سانحہ قصور: پولیس کتنی ذمہ دار ہے؟

منگل 30 جنوری 2018

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

9، جنوری کے دن نے پورے ملک کو سوگ میں مبتلا کر دیا۔ حواکی بیٹی ایک دفعہ پھر سر بازار درندوں کی درندگی کا نشانہ بنی۔ سات سالہ معصوم زینب کو جس بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیا اور پھر اس کے معصوم لاشے کی بے حرمتی کی گئی ، اسے دیکھ کر یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا ہمارا معاشرہ انسانوں کا معاشرہ ہے؟۔لیکن کچھ دیر بعد ہی مجھے اس کا جواب مل گیا کہ ابھی بھی ہمارے معاشرے میں انسانیت زندہ ہے ۔

جس کا ثبوت یہ ہے کہ واقعے کے فوری بعدسوشل میڈیا پرشور مچا، چیف جسٹس آف پاکستان حرکت میں آئے، ارباب اختیار اقتدار کے نشے سے نکلے اور پورے ملک کے سوگ میں ڈوبے لوگوں نے آواز بلند کی ، حکمرانوں نے ایکشن لیا اور پولیس ان ایکشن آئی ۔ 15روز اہلیان وطن کرب و الم میں مبتلا رہے اور بالآخر23، جنوری کو پولیس کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ سفاک مجرم قانون کی گرفت میں آگیا۔

(جاری ہے)


قارئین ! با وثوق ذرائع کے مطابق 2015سے 2018تک قصور میں آٹھ بچیوں سے زیادتی ہوئی۔ وہ بچیاں جن کے قہقہے گھروں کی رونق ہوتے تھے ، جن کی معصوم باتیں سخت دل انسانوں کو بھی مسکرانے پر مجبور کر دیتی تھیں، ان پیاری کلیوں کو بُری طرح مسل دیا گیا،ماؤں کی گودوں کو اجاڑ دیا گیا ۔سفاک مجرم نے آٹھ معصوم پریوں کو موت کی نیند سلا دیا ۔یاد رہے یہ اعداد و شمار وہ ہیں جن کی رپورٹ کی گئی لیکن ایسے کتنے واقعات ہیں جن کی رپورٹ ہی نہیں کی گئی ۔

ذرائع اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ 2015میں منظر عام پرا ٓنے والے 2008سے جاری جنسی سیکنڈل میں ملوث گرفتار ہونے والے ملزموں میں سے 10ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں جو کیسز واپس لینے کے لئے متاثرین کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ زیادتی کا شکارتین سو سے زائد لڑکے نقل مکانی کر گئے ہیں۔ پولیس پہلے بھی خاموش تھی اور اب بھی خاموش ہے ۔
افسوس کی بات ہے کہ سالانہ اربوں روپے کا بجٹ ہضم کر نے اور بڑے بڑے دعوے کر نے والی پولیس ان تمام واقعات پر خاموش تماشائی کا کردار اداء کرتی رہی ۔

محکمہ پولیس میں ایک خاص تعداد میں پائے جانے والے پولیس اہلکا سے سے لیکر افسر،جب انہوں نے اس محکمے کو جوائن کیا تو ان کے گھروں میں غربت، فاقہ اور بے سر و سامانی کا یہ عالم تھا کہ ان کے چہرے سے یہ چیزیں عیاں ہوتی تھیں ، لیکن حرام خوری میں انہوں نے ایسے ایسے ریکارڈ قائم کئے کہ بے گناہوں اور معصوم لوگوں کو پیسے لے کر اور سیاسی آقاؤں کی آشیر باد حاصل کر نے اور پھر بعد میں اپنی من پسند پوسٹنگ حاصل کر نے کے لئے جعلی پولیس مقابلوں میں پار کرتے رہے ۔

ان کے بڑے محلات، گاڑیاں، امپورٹڈ فر نیچر، عیش و عشرت کی ہرا ٓسائش ، انہی معصوم لوگوں کے خون سے وجود میں آئے ہیں ۔
راؤ انوار کی کہانی تو ایک طرف کہ پولیس رپورٹ کے مطابق کتنے پولیس مقابلے جعلی قرار پائے لیکن ہمارے حکمرانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہے ۔ قانو ن کی حکمرانی کا یہ عالم ہے کہ یہاں صرف ایک واقعے کا ذکر کرنا لازمی سمجھتا ہوں کہ گذشتہ سال قصور میں ہی ایمان فاطمہ نامی بچی کے قتل کے شبے میں پکڑے جانے والے آٹھ بہنوں اور بوڑھے ماں باپ کے واحد سہارے مدثر کو بغیر کسی تفتیش و ڈی۔

این۔اے ٹیسٹ کے، صرف ایک کونسلر کی سفارش پر 4 گھنٹے بعد ہی موت کے گھاٹ اتار دیا جا تا ہے ۔ اس واقعے کے بعد سب سے پہلے میرے دوست و سینئیر صحافی فرحان علی خان کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اُس نے جاکر وہاں حقائق کاپتہ لگایا اور معلوم ہوا کہ یہ انتہائی غریب انسان تھا ، قصور میں اس کا سسرال تھا اور یہ یہاں مقامی فیکٹری میں ملازمت کرتا تھا۔اس کا صرف نو ماہ کا معصوم بچہ عبداللہ ہے اور ظالموں نے اپنی واہ واہ کے لئے بوڑھے والدین ، جوان بہنوں و بیوی اور چھوٹے عبداللہ کو تاحیات بے آسرا ء کر دیا ہے ۔

مزید ظلم تو یہ ہوا کہ معصوم مدثر کے قتل کا مقدمہ اُس کے چھوٹے بھائی کے خلاف کر دیا گیا اورتدفین کے وقت بھی اہل خانہ کو اس قدر اذیت پہنچائی گئی جنہیں لفظوں میں بیان کر نا ناممکن ہے ۔
قارئین کرام !میرے نزدیک قصور میں جنسی زیادتی اور بعد ازاں قتل کئے جانی والی معصوم پریوں کی موت کی ذمہ دار پولیس ہے ۔ اگر پہلے ہی کیس میں زیادتی کا نشانہ بننے والی بچی کو اپنی بیٹی سمجھتے ہوئے سائنسی بنیادوں پر تفتیش ہوتی ، اصل ملزمان کا پتہ لگایا جاتا تو کم ازکم اتنے واقعات رونما نہ ہوتے ۔

بطور ایک تحقیقاتی صحافی کے میرے سامنے جو سوال سینہ چوڑا کئے کھڑا ہے کہ آخر وہ کیاوجوہات ہیں کہ بڑے بڑے دعوے کر نے والی پنجاب پولیس ، آٹھ واقعات کے بعد بھی ایک چھوٹے سے مجرم کو گرفتار کر نے میں ناکام رہی ؟ اگر یہ وجہ ہے تو پھر بہت سے کئی سولات جنم لیتے ہیں جو پھر کسی کالم میں عرض کروں گایا پھر ایسے تما م واقعات کے پیچھے کوئی مافیا ، طاقتور لوگ اور سیاسی پشت پناہی رکھنے والے لوگ ہیں جو ابھی بھی منظر عام پر نہیں لا جارہے؟ اب چونکہ معاملہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس خود دیکھ رہے ہیں میری ان سے یہ استدعا ہے کہ کیس کو اس پہلو سے بھی دیکھا جائے اور 9ماہ کے عبدللہ کے باپ اوراس جیسے معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتانے والے پولیس اہلکاروں و افسروں کے خلاف بھی کوئی ایسا تاریخی فیصلہ کیا جائے جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :