

تھانہ کلچر تبدیل کیوں نہیں ہو سکا۔ اس پر علیحدہ کالم لکھنا پڑے گا آج تو ہمیں پولیس فورسز کی مخصوص ڈگر پر بات کرنی ہے پولیس اصل ذمہ داری سے منہ موڑ کر مخصوص ٹریک پر کیوں آتی ہے یہ مسئلہ بھی زیر بحث آنا چاہیے۔ الزام پولیس فورسز بنانے والوں کو نہیں دیا جا سکتا۔آئیڈیا دینے والے اور عملی تصویر کشی کرنے والے دو مختلف شعبہ جات میں کامیابی کے لئے خادم اعلیٰ نے ایلیٹ فورس بنائی جدید ٹریننگ سے ہم آہنگ کیا گیا پھر یہ منفرد فورس سب کو اتنی اچھی لگی اس کو وی وی آئی پی کی سیکیورٹی تک محدود کر دیا گیا آخر کیوں؟ انسداد دہشت گردی فورس بنی ان کو بھی جدید اسلحہ سے لیس کیا گیا۔

گاڑیاں دی گئیں بڑی بڑی تنخواہیں بھی کارگر نہ ہوئیں۔ یہ کہا جاتا ہے دیگر پولیس فورسز سے بہتر ہے ۔عوام کو اس کی بہتری نظر نہیں آ رہی۔ پھر مجاہد فورس بنی موٹرسائیکل ملے تنخواہیں ملیں الاؤنسز ملے۔ پھر سب نے دیکھا مجاہد فورس بھی تھانوں کی پولیس کی معاون اور ناکوں کی بادشاہ قرار پائی۔ مطلوبہ نتائج نہ ملنے پر کوئیک رسپانس فورس متعارف کرائی گئی اس کو پیرو کا نام دیا گیا۔

نئی گاڑیاں اسلحہ دیا گیا اس کا انجام بھی ناکوں پر سکول، کالج، اکیڈمی کے بچوں کی جیبیں خالی کرنے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ پھر پیرو پر عدم اعتماد ہوا اور ترکی کی پولیس کی طرز پر ڈولفن متعارف کرائی گئی پہلے مرحلے میں ڈولفن کو لاہور میں متعارف کرانے کا فیصلہ ہوا اربوں روپے مختص ہوئے۔ سبزہ زار اور والٹن میں ٹریننگ سنٹرز بنے۔ 300 جدید موٹربائیک حاصل کی گئیں کمیونیکیشن کا جدید نظام متعارف کرایا گیا۔


لاہور شہر میں بڑھتی ہوئی وارداتوں خصوصاً سٹریٹ کرائم کے خاتمے کا ٹاسک دیا گیا۔ ڈولفن فورس کی خوب تشہیری مہم چلائی گئی۔ پہلے 700جوانوں کو ذمہ داری دی گئی پھر اس کو ڈبل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ مزید بڑھا کر 2000تک کرنے کی تجویز منظور ہو چکی ہے۔ 1300کے قریب جوان اس فورس میں کام کررہے ہیں۔ان کی بنیادی ذمہ داری 24گھنٹے گشت ہے اور ان کے موبائل نظام کو بھی کوئیک رسپانس سے مربوط کر دیا گیا ہے۔

ڈولفن فورس مجاہد فورس کا متبادل ہے۔ اس کا ٹاسک بھی مجاہد فورس سے ملتا جلتا ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے تھانوں کا کلچرایسی دیمک بن چکا ہے جو بھی اس کے ساتھ لگا اس کو بھی اس نے اپنا رنگ چڑھا دیا۔1998ء میں بننے والی ایلیٹ فورس کی بڑی تعداد VIP کی سیکیورٹی پر ڈیوٹی دے رہی ہے مگر بڑے افسروں کی سیکیورٹی کی ذمہ داری بھی اسی ایلیٹ فورس کے ذمہ ہے۔

ایسا لگتا ہے ایلیٹ فورس عوام کی حفاظت کے لئے بنائی ہی نہیں گئی تھی خواص کے لئے بنی اور آج بھی مخصوص ہے۔یہی حال مجاہد سکواڈ کا ہوا اور پھر پیرو فورس بھی تھانہ کلچر کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اب ڈولفن تھانوں کے نرغے میں آ رہی ہے۔ الارمنگ پوزیشن ہے 1300جوانوں کے گشت اور سیف سٹی کے منفرد منصوبے کے چالو ہونے کے باوجود سٹریٹ کرائم 20سے 25فیصد بڑھ گیا ہے اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

اگر راقم ناقص رائے میں ڈولفن کو فوری طور پر تھانوں کے شر سے بچانے کی ضرورت ہے۔
تھانوں کا رنگ پیرو فورس پر چڑھ چکا ہے جدید کاروں کو پارکوں کے کونوں میں اندھیرے میں کھڑا کرکے اکیڈمی سے واپس آنے والے بہن بھائیوں کی موٹرسائیکل روک کر 10اور 20روپے تک وصول کئے جا رہے ہیں۔ ڈولفن والے بھی مجاہد اور پیرو فورس کی طرح تھانوں کے اہلکاروں کی معاونت کے لئے ناکوں پر کھڑا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

اگر انہیں تھانے کے اہلکار نہ ملیں تو پھر اپنے دیگر ساتھیوں کو ملا کر محلوں کے کونے پر ناکے لگانا شروع ہو گئے ہیں بھتہ خوری کی بات نہیں کروں گا مگرقبرستانوں اور پارکوں کے کونوں پر اندھیرے میں کھڑا ہونا کہاں کا انصاف ہے۔
معلوم ہوا ہے لاہور کے 87تھانوں میں 277بیٹس انہیں دی گئی ہیں ابھی تک 63تھانوں کی 152 بیٹس پر 1040جوان دو شفٹوں میں 24گھنٹے ڈیوٹی دے رہے ہیں ان کے موبائل گشت سڑکوں کے ٹریفک اشاروں اور چوکوں میں ناکوں سے محسوس ہوتا ہے گزشتہ فورسز کی طرح ان کو بھی اپنی اصل ذمہ داری کا احساس نہیں، گشت کرتے کرتے شاید تھک جاتے ہیں تھکاوٹ وہ ناکوں پر مہنگائی سے ستائی ہوئی عوام کو تنگ کرکے اتارتے ہیں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

ابھی بگڑا کچھ نہیں اگر توجہ نہ دی گئی اس منفرد فورس کا انجام بھی شاہد مجاہدسکواڈ، پیرو فورس جیسا ہو گا ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے متعلقہ ادارے اپنی ذمہ داری ادا کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :