شناخت

پیر 22 جنوری 2018

Ammar Masood

عمار مسعود

لاہور میں جو مشترکہ اپوزیشن کا اجتماعی جنازہ ہوا ہے اس کے بعد اب اس موضوع پر کچھ کہنے کے لئے نہیں رہ گیا۔ عوام کا فیصلہ آگیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے مہرے دم توڑ رہے ہیں ۔ شاہ کو شکست ہو رہی ہے اور یہ سب کو سامنے نظر آ رہا ہے۔ عوامی حمایت کے بلند بانگ دعوے زمیں بوس ہو رہے ہیں۔ اب واضح طور دو قوتیں کار فرما ہیں ایک وہ جو عوام کی حمایت اور حاکمیت پر یقین رکھتی ہیں اور دوسری وہ جو عوامی منڈیٹ کو نقش کہن کی طرح مٹا دینا چاہتی ہیں۔

عوام کیا چاہتے ہیں اس کا فیصلہ تو آگیا ہے لیکن فیصلہ ساز کیا کرتے ہیں اس پر ابھی بحث جاری ہے۔ان دھرنوں اور احتجاجوں نے اس قوم کا اتنا وقت برباد کیا ہے کہ اچھی بات سوچنے ، لکھنے کا وقت ہی نہیں بچتا۔ آج سوچا ہے اس ہنگامہ خیزی سے بچ کر کچھ اچھے کاموں کی بات کی جائی۔

(جاری ہے)

کچھ اچھے لوگوں کی بات کی جائے۔ آج 28 سالہ صفیہ بی بی کی بات کی جائے۔ آج 38 سالہ عباس کی بات کی جائے۔

آج نرگس گل کی بات کی جائے اور آج عثمان مبین کی بات کی جائے۔
صفیہ بی بی کی عمر 28 سال ہے۔ یہ لاہڑ گاوں کی رہائشی ہیں جو ضلع گانچہ اور تحصیل دھونی کا حصہ ہے۔ یہ گلگت بلتستان کا وہ علاقہ ہے جو سیاچن سے دو گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ یہ علاقہ برف سے ڈھکا رہتا ہے اور آمد رفت کے لئے نہ مناسب سڑک ہے نہ آمدورفت کے ذرائع ہیں۔صفیہ بی بی بچپن سے نابینا ہیں۔

زندگی کے رنگ دیکھنا انکو کبھی نصیب ہی نہیں ہوئے۔ خاندان کے مالی حالات بھی بس گئے گذرے ہی ہیں۔ گذر بسر مشکل سے ہوتی ہے۔ معذور افراد کی ایک تنظیم نے اس علاقے میں کام کرنا شروع کیا۔صفیہ بی بی کی مالی مدد کا فیصلہ ہوا۔ اس مدد کے لئے شناختی کارڈ درکار تھا۔ اس علاقے میں شناختی کارڈ دفتر نہیں ہے اور شناختی کارڈ کا حصول ایک نابینا شخص کے لئے جان جوکھوں کا کام ہے۔

صفیہ بی بی نے کسی طور نزدیکی نادر ا آفس سے رابطہ قائم کیا۔نادرا آفس کو ساری صورت حال سمجھائی گئی۔ نزدیکی تحصیل سے نادراکی ٹیم تین گھنٹے برف میں چل کر ہاتھ میں کمپیوٹر اٹھائے ، پہاڑیاں چڑھتے صفیہ بی بی کے گھر پہنچی۔ انکے کوائف لئے گئے۔ ہاتھ کی انگلیوں کی سکیننگ کی گئی اور ایک ہفتے میں صفیہ بی بی کو شناختی کارڈ کا اجراء ہو گیا۔ صفیہ بی بی کو وہ امداد مل گئی۔

نظر کی روشنی تو نہیں آئی مگر جہان اب اتنا اندھیر نہیں رہا۔
محمد عباس کی عمر 38 سال ہے۔ ان کا تعلق گھرکھو گاوں سے ہے۔ یہ علاقہ بھی گللگت بلتستان کا برف پوش علاقہ ہے۔ بدقسمتی سے عباس بچپن سے دونوں ہاتھوں پاؤں سے محروم ہیں۔ گھر والے زیادہ پڑھے لکھے نہیں۔ حالات بھی کچھ اچھے نہیں۔ جہاں دو وقت کی روٹی کے مسائل درپیش ہوں وہاں ایسے بچوں کی طرف توجہ کی کس کو ہوش ہوتی ہے۔

محمد عباس اس برف پوش علاقے میں ایک چارپائی پرگمنامی کی زندگی گزار رہے تھے۔ نہ ان کے وجود کو کو ئی تسلیم کرتا تھا نہ ان کی کوئی حیثیت اور شناخت تھی۔ محمد عباس کے جی میں جانے کیا سمائی انہوں نے خواہش کا اظہار کیا میرا بھی شناختی کارڈ بننا چاہیے۔ جس علاقے میں ان کا گھر ہے وہاں ضروریات زندگی بہم پہنچانا بہت مشکل کام ہے۔ محمد عباس کی یہ خواہش کسی طرح نادرا آفس تک پہنچائی گئی۔

نادرا آفس کا عملہ برف میں گھنٹوں پیدل سفر کرتا محمد عباس کے گھر پہنچ گیا۔
عباس کا معذور افراد کے سرخ وہیل چئیر کے نشان والا شناختی کارڈ بنا۔ محمد عباس اب بھی چل پھر نہیں سکتے مگر انہیں اس بات پر بہت فخرہے کہ اب انکے پاس ایک شناخت ہے۔ ایک نام ہے۔ ایک کارڈ ہے۔
نرگس گل کا نام تو شائد آپ نے سنا ہی ہوگا۔ اس بچی کا تعلق چکوال کے ایک خانہ بدوش خاندان سے ہے۔

دو سال قبل نرگس گل نے اپنی جھگی میں رہتے رہتے میٹرک کے امتحان کی تیاری کی۔ پیپرز دیئے اور پورے پنجاب میں میٹرک کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی۔ چینلوں پر جب بریکنگ نیوز چلنے لگی تو وزیر اعلی بھی فوٹو سیشن کے لئے چکوال بھاگے۔ اچانک سب اس بچی پر فخر کرنے لگے ۔ لوگوں نے چاہا کہ اس بچی کی مالی امداد بھی کی جائے۔ بیرون ملک پاکستانی مدد کرنے کے لئے تڑپنے لگے۔

امداد کے معاملے میں لوگوں کا اعتبار مشکل سے ہی بیٹھتا ہے۔ سب نے کہا کہ ہم اس بچی کے اکاؤنٹ میں ہی پیسے جمع کروائیں گے۔ اکاؤنٹ کے لئے شناختی کارڈ درکار تھا۔ جس کا حصول ممکن نہیں تھا۔ خانہ بدوشوں کا شجرہ نسب دستیاب نہیں ہوتا، رہائش کے لئے ایک جگہ نہیں ہوتی اور شناختی کارڈ کے حصول کے یہ سب درکار تھا۔ کیس نادراکے چیئر مین کے پاس پہنچا جنہوں نے اسی وقت اپنے صوابدیدی اختیارت استعمال کرکہ نرگس گل کا اپنے ہاتھ سے شناختی کارڈ جاری کیا۔

پھر نرگس گل کا اکاؤنٹ بھی کھلا۔ پیسے بھی جمع ہوئے۔ تعلیم کے لئے وظیفہ بھی ملااور خانہ بدوشوں کے اس خاندان کو گھر بھی نصیب ہوا۔
ادارے افراد سے بنتے ہیں۔ اپنی قیادت سے پہچانے جاتے ہیں۔ مندرجہ بالا سب سچی کہانیوں کی کامرانیوں کا سہرا نادراکے نوجوان چیئرمین عثمان مبین کوجاتا ہے۔ عثان کو اگر آپ ملیں تو وہ کہیں سے بھی چیئر مین نہیں لگتے۔

عام سی شرٹ اور جینز میں یہ صاحب ایک کارکن لگتے ہیں جسے نہ اپنے عہدے کا کوئی خیال ہے نہ پروٹوکول کی کوئی ضرورت ۔ انہیں بس پاکستان کا نام روشن کرنے کی دھن ہے۔ یہ ایچی سن کالج کے پڑھے ہوئے ہیں۔ بارہ سال وہاں تعلیم حاصل کی اور ہر سال گولڈ میڈل حاصل کرتے رہے۔ مزید تعلیم کے لئے امریکہ چلے گئے اور امریکہ کی معروف یونیورسٹی MIT سے ماسٹرز کیا۔

2002 میں نادرامیں چیف ٹیکنالوجی آفیسر کے طور پر تعینات ہوئے۔ ان کا شمار ان نوجوانوں میں ہوتا ہے جو اگر امریکہ میں رہتے تو بڑے آرام سے تیس ، چالیس لاکھ کی نوکری کرتے۔ لیکن ایسے نوجوانوں کو وطن کی محبت آواز دے ہی دیتی ہے۔ نادرامیں شناختی کارڈ کے جدید تر نظام کے روح رواں یہی ہیں۔انکے دور میں نادرانے جو کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے وہ بے شمار ہیں۔

تارکین وطن کوانہی کے دور میں پاک آئی ڈی پی آن لائن سروس ملنا شروع ہوئی۔ سیلاب کے دنوں میں سیلاب زدگان کے لیے وطن کارڈ بھی انہی کے دور میں بنے۔نادراون ونڈو آپریشن کا آغازز بھی انہوں نے ہی کیا۔تمام پاکستانیوں کے شناختی کارڈ کی تصدیق کا تکلیف دہ مرحلہ بھی انہی کے دور میں کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچا۔ انہوں نے ہی سٹیٹ آف دی آرٹ میگا سنٹرز کا آغاز بھی کیا جو چوبیس گھنٹے اور ہفتے کے سات دن عوام کی خدمت پر مامور ہیں۔

سمند ر پار پاکستانیوں کی مشکلات کا ازالہ کرنے کے لئے NICOP کے حصول کے لیے آن لائن سروس کا اجراء کیا۔ جس کی بدولت دوسال کے قلیل عرصے میں 169 ممالک سے سمندر پار پاکستانیوں نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا اسکے ساتھ ساتھ سنٹرز کی تعداد میں اضافے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ نادراکو ہر شناختی کارڈ بنانے پر قریبا چالیس روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔

اس کے باوجود نادرا حکومت پاکستان کے ان چند اداروں میں سے ہے جو اب بھی منافع بخش ہیں۔ پاکستان نے نادراکے ذریعے اپنا ہنر اور صلاحیت انٹرنیشنل مارکیٹ میں فروخت کی اور یہ بات بڑے فخرسے کہی جا سکتی ہے کہ انڈونیشا ، فجی نائجیریا، سوڈان ، سری لنکا اور کینیا جیسے ممالک پاکستان سے نادراکا سسٹم خرید رہے ہیں۔ اسکے علاوہ صوبائی اوروفاقی سطح کے تیس پراجیکٹ نادرا کی رہنمائی میں میں تکنیکی مہارت حاصل کر رہے ہیں۔

نادراکے نوجوان چیئر مین جیسے لوگ پاکستان کے لئے فخر کی علامت ہیں ان کا محنتوں اور محبتوں کا احترام لازم ہے۔
حکومت وقت کا مسئلہ یہ ہے کہ ہر وقت اداروں کی مداخلت کا تو رونا رویا جاتا ہے مگر اپنے اداروں کی زبوں حالی پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ الیکشن والے سال میں PTAکا کوئی ذمہ وار نہیں ہے۔ ابصار عالم کے بعد PEMRAکا کوئی والی وارث نہیں ہے۔

PTV اپنے زوال کے عروج پر ہے۔ LOK VIRSAسے  ڈاکٹر فوزیہ سعید جیسی باہنر اور دلیر خاتون کا کانٹریکٹ ختم کر دیا گیا ہے۔ مجھے حکومت کے یہ کار ہائے نمایاں دیکھ کر خدشہ ہوتا کہ کہیں اس بدنظمی کے سبب ہم عثمان مبین جیسے لوگوں سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ اس ملک کی مثبت شناخت کے لیئے ہمیں ایسے لوگوں کی ابھی بہت ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :