ڈاکڑ شاہد مسعود اور نواز شریف کے معاملات پر میڈیا کے الگ موقف کیوں؟

منگل 30 جنوری 2018

Zaheer Ahmed

ظہیر احمد

ڈاکٹر شاہد مسعود نے زینب کے قاتل عمران علی کے خفیہ اکاونٹس کے بارے میں انکشافات کیئے مگر عدالت میں طلبی پر ڈاکٹر صاحب نہ تو ثبوت دے سکے اور نہ ہی عدالت کو مطمئن کر سکے اور اگلے ہی دن اسٹیٹ بینک نے اس خبر کی تردید کردی کہ زینب کے قاتل کے کوئی خفیہ اکاونٹس ہیں۔اسکے بعد میڈیا میں ڈاکٹر شاہد مسعود کے خلاف گویا ایک طوفان آیا ۔۔ڈاکٹر شاہد کو بھی اس بات کا جواب دہ ہونا پڑے گا کہ وہ اکثر ایسی خبریں یا تبصرے کرتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور الٹا کسی جماعت یا کسی سیاسی شخصیت کے لیے نقصان کا باعث بنتے ہیں اور ماضی میں بھی ڈاکٹر صاحب کئی ایسے دعوے کر چکے ہیں جو کہ بعد میں غلط ثابت ہوئے ہیں ۔

۔ڈاکٹر صاحب پرائیوٹ میڈیا آنے کے بعد ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے شروع میں ہی اپنے پروگرامز کے ذریعے جگہ بنا لی اور عوام میں خاصی پذیرائی بھی ملی۔

(جاری ہے)


اب میڈیا پر باقی سنئیر لوگوں کا موقف ہے کہ ایسے لوگ جو غلط خبریں دیتے ہیں انکا عدالت احتساب کرے اور اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے ۔۔یہ مطالبہ بھی بلکل درست ہے ۔اب سوال یہ ہے میڈیا کا وہ حصہ بھی یہ مطالبہ کر رہا جو پانامہ کیس کے معاملے پر نواز شریف کے خلاف مقدمات پر عدالت کے خلاف ہے اور نواز شریف کے اس موقف کی تائید کرتا ہے کہ عوامی مینڈیٹ کی توہین ہوئی ہے اور عوام کو حق حاصل کہ ووٹ کے ذریعے ایسے فیصلوں کو رد کر دیا جائے کہ جن کے تحت کسی وزیر اعظم کو نااہل کردیا جاتا ہے اور ووٹ کی یا عوام کی رائے کی توہین کی جاتی ہے ۔

یہاں قطعا یہ مقصد نہیں کہ ایک میڈیا اینکر اور سیاسی شخصیت کا موازمہ کیا جائے بلکہ یہاں ایک نقط ہے ۔۔۔ کل اسی چینل پر جو نواز شریف کے دفاع کے حوالے سے مشہور ہے ایک ٹاک شو میں اینکر کا کہنا تھا کہ شاہد مسعود کے معاملے میں ایک پڑھی لکھی خاتون کا کہنا تھا کہ کیا یہ امکا ن نہیں کہ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ ہی غلط ہو ۔۔اس بات کے تذکرے کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے ہاں عوام پڑھی لکھی ہو کر بھی کس قسم کی باتیں کرتے ہیں ۔

۔پرگرام میں آگے جا کر پھر وہی اینکر کہتے ہیں کہ عوام میں بے حسی سے زیادہ دکھ انکی جہالت پر ہے اور آگے انکا کہنا تھا کہ ایسا نہیں کہ صیح معلومات موجود نہیں اسٹیٹ بینک کی رپورٹ موجود ہے پولیس کی تفتیش موجود ہے لیکن معاشرہ کہ رہا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے ۔۔۔یہاں اینکر اور چینل یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ جاہل عوام تو ایک طرف جس کو کچھ پتہ نہیں ہوتا یہاں تو پڑھے لکھے جاہل ہیں اور معاشرے کو بھی لاعلمی پر مورد الزام ٹھرا دیا ۔

۔۔اب یہی چینل پانامہ فیصلے پر نواز شریف کا بیانیہ کہ عوام ہی اصل فیصلہ کرتے ہیں ووٹ کا تقدس ہے جس کو پانچ جج نہیں فارغ کر سکتے کا بھرپور دفاع جاری ہے اب سوال یہ ہے جو عوام اور معاشرہ ڈاکڑ صاحب کے معاملے میں جاہل یا لاعلم ہے وہ پانامہ کیس کے معاملے پر عالم فاضل یا سمجھدار کیسے ہو گئے؟؟؟؟
اور پانامہ کیس میں بھی ثبوت اور دلائل موجود ہیں اعتراف بھی موجود ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نواز شریف اور انکے خاندان کی طرف سے اپنے دفاع میں کچھ بھی موجود نہیں ۔

۔تو کیا یہاں پانچ جج لاعلم ہوگئے جنھوں نے چھ ماہ کیس سنا اور عوام ایک دم عالم فاضل ہوگئے؟؟؟ آگے جار اسی شو میں ایک سیاستددان فرماتی ہیں کہ ہم نے لوگوں کو ٹیون ہی ایسے کر دیا ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی باتوں کا یقین کر لیتے ہیں اور ایک اور صحافی نے کہا کہ یہ شخص چودہ سال سے لوگوں کو یہی بتا رہا ہے ۔۔بلکل ٹھیک کہا تو شریف خاندان تیس سال سے یہی کچھ بتا رہا ہے تو چودہ سال کا اثر زیادہ ہوگا یا تیس سال کا زیادہ ہو گا؟؟؟
ایک اور سیاستدان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں جہالت بہت زیادہ ہے ۔

۔۔۔درست فرمایا جہالت زیادہ ہی ہوگی مگر نواز شریف کے کیس کے معاملے میں اسی جہالت کا دفاع کیوں؟؟؟ ووٹ کے تقدس کی رٹ کیوں ؟؟ عدالتوں کے فیصلے کے مقابلے میں عوامی مینڈیٹ کی باتیں کیوں؟؟؟ یہاں یہ نقطہ اٹھانے کا مقصد ہرگز عوامی مینڈیٹ کی توہین نہیں بلکہ وہ دوہرا معیار ہے جو کہ میڈیا کے حلقوں میں اپنی پسند نا پسند کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے۔

۔۔اور یہ سوال اٹھانا مقصد ہے کہ ایک حکمران جس نے اثاثے بنائے ہوں جو عدالت کو مطمئن نہ کر سکا ہو جو اپنے بے گناہ ہونے کا ثبوت نہ دے سکا ہو تو کیا وہ عوامی ووٹ اور عوامی مینڈیٹ کے پیچھے چھپ سکتا ہے؟ کیا وہ شخص جس کے اپنے اوپر اتنے سوالات ہوں وہ معزز ججوں پر الزامات لگا سکتا ہے؟ اگر ہاں تو پھر ڈاکڑ صاحب بھی کہہ سکتے ہیں میری ریٹنگ سب سے زیادہ ہے میری باتیں عوام سنتی بھی ہے اور یقین بھی کرتی ہے میں کہیں بھی چلا جاوں لوگ جوک در جوک سلام کرنے اور تصاویر بنانے کے لیے جمع ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو ہی فیصلہ کرنے دیں کہ میں درست کہہ رہا ہوں یا غلط کہہ رہا ہوں ۔

۔۔پھر عدالتوں کی کیا ضرورت انکو تو بند کر دینا چاہیے اور ہر معاملے کا فیصلہ عوام کو ہی کرنے دیا جائے اور عوام کو ایک کے معاملے میں مقدس کہنا اور عوامی رائے کو ہی آخری رائے کہنا جبکہ دوسرے معاملے میں عوام کو جاہل کہنا اور ان پڑھ گنوار کہنا بند کیا جائے یہ دوہرا معیار اور منافقت بند کی جائے۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :