خداکوکیاجواب دوگے۔۔؟

پیر 22 جنوری 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

یہ تقریباً سترہ اٹھارہ سال پہلے کی بات ہے اسلام آبادمیں درس وتدریس کے فرائض سرانجام دینے والے قاری عبداللہ مرحوم کابیٹااچانک لاپتہ ہوا۔قاری عبداللہ کاتعلق میرے آبائی گاؤں جوزسے ملحقہ علاقہ بیڑسے تھا۔گاؤں ورشتہ داری اورتعلق ونسبت کی بدولت ان کے لخت جگرکے اچانک غائب ہونے کی خبرمجھے بھی ملی ۔اوروں کی طرح ان کے معصوم بچے کی اس طرح اچانک گمشدگی پرمیں بھی بہت غمگین ہوا۔

۔محب اللہ جن کی عمراس وقت غالباًاٹھ نوسال ہوگی جمعرات والے دن مدرسے سے گھرکیلئے نکلااورپھرآج تک وہ گھرنہیں پہنچ سکا۔۔قاری عبداللہ مرحوم جب تک زندہ رہے وہ اپنے لخت جگرکی تلاش میں دربدرپھرتے رہے ۔۔ اس نے اپنے بیٹے کی تلاش کیلئے ملک کاکوئی کونااورحصہ نہیں چھوڑا۔محب اللہ محب اللہ کی صدابلندکرتے ہوئے انہوں نے ملک کاچپہ چپہ چھان مارالیکن دس پندرہ سالوں میں بھی انہیں اپنے جگرکوشے کاکوئی سراغ نہ مل سکا۔

(جاری ہے)

ایک دن اچانک میری قاری عبداللہ سے ملاقات ہوئی ۔باتوں باتوں میں وہ کہنے لگے ۔۔جوزوی صاحب ۔۔بیٹے کی گمشدگی نے ہماری زندگی عذاب بنادی ہے ۔۔بیٹابیٹاکرکے نہ جی سکتے ہیں اورنہ ہی مرسکتے ہیں ۔۔محب اللہ کی گمشدگی نے ہمیں جیتے جی ماردیاہے۔۔پتہ نہیں وہ کہاں اورکس حال میں ہوگا۔۔؟کچھ کھایاپیاہوگایانہیں۔۔؟شہرمیں ہوگا یاکسی صحرااور کسی جنگل میں ۔

۔؟اس سوچ نے ہمیں زندہ درگورکرکے آگ میں ڈالاہواہے ۔بیٹے کے بغیراب ہم جی نہیں سکتے۔۔قاری عبداللہ ٹھیک کہتے تھے معصوم محب اللہ کی اچانک گمشدگی نے پھران کے صحت مندجسم کودیمک کی طرح اس طرح چاٹااورمضبوط اعصاب کواس طرح شل کیاکہ وہ پھروقت سے پہلے ہی دنیاچھوڑنے پرمجبورہوگئے۔قاری عبداللہ اپنے لخت جگرکی یادمیں آنسوبہاتے بہاتے اس دنیاسے رخصت ہوگئے لیکن ان کے لخت جگرکاآج تک کوئی پتہ نہ چل سکا۔

۔انہیں زمین کھاگئی یاآسمان نگل گیا۔ اس سوال کاجواب آج بھی کسی کے پاس نہیں ۔گھرسے پالتوجانورغائب ہوجائے توانسان کی نیندیں حرام اورچین وسکون غارت ہوجاتاہے ۔پھراگرغائب ہونے والالخت جگریاجگرگوشہ ہوتوپھرزندگی کی سانسوں کارکنایاحرام ہونالازمی امرہے۔۔محب اللہ کوانسانی سمگلروں نے اٹھایایابردہ فروشوں نے اپناشکار بنایا۔اس کی حفاظت اورتلاش ریاست کی ذمہ داری تھی مگرافسوس یہاں توریاست حفاظت وتلاش کی بجائے قوم کے بیٹوں اوربیٹیوں کولاپتہ کرنے پرلگی ہوئی ہے ۔

۔کسی کے لخت جگریاجگرگوشے کوپولیس مقابلے میں پھڑکاناکہاں کاانصاف ہے۔۔؟کیااس ملک میں کوئی قانون اورنظام نہیں ۔۔؟دنیاکاکوئی مذہب اورقانون انسانوں کومویشیوں کی طرح اٹھانے اورمرغیوں کی طرح پھڑکانے کی اجازت نہیں دیتا۔۔کہتے ہیں کہ جس قتل کے قاتل نامعلوم ہوں اس کی قاتل پھرحکومت ہوتی ہے۔۔اس ملک میں روزانہ جن لوگوں کی زندگیاں نامعلوم افرادکے کھاتے میں ڈالی جاتی ہیں ۔

۔کیاان کی قاتل یہ حکومت اوربدمست حکمران نہیں ۔۔؟ڈنڈے کی چوٹ پرہم پہلے بھی کہتے رہے ہیں اورآج بھی کہتے ہیں کہ جولوگ ملک وقوم کے لئے خطرہ ہوں ۔۔جولوگ دشمنوں کے چیلے ہوں۔۔جولوگ دہشتگردی اورانتہاء پسندی میں ملوث ہوں انہیں آئین اورقانون کے دائرے میں سرعام سولی پرالٹالٹکاؤلیکن سیاسی انتقام اورذاتی مفادات کیلئے آئین اورقانون کوروندکرکسی کے لخت جگرکوپولیس مقابلے میں پھڑکانے کے ہم کل بھی مخالف تھے اورہم آج بھی اس طرح کے ظلم کرنے والوں پرلعنت بھیجتے ہیں ۔

۔ نقیب اللہ محسودکوہم نہیں جانتے۔۔وہ کون تھے اورکیاکرتے تھے ۔ہمیں اس کا ذرہ بھی کوئی علم نہیں ۔۔ہم نے توان کاچہرہ بھی ان کے جسم سے روح کارشتہ ٹوٹنے کے بعددیکھا۔لیکن ان کوپولیس مقابلے میں جس طرح پھڑکایاگیااس پراوروں کی طرح ہمیں بھی افسوس اورشرمندگی ہے ۔نقیب اللہ کی گولیوں سے چھلنی نعش دیکھ کردنیاہمارے بارے میں کیاکہے گی اورکیاسوچے گی۔

۔؟بے گناہوں کوجعلی پولیس مقابلوں میں پھڑکاپھڑکاکردہشتگردوں اورانتہاء پسندوں کوبھی ہم نے پیچھے چھوڑدیاہے۔۔دہشتگردوں کی طرح انسانوں کوپھڑکانے والے کام اگرہم نے کرنے ہیں توپھرہم میں اوردہشتگردوں میں کیافرق باقی رہتا ہے۔۔؟نقیب اللہ محسودکااگرکوئی جرم تھا۔۔؟اس نے واقعی اگرکوئی گناہ کیاتھا۔۔؟وہ ملک مخالف کسی کام میں حقیقت میں ملوث تھا۔

۔؟دہشتگردیاکسی انتہاء پسندگروہ سے اگران کے کوئی روابط تھے توان کافوجی عدالت میں ٹرائل کرکے ان کونشان عبرت بنادیاجاتا۔آئین اورقانون کے تحت ایک دونہیں کئی دہشتگردوں اورانتہاء پسندوں کوسولی پرلٹکایاگیا۔۔اس عمل کی آج تک کسی نے کوئی مخالفت نہیں کی بلکہ دہشتگردوں ۔۔انتہاپسندوں اورملک دشمنوں کے نشان عبرت بننے پرہرکسی نے شکرانے کے نوافل بھی اداکئے۔

۔آج کراچی سے خیبرتک پوری قوم صرف اس لئے سراپااحتجاج ہے کہ نقیب اللہ محسودکوجس طرح درندگی اوربربریت کانشانہ بنایاگیااس میں آئین اورقانون کوبھی رونداگیا۔۔پولیس مقابلے ہی اگرانصاف کی کسوٹی اورہرکردہ وناکردہ گناہ کی سزاہے توپھرملک سے عدالتی سسٹم کوختم کیوں نہیں کیاجاتا۔۔؟ملک میں عام عدالتوں کے ساتھ فوجی عدالتوں کاقیام صرف اس مقصدکے لئے عمل میں لایاگیاہے تاکہ مجرم کوحقیقی معنوں میں اس کے جرم کی سزااوربے گناہ کوانصاف مل سکے۔

۔ اب اگرسندھ یاپنجاب میں پولیس مقابلوں کے ذریعے رات کی تاریکیوں میں بیڑیوں اورہتھکڑیوں سے بندھے انسانوں پرسیدھی گولیاں چلانے کے ذریعے اگر انصاف کے فیصلے کئے جائیں توپھرآئین اورقانون کے ساتھ ملک کے عدالتی نظام کاکیافائدہ یاکیاضرورت۔۔؟ہم ہرگزیہ نہیں کہتے کہ کسی مجرم کوچھوڑدیاجائے یاکسی دہشتگرد۔۔انتہاء پسنداورملک دشمن کومعاف کیاجائے لیکن یہ ضرورکہتے ہیں کہ خدارارات کی تاریکیوں میں اپنی عدالت لگاکرکسی کے بے گناہ لخت جگرکوجعلی پولیس مقابلوں میں نہ پھڑکایاجائے۔

۔جس شخص پرکسی جرم کایقین نہیں بلکہ ذرہ بھی کوئی شک ہوانہیں ضرورگریبان سے پکڑیں ۔۔انہیں ایک نہیں ہزار بارعدالت میں گھسیٹیں لیکن رات کی تاریکیوں میں جزاوسزادینے کایہ رواج ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیں ۔۔لاپتہ ایک شخص ہوتاہے پیچھے غم والم میں پوراایک خاندان ڈوب جاتاہے۔۔پولیس مقابلے میں ایک شخص کوپھڑکادیاجاتاہے لیکن پیچھے دل سب کے غم سے چھلنی چھلنی ہوتے ہیں ۔

۔ہرشخص نے چاہے وہ راؤانوارہے۔۔ کوئی اورپولیس افسرہے۔۔صدرہے ۔۔وزیراعظم ہے ۔۔وزیرہے یاکوئی مشیر۔۔سب نے آخرایک نہ ایک دن ضرورمرناہے ۔۔صرف مرنابھی نہیں ۔۔اپنے کئے کاحساب بھی پھر دیناہے ۔۔وہاں جب سوال ہوگا دنیاجب سوجاتی تھی رات کی تاریکیوں میں عدالت لگاکرپولیس مقابلوں میں تم نے کتنے نقیب مارے ۔۔؟تواس وقت پھرکیاجواب دوگے۔۔؟یہاں تونوازشریف۔

۔آصف زرداری۔۔الطاف حسین جیسے بڑے بڑے سیاستدان۔۔لیڈراورحکمران تمہیں بچالیں گے لیکن ایک بات یادرکھو۔۔وہاں پھرتمہیں بچانے والاکوئی نہیں ہوگا۔آئین ۔۔قانون اورعدالتی نظام کی موجودگی میں جعلی پولیس مقابلے یہ ظلم کی انتہاء اوربہت بڑی ناانصافی ہے ۔اس ظلم کے خاتمے کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کواہم اورفوری کرداراداکرناہوگاکیونکہ وہی اس ملک کے سب سے بڑے منصف ہیں ۔

۔حکمران اپنے اقتدارکودوام بخشنے اورسیاسی مفادات کے حصول کیلئے خودجعلی پولیس مقابلوں کاسہارالیتے ہیں ۔۔نہ جانے کتنے سیاسی اورمذہبی کارکن اب تک ان مقابلوں کانشانہ بنے۔۔اس تناظرمیں ہمارے حکمران ان پولیس مقابلوں کے خاتمے کے لئے بلندہونے والی آوازکودبانے کی بھی ہرممکن کوشش کریں گے ۔ اس لئے اس صورت میں چیف جسٹس ہی ظلم کے اس بھیانک کھیل کوختم کرسکتے ہیں ۔جن لوگوں نے نقیب اللہ محسودکاماورائے عدالت قتل کیاان کوعبرت کانشان بناکراس ظلم کے خاتمے کاآغازکیاجائے تاکہ کل کو پولیس مقابلہ کرنے سے پہلے نہ صرف راؤانواربلکہ ہرکوئی ہزاربارسوچے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :