”سائیں سُنیہڑے گھلے “

بدھ 24 جنوری 2018

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

جس طرح ہر زبان اپنی ایک تاثیر رکھتی ہے اسی طرح پنجابی زبان کو بھی یہ ملکہ حاصل ہے کہ یہ اپنے اندر لوگوں کے دل تبدیل کر نے کی جادوئی طاقت رکھتی ہے ۔ یہ ان زبانوں میں صف اول میں شمار ہوتی ہے کہ لوگوں کو سمجھ نہ بھی آئے توبھی اس کی تاثیر انسان کی روح میں سرایت کر کے بہت کچھ سمجھا جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے کئی بڑے فنکاروں کے پنجابی کلام پڑھنے کے دوران انگریزوں کو جھومتے اور ان کی آنکھوں کو نم دیکھا ۔

پنجابی زبان کا یہ بھی کمال ہے کہ اس زبان میں ادب کا آغاز بابا فرید الدین گنج شکر  سے ہو تا ہے ۔ جن کا ایک ایک حرف حقیقت کو اپنے اند پنہاں کئے ہوئے ہے ۔صرف ایک شعر سے جن کی معرفت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ
#فرید، خاک نہ نیندیے،خاکوجیڈ نہ کوئی
جیوندیاں پیراں تلے مویاں اُپر ہوئے
ترجمہ:اے فرید مٹی کو حقیر مت جان کہ اس جیسی کوئی چیز نہیں کیونکہ یہ زندگی بھر پاؤں کے نیچے رہتی ہے اور موت کے بعد اوپر آجاتی ہے ۔

(جاری ہے)


پندھوری صدی سے انیسویں صدی کے دوران کئی مسلمان صوفی بزرگوں نے پنجابی زبان میں بے شمار کلام تحریر کئے جن کی بدولت لوگ جہاں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے وہاں اپنی روحانی کیفیات کوبھی جلا بخشتے رہے ۔با با بلھے شاہ ، وارث شا ہ ، شاہ حسین ، سلطان باہو، میاں محمد بخشاور خواجہ فرید کی شاعری اور کا فیاں اپنی مثال آپ ہیں۔ ان بزرگوں نے اپنے کلام کے ذریعے امن ، محبت اور برداشت کا پیغام دیا۔

پنجابی پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے ۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباََ13کروڑ افرادپنجابی بولتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جس کے ذریعے معاشرے میں ان تینوں چیزوں کو فروغ حاصل ہوا۔
قارئین کرام !پنجابی زبان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ زمانے کے ساتھ اس کی افادیت اور اہمیت میں اضافہ ہو تا گیا اور یوں کئی صدیاں گذر جانے کے باوجود بھی شعرا ء اپنی شاعری کے ذریعے صوفیا ء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے حصے کا چراغ روشن کئے ہوئے ہیں اور نفسا نفسی کے اس دور میں بھی صوفیا کے پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے میں ممد و معاون ثابت ہو رہے ہیں۔

انہی شعرا میں ایک نام اعظم ملک کا ہے ۔ صرف اعظم ملک ہی نہیں بلکہ ان کے بڑے بھائی ملک خالد یعقوب کو بھی یہ کمال حاصل ہے کہ نا امیدی اور مایوسی کی بد بودار گلیوں کی خاک چھانتے بہت سے لوگوں کو امید اور یقین کی دولت سے بہرہ ور کر نے میں آگے آگے رہتے ہیں ۔اللہ والوں کی محفلوں کی طرح ان کی محفل میں بیٹھے ہر شخص کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کا سب سے زیادہ تعلق میرے ساتھ ہے ۔


مخلو ق خدا سے محبت رکھنے والے درویش ٹائپ شخصیت کے چھوٹے بھائی اعظم ملک کی شاعری میں بھی درد میں گوندے ایسے الفاظ ملتے ہیں جوانسانوں کو امید اور یقین کے رستے کا مسافر بناتے ہیں ۔ عاجزی، انکساری کی دولت سے مالامال ، ہر چھوٹے ، بڑے کو جھک کر ملنا اور پھر عزت ، دولت اور شہرت کے باوجود ان تینوں کے غرور میں مبتلا نہ ہونا ان کا وصف ہے ۔

ان کے نزدیک زندگی گزارنے کا اپنا ایک طریقہ کار ہے جو ان کی شاعری سے جھلکتاہے ۔ ان کی شاعری کو مختصر ترین لفظوں میں بیان کیا جائے تو یہ چڑھتی صبح کا سورج ہے جس کی روشنی امید سے مماثلت رکھتی ہے ۔ 1996میں ”نال میرے کوئی چلے“ کے بعد اب” سائیں سُنیہڑے گھلے “ان کی شاعری کا ایسا مجموعہ ہے جسے پڑھ کر انسان اپنے آپ کو کسی اوردنیا کا مسافر سمجھتا ہے ۔

ایسی دنیاجہاں نفرت کی بجائے محبت ہوتی ہے ، جہاں بے سکونی کی بجائے سکون ہو تا ہے ، ظلم کی بجائے بھائی چارہ ہوتا ہے اور جہاں عدم برداشت کی بجائے برداشت کا کلچر ہوتا ہے ۔ لیکن جیسے ہی اس کتاب سے باہر نکلیں تو بندہ پھر سے اس دنیا کا مسافر محسوس کرتا ہے جسے اعظم ملک نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے ۔
#ہاڑا سُنے نہ کوئی
کندھاں دے گل لگ لگ روواں
بُوہے بند تے سُنجیاں گلیاں
خالی شہر نیں یاراں توں
تھاواں سبھے پکیاں جاپن
پِچھل پَیریاں مُڑ مُڑ جھاکن
پڑھ پڑھ ہانہہ تے پُھوکاں ماراں
کوئی دم درود نہ چلے
میرا اے بس اکو ہاڑا
”سائیں سُنیہڑے گھلے “

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :