قطر میں چند روز!

پیر 22 جنوری 2018

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

قطرخلیج فارس میں واقع سعودی عرب سے متصل ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ زیادہ تر حصہ صحرا پر مشتمل ہے،دارالحکومت دوحہ ہے اور آج اس کا شمار دنیا کے شاندار اور خوبصورت ترین شہروں میں ہوتا ہے۔اٹھارویں صدی میں دوحہ ایک چھوٹاسا گاوٴں تھا ، انیسویں صدی میں یہاں موتیوں کا کاروبار ہونے لگا،اس وقت موتیوں کی وہی اہمیت تھی جو آج تیل کی ہے۔آپ زمین پر نقشہ بچھائیں اورقطر کا نقشہ دیکھیں آپ کو نظر آئے گاقطر سعودی عرب سے جڑا ہوا ایک موتی ہے۔

قطر دنیا میں سب سے زیادہ قدرتی گیس پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے،یہ اگلے 137 برس تک صرف گیس نکال کراپنی معیشت کو زندہ رکھ سکتا ہے۔ یہ تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔یہ جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کمپنی کے 17 فیصد اور نیو یارک کی امپائراسٹیٹ بلڈنگ کے دس فیصد حصص کا بھی مالک ہے۔

(جاری ہے)

قطر2022کے فیفاورلڈ کپ کی میزبانی کر رہا ہے جس کی تیاری کے لیے دو سو ارب ڈالر لگائے جا رہے ہیں۔

قطر نے گزشتہ چند برسوں میں برطانیہ میں 40 ارب پاوٴنڈز کی سرمایہ کاری کی ہے ، قطر کی سرکاری ایئر لائن قطر ایئر ویز دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی ہے، اس کے پاس 192 طیارے ہیں اور یہ دنیا کے ایک سو اکیاون شہروں میں فعال ہے۔ قطرنے 1996میں الجزیرہ کے نام سے ایک ٹیلی ویڑن نیٹ ورک قائم کیا جس نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا۔1868میں انگریز نے الثانی خاندان کو بادشاہت کے لیے منتخب کیا اور آج تک یہی خاندان حکمران چلا آ رہا ہے ۔

تمام اختیارات امیر کے پاس ہیں، مجلس شوری کے پاس قوانین بنانے کا محدود اختیارہے مگر آخری فیصلہ امیر کا ہوتا ہے۔ قطری قانون کے مطابق سیاسی جماعتوں کے قیام کی اجازت نہیں۔ کْل آبادی تقریبا اٹھائیس لاکھ ہے جس میں سے پچاسی فیصد آبادی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ یہ 1971 تک برطانیہ کے ماتحت تھا ،1971 میں قطر کے پاس آپشن تھا کہ یہ متحدہ عرب امارات کا حصہ بن جائے لیکن الثانی خاندان نے الگ ریاست کا مطالبہ کر دیا۔

قطر کے موجودہ امیرشیخ تمیم بن حماد الثانی ہیں۔عربی قومی زبان ہے جب کہ انگریزی سب سے زیادہ سمجھے جانے والی زبان ہے۔آج قطر اور ا س کے دارالحکومت دوحہ کو دیکھ ہرگزاحساس نہیں ہوتا کہ یہاں کبھی صرف ریت ہوا کرتی تھی۔1971میں آذادی کے بعد قطر کے شیخ خلیفہ نے سکیورٹی کے لیے سعودی عرب کا دامن تھام لیا،ایک عرصے تک قطر کی پالیسیاں سعودی عرب طے کرتا تھالیکن شیخ خلیفہ کے بیٹے شیخ حماد کو یہ پسند نہیں تھا،وہ چاہتے تھے کہ دنیا قطر کو ایک آزاد ملک کے طور پر جانے ،وہ قطر کو سعودی عرب کے شکنجے سے باہر نکالنا چاہتے تھے، 1995 میں جب شیخ خلیفہ سوئٹزرلینڈ میں چھٹیاں منا رہے تھے تو شیخ حماد نے ان کا تختہ الٹ دیااور یوں اقتدار شیخ خلیفہ سے شیخ حماد کے ہاتھ میں آ گیا۔

گزشتہ کچھ عرصے سے قطر کے، خطے کی دیگر ریاستوں سے حالات کشیدہ چل رہے ہیں،جون 2017 میں سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے،سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے تھے۔

اس سے قبل مارچ 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔
ہم ایک ورکشاپ میں شرکت کے لیے قطر گئے تھے، یہ ایک ہفتے کی ورکشاپ تھی اور پاکستان سے پندرہ لوگ اس میں شامل تھے۔ اتنے ہی لوگ انڈیا سے آئے تھے ، ورکشاپ کا موضوع مذہب اور سائنس تھا، یہ امریکہ کی نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کے ذیلی ادارے کا ایک پروجیکٹ تھااور قطر میں حماد بن خلیفہ یونیورسٹی ہماری میزبان تھی۔

یہ دسمبر2017کے آخری ایام تھے۔ اتوار کے دن دوپہر ساڑھے بارہ بجے لاہورایئر پورٹ سے بذریعہ سری لنکن ایئر لائن براستہ کولمبو رات بارہ بجے دوحہ کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر اترے۔ سری لنکن ایئر لائن میں سفر کا تجربہ کچھ اچھا نہیں رہا، جہاز اچھے تھے لیکن عملے کا رویہ کچھ مناسب نہیں تھا، جہاز میں جو سرو کیا گیا وہ بھی برائے نام اور معیار انتہائی ناقص۔

کولمبو ایئر پورٹ پر دوگھنٹے کا سٹے تھا ، کرسمس کی وجہ سے بہت زیادہ رش تھا اور کافی تعداد میں سیاحوں کی آمد و رفت جاری تھی۔ عصر کا وقت تھا، ایک کونے میں کمرہ نمامسجد تھی وہاں نماز ادا کی ، ایک الماری میں کچھ قرآن رکھے ہوئے تھے ، ا ن میں تاج کمپنی کا چھپا ہوا ایک نسخہ بھی موجود تھا۔ عربی اور مقامی زبانوں میں کچھ تراجم بھی پڑے ہوئے تھے ۔

کولمبو سے ایک بڑے جہاز میں سوار ہو کر رات بارہ بجے دوحہ ایئرپورٹ پر اترے، یہ شیشے سے بنا ہوا خوبصورت ایئر پورٹ ہے اور دنیا کا آٹھواں بڑا ایئر پورٹ شمار ہوتا ہے ۔ امیگریشن عملے کا رویہ تحکمانہ اور کرخت تھا، تہذیب اور اخلاق سے بالکل عاری ۔ ایئر پورٹ سے باہر نکلے تو ہوٹل کی بسیں تیار کھڑی تھیں ، دوحہ کے علاقے الریان میں واقع پریمئر ان ہوٹل میں رات ایک بجے پہنچ کر آرام کیا۔

اگلے دن حمد بن خلیفہ یونیورسٹی کے اسلامک اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سیمینار ہال میں ورکشا پ کا آغاز ہوا ، مذہب اور سائنس کے موضوع پر پانچ دن گفتگو ہوتی رہی، امریکہ، اردن ، قطر ،پاکستان اور انڈیا کے اسکالرز نے موضوع کے مختلف پہلووٴں پر روشنی ڈالی ۔تفصیل اس اجمال کی اگلے کسی کالم میں ۔ مختلف تفریحی مقامات پر جانے کا بھی اتفاق ہوا، ایک شام ساحل سمندر پر واقع میوزیم آف اسلامک آرٹ دیکھنے گئے ، یہ خوبصور ت میوزیم سمندر کے کنارے پر بنایا گیا ہے اور اس کی عمارت مصر کی ابن طولون مسجد کے مشابہ ہے ، اس میں دنیا بھر سے اسلامک آرٹ کے مختلف نمونے اکھٹے کر کے رکھے گئے ہیں ، ماضی میں دنیا کے مختلف خطو ں میں موجود اسلامی تہذیب کے اثرات و باقیات یہا ں محفوظ ہیں ، مغلیہ تہذیب کے نوادرات بھی دیکھنے میں آئے ۔

دوحہ کے قدیم بازارسوق واقف بھی گئے ،یہ روایتی طرز کا قدیم بازار ہے جہاں دنیا کے مختلف ممالک کے روایتی کھانے دستیاب ہیں ، یہاں مصالحہ جات،خشک میوہ جات اور کپڑے کی بڑی بڑی دکانیں ہیں ، پاکستان کی نسبت مہنگائی بہت ذیادہ ہے ، یہ بازار قطر آنے والے سیاحوں کی اہم ترجیح ہوتا ہے۔یہاں اکثر چوکوں چوراہوں پربیٹھے نوجوان الیکٹرانک حقہ اور شیشہ پینے میں مصروف نظر آتے ہیں، یہ منظر دیکھ کر دل بوجھل سا ہو گیا۔

ایک شام دوحہ کے علاقے نیو سٹی کی طرف نکل گئے، یہ ساحل سمندر کے بالکل قریب بلند و بالا بلڈنگز پر مشتمل ہے، آپ قطر لکھ کر گوگل کریں تو آپ کے سامنے ساحل سمندر پر واقع بلند و بالا بلڈنگز کی تصاویر آ جائیں گی یہی نیو سٹی ہے اور آج کل یہی قطر کی پہچان ہے ۔ایک رات دوحہ کارنیش پر چہل قدمی کا اتفاق ہوا ،یہ سات کلومیٹر لمبا ساحلی علاقہ اور خوبصورت اور پر فضا مقام ہے ۔

یہاں سیاح کشتیو ں میں بیٹھ کر سمندر کی سیر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ انڈیا اور دوسرے مختلف ممالک کے مسلمانوں سے مل کر احساس ہوا کہ وہ پاکستان کے بارے میں متفکر و متجسس ہیں،انہیں پاکستان سے بہت سی امیدیں ہیں اور وہ واقعی پاکستان کو اسلامی دنیا کا بڑا بھائی سمجھتے ہیں۔ قصہ مختصر ایک ہفتے کی ورکشاپ کے بعد 31دسمبر کو بذریعہ سری لنکن ایئر لائن لاہور واپسی ہوئی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :