اردو ادب مر رہا ہے

جمعرات 1 فروری 2018

Hussain Jan

حُسین جان

علامہ اقبال، شیرانی، حالی، جالب، میر تقی میر، تابش، داغ ، احسان دانش، فراز احمد، ساغر صدیقی ، فیض احمد فیض، اشفاق احمد، سادات حسن منٹو، جون ایلیا، اے حمید، ابن انشاء، انتظار حُسین، عبداللہ حُسین ، ابن صفی اور ان جیسے پتا نہیں کتنے ادیب اور شعراء ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اردو کی وہ خدمت کی کہ رہتی دُنیا تک یاد رکھی جائے گی۔ ایسی ایسی تخلقیات ان لوگوں کے نام ہیں جس کی نظیر نہیں ملتی۔

ان لوگوں سے لاکھوں لوگوں نے فیض حاصل کیا۔ انہی کو پڑھ پڑھ کر بہت سے لوگ بڑئے بڑئے ادیب بنے۔ سماجی، معاشی و معاشرتی موضوعات پر قلموں نے ایسے موتی بکھرے کہ روح تازی ہو جاتی ہے۔ آج بھی جب ادب کی کوئی کتاب ڈھونڈنے نکلو تو پرانے ادیب ہی یاد آتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ تھے جو شاہی درباروں سے دور ہی رہا کرتے تھ۔

(جاری ہے)

من کی سنتے اور من کی ہی لکھتے۔ معاشرئے کی حقیقی چہرئے کی ترجمانی کرتے۔

ایسا کم ہی لکھتے تھے جو کسی ایک جماعت یا طبقے کی میراث کہلائے۔ جس میں برائی دیکھی اُس کی برائی لکھی ، جس میں اچھائی دیکھی برملا اُس کا اظہار کیا۔ کالم ہوں ، شاعری ہو یادوسری تصنیفات ہمیشہ ملک و قوم کی بھلائی کے لیے لکھا۔ علامہ اقبال کو ہی دیکھ لیں جب برصغیر کے مسلمان پستیوں میں زندگی گزار رہے تھے۔ غلامی کا طوق گلے میں تھا ایسے میں ان کی شاعری نے دلوں میں وہ ولولہ اُجاگر کی کہ مسلمان ایک الگ ریاست حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

جالب زمانہ جدید کی زندہ مثال ہے ایک ایسا انقلابی شاعر جس کے تعلقات بڑئے سے بڑئے سیاستدان سے تھے مگر بیٹی کے علاج کے پیسے نا تھے۔ ساری زندگی پولیس سے بھاگتے رہے۔ مگر لوگوں میں شعور کی شماع جلائے رکھی۔ آج بھی اردو نصا ب دیکھ لیں تمام کلاسوں میں انہی لوگوں کا کام پڑھایا جا رہا ہے۔ انگریزی ادب کو بھی مات دے رکھی تھی ہمارے ادیبوں نے۔

اگر ان لوگوں کی تصنیفات کے نام لکھنے شروع کروں تو جگہ کم پڑجائے گی۔
پھر کیا ہوا کہ ایک ایسی نسل نے جنم لیا جس نے ادب کو بیچا۔ سیاستدانوں کے تلوئے چاٹنا اپنا اشعار بنا لیا ۔ چند روپوں کی خاطر خود کو اور قوم کے گروی رکھا۔ ان ادیبوں نے سیاستدانوں کی گودوں میں جگہ بنا لی۔ حق میں لکھنا شروع کر دیا۔ حقیقی ادب تخلیق ہونا تقریبا بند ہو گیا۔

بڑے بڑے عہدئے حاصل کرنا مقصد بنا لیا گیا۔ معاشرتی مسائل کو ایک طرف رکھ کر مدا سرائی کی پالیسی اپنا لی گئی۔ خاندان کے لیے مراعات حاصل کی گیں۔ بچوں کو نوکریاں دلوائی گئیں۔ جب اچھا ادب لکھا ہی نہیں جائے گا تو پڑھا کہاں سے جائے گا۔ کمرشلزم نے ادب کو برباد کر دیا۔ اچھی نوکری کے لیے کالم اور کتابیں بیچیں جانے لگیں۔ غیر ملکی دوروں کی خاطر قوم سے جھوٹ بولا جاتا ہے۔

اپنے اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کی حق میں لکھا جا رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پبلشروں نے بھی اردو ادب کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ کتب اتنی مہنگی بیچتے ہیں کہ صرف وہی لوگ خریدتے ہیں جنہوں نے ڈرائنگ روم میں سجاکر رکھنی ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ زیادہ تر قصے کہانیاں ہی لکھے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف جب سے پاکستان بنا ہے اردو کی بہتری کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا۔

کتب بینی کا شوق قوم میں ناپید ہو چکا ہے۔ لایبریریاں نا ہونے کے برابر ہیں۔ کسی بھی سکول میں چلے جائیں آپ کو لائبریری نظر نہیں آئے گہ۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کسی حد تک لائبریریاں موجود ہیں مگر وہ سارا دن خالی رہتی ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ڈیجٹل کتابیں زیادہ پڑھی جارہی ہیں۔ یہ بات کسی حد تک سچ بھی ہے مگر آج بھی کتاب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

بات دراصل یہ ہے جب اچھا ادب لکھا ہی نہیں جائے گا تو لوگ کتاب کیونکر خریدیں گے۔ اسی لیے پرانی کتب انٹرنیٹ سے ڈاون لوڈ کر کے شوق کی تسکین کرتے ہیں۔ دوسری طرف اگر کوئی اچھی کتاب مارکیٹ میں آہی جائے تو اُس کی قیمت بہت زیادہ رکھ دی جاتی ہے۔ جو چند نام ابھی زندہ ہیں اُن کی کتب کی قیمت آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے۔ ملک میں ایک آدھ ادب کا ایوارڈ رکھا ہوا ہے۔

اس کے علاوہ ادب کے لیے کچھ نہیں کیا جارہا۔ اردوسائنس بورڈ کے نام سے ایک سفید ہاتھی پالا ہوا ہے۔ جس میں من پسند لوگوں کو نوازا جاتا ہے۔
اگر حکومت اردو نثر اور شاعری لکھنے والوں کے لیے کچھ انعامات کا علان کرئے یا تشہیر کا ہی وعدہ کرے تو بہت سے لوگوں میں تحریک پیدا ہو گی۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ادب میں جو خلاء پیدا ہو چکا ہے وہ کسی حد تک کم ہوجائے گا۔

سفارشی کلچر کو ختم کرنا ہو گا۔ کتابوں کی قیمت کم ہو اور چاپلوس ادیبوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ نا کہ اُن کو بڑئے بڑئے عہدئے دیے جائیں۔ اچھی کتابوں کو ہر جگہ موجود ہونا چاہئے آج آپ طلباء سے ادیبوں کے نام پوچھیں چند ایک کے سوا کوئی جواب نہہیں دے پائے گا۔ قوم کی حالت دھوبی کے کتے جیسے ہو چکی ہے جو نہ گھر کہ رہتا ہے نہ گھاٹ کا۔ ہم بھی نا انگریزی کے رہے نا اردو ۔ اگر حکومتیں ابھی بھی اس طرف دھیان دیں تو ملک کے ادبی خزانے میں خاطر خواہ اصافہ کیا جاسکتا ہے۔ بیچنے خریدنے کا کاروبار بند کرکے اچھا لوگوں کو آگے لانا چاہیے۔ ادب کے زریعے ہی ہم آنے والی نسلوں تک اپنے کلچر کو منتقل کر سکیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :