واہ! منو بھائی

جمعرات 1 فروری 2018

Farrukh Shahbaz Warraich

فرخ شہباز وڑائچ

ایسا دوسری مرتبہ ہوا تھا وہ سوال کا جواب دیتے دیتے رک گئے ان کی آنکھیں بند ہو گئیں ۔میں خاموشی سے بیٹھا دیکھتا رہا،کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد آواز پیدا کیے بغیر کمرے سے باہر نکل آیا۔میں باہر ویٹنگ ایریا میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگا ،تھوڑی دیر بعد مجھے دوبارہ کمرے میں بلایا گیا کہنے لگے ”بیٹا آپ نے کیا پوچھا تھا؟ سر وہ ،وہ میں کہہ رہا تھا مجھے لگا جیسے میرے الفاظ حلق سے نکلنے کی بجائے وہیں رہ گئے۔

ہمت جمع کر کے میں نے سوال دہرایا سر آپ کالم لکھنے کی طرف کیسے آئے؟ وہ گویا ہوئے
”میرے پاس ایک خاتون آئی تھی ۔ اس کا ایک بچہ گم ہوگیاتھااور سات دن ہوگئے تھے بچے کو گم ہوئے ۔ وہ بیچاری رو رہی تھی کہ میرا بچہ گم گیاہے۔ میں نے اس کی خبر دینی ہے۔

(جاری ہے)

میں نے پوچھا کیا نام ہے بچے کا؟ اس نے بچے کانام بتایا ۔ میں نے پوچھا بچے کی عمر کتنی ہے تو اس نے بتایا کہ سات سال ہے۔

کس قسم کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں،پاؤں میں کیاہے۔ اس خاتون نے بتایاکہ پاؤں میں ہوائی چپل ہے اور کپڑے سفید رنگ کے پہنے ہوئے ہیں مگر اب تو میلے کچیلے ہوگئے ہوں گے۔میں سوچ میں پڑ گیا یہ خاتون کیا کہہ رہی ہے ۔ اس واقعے نے مجھے کالم نگار بنایا کہ ماں جو بتا رہی ہے وہ روزاسے دھلے ہوئے کپڑے پہناتی ہے ۔ وہ سوچ سکتی ہے کہ اب بچے کے کپڑے سفید نہیں ہوں گے بلکہ میلے ہوگئے ہوں گے۔

تو پھر میں نے سوچا کہ ایک باپ جب آکر خبر لکھواتا تو اس نے سفید ہی لکھوانے تھے۔ یہ ماں ہی اس کو جانتی ہے کہ اب تک کپڑے میلے ہوگئے ہوں گے یا بڑی بہن سوچ سکتی ہے کہ وہ میلے ہوگئے ہوں گے۔ اس چیز نے مجھے کالم نگار بنادیا۔ مجھے احساس ہواکہ دوسروں کی نگاہ سے دیکھنا کتنا ضروری ہے۔ مجھے بتائیں اس دوران میں کپڑے کی کیا حالت ہوگئی ہوگی۔ اتنے لمحے جو گزرے ہیں اس میں کیا گزری ہوگی یہ صرف ماں ہی سوچ سکتی ہے ۔

۔ یہ ایک زاویہ ہے۔ہر واقعے کو مختلف طرح سے دیکھا جا سکتا ہے جیسے بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ایک جگہ پر لکھاتھا کہ لوگ درخت کو کس معیار سے دیکھتے ہیں۔ لکڑ ہارے کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں۔ تھکے ہوئے مسافر کی نظر سے بھی دیکھ سکتے ہیں جو اس کے سائے میں لیٹنا چاہتاہے۔ مولوی عبدالحق نے کہاکہ اس چڑیا کی نگاہ سے بھی درخت کو دیکھیں جو اپنے گھونسلے میں رہتی ہے اس درخت کے اوپر ،تو ہمیں اس نقطہٴ نظر سے بھی درخت کو دیکھناچاہیے ،پاکستان کو دیکھناچاہیے ۔

اپنے گھر میں بیٹھ کر ایک شہری کی نگاہ سے ملک کو دیکھناچاہیے۔ تو یہ مختلف زاویے ہیں جو زاویہ نگاہ ہیں۔
دبئی سے واپسی پر منو بھائی کی وفات کی خبر سن کر یہ سارا منظر فلیش بیک کی طرح میرے سامنے تھا اگلی دوپہرمیرے اندازے کے برعکس ریواز گارڈن کا یہ پارک ان سے محبت کرنے والوں سے کھچا کھچ بھرا تھا،کوئی ان کی شاعری تو کوئی ان کے کالموں کی یاد تازہ کر رہا تھا۔


منیر احمد قریشی نے 6 فروری 1933 کو وزیر آباد میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا میاں غلام حیدر قریشی امام مسجد تھے، کتابوں کی جلد سازی اور کتابت ان کا ذریعہ معاش تھا۔ وہ شاعری بھی کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے دادا سے ہی ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں، یوسف زلیخا کے قصے اور الف لیلیٰ کی کہانیاں سنیں، جس نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔

وزیرآباد سے 1947 میں میٹرک کرنے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج کیمبل پور آ گئے جہاں شفقت تنویر مرزا، منظور عارف اور عنایت الہی سے ان کی دوستی ہوئی۔ منیر احمد قریشی کو منو بھائی کا نام بھی احمد ندیم قاسمی نے دیا۔
7 جولائی 1970 کو اردو اخبار میں ان کا پہلا کالم شائع ہوا۔ جس کے بعد انہوں نے مختلف اخبارات میں ہزاروں کالم لکھے۔ غربت، عدم مساوات، سرمایہ دارانہ نظام، خواتین کا استحصال اور عام آدمی کے مسائل منو بھائی کے کالموں کے موضوعات تھے۔


ڈرامہ نگاری بھی منو بھائی کی شخصیت کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ انہوں نے پی ٹی وی کے لیے سونا چاندی، جھوک سیال، دشت اور عجائب گھر جیسے لازوال ڈرامے تحریر کیے۔منو بھائی نے سندس فاؤنڈیشن جیسا کامیاب ادارہ قائم کر کے اپنی شخصیت کو اپنی تحریروں کی طرح لازوال کر دیاآج یہ ادارہ تھیلیسیمیا کے مرض مبتلا بچوں کے لیے مضبوط سہارا ہے۔منو بھائی نے زندگی بھر جیسے ادب،صحافت اور انسانیت کی خدمت کی ان کی جدائی پر ”آہ منو بھائی“ نہیں ” واہ منو بھائی “ لکھنا بنتا ہے۔


منو بھائی کہتے ہیں
جو توں چاہناایں او نئیں ہونا
ہو نئیں جاندا کرنا پیندا
عشق سمندر ترنا پیندا
حق دی خاطر لڑنا پیندا
سکھ لئی دکھ وی جھلنا پیندا
جیون دے لئی مرنا پیندا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :