کامریڈ منوبھائی کوسرخ سلام

ہفتہ 20 جنوری 2018

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

بہت کم لوگ زندگی ‘جی کر گزارتے ہیں۔منوبھائی زندگانی کی آخری گھڑی تک جیتے رہے۔ایک دفعہ کسی نے کہا کہ ’بس کریں بہت لکھ لیا،اب کچھ آرام بھی کرلیں‘ منوبھائی نے لکھا” میں آخری سانس تک کام کرونگا،میرے بوٹ کے تسمے کوئی اور ہی کھولے گا“۔پھر یہی ہوا ،شدیدعلالت کے دوران گویا بسترمرگ پر بھی،بے ہوشی اور مدہوشی کے درمیانی وقفے میں بھی لکھنے بیٹھ گئے۔

زندگی بھر کے واقعات اور بیتے ادوار لکھتے رہے مگر اوروں کے برعکس ان تحریروں کو خودستائشی کے غلبے سے بچائے رکھا۔ ہر تحریر میں منڈی کی معیشت کی ہلاکت خیزی کوآڑے ہاتھوں لیا،ان کو اپنی خراب صحت اور زندگی کے اختتام کا علم تھامگر وہ اپنی تحریروں میں نسل انسان کیلئے طبقات سے پاک سماج کی خواہش کا باربار اظہارکرتے رہے۔

(جاری ہے)

بہت سے لوگ لکھتے ہیں،کچھ لوگوں نے اتنا لکھا کہ انکے لکھے ہوئے لفظوں کوعمودی کھڑاکردیا جائے تو مریخ تک پہنچ جائیں ،مگر ان تحریروں کو تاریخ سے حذف کردیا جائے توکوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ علمی،نظریاتی کثافت میں کمی ہی واقع ہوگی۔

دوسری طرف کچھ لوگوں کی لکھی گئی سطریں ایسی روشنی میں بدل جاتی ہیں جو سماجی تاریکی میں نئی راہوں کو دکھانے کا باعث بنتی ہیں۔منوبھائی کی تحریریں روشنی کے ایسے ہی مینارے تھے۔ معاشرے اور انسانوں سے ماوراء ‘ ا دب کے برعکس منو بھائی کے کالم،ڈرامے، نظم اور نثر نے ہمیشہ مقصدیت کوپیش نظر رکھا،ہر روزبامقصد لکھناجوئے شیر لانے کے مترادف ہوتاہے مگر منوبھائی کا قلم ہمیشہ تیشہء ثابت ہوا۔

ایسا ہونابلاسبب نا تھا۔منوبھائی انقلابی نظریات سے مسلح تھے جہاں لفظ منوبھائی کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔پاکستان کے بدترین فوجی آمرضیاء الحق کے عہد ظلمت میں اپنے کالم کے عنوان سے مناسبت رکھتے ’ضیاء الحق کے گریبان پکڑنے کی بات کی تو خونی ضیاء نے ایک تقریب میں منوں بھائی کو انکے گریبان پکڑنے کی دھمکی دی، اگلے دن منوبھائی نے لکھا کہ ”ہماری نا قیض ہے نا گریبان ،کہاں سے پکڑو گے؟“ایسی جراء ت صرف انقلابیوں کا خاصا ہوتی ہے۔

منوبھائی بہت آغاز میں ہی جس معاشی ،سماجی اور سیاسی تبدیلی کے خواہاں تھے ،اسکے راستے کی تلاش میں انکو بہت طویل سفر کرنا پڑا۔یہ ایک دقیق ارتقائی سفر تھا،خاص طور پرانقلابی رومانیت کے خطرات کی کھائیاں اور تباہی کے امکانات کے لئے فضا زیادہ سازگار تھی۔ 67-68کی انقلابی تحریک جس کی منزل کو کھوٹا کیا گیا تھا‘کے بعد بددلی اور بے سمتی کی کیفیت میں ہزاروں انقلابی کیڈرز،انقلابی ادیب ،شاعر اور سیاسی کارکنوں کو ردانقلاب کابلیک ہول نگل گیا۔

بچنا محال تھا،مگر جستجو کا سفر منوبھائی کیلئے ڈھال بن گیا۔منوبھائی کا ادبی شعور‘تاریخی واقعات کا عینی گواہ تھا۔انقلابی لہر میں ابھی دم خم موجود تھا جب منو بھائی اسی کار میں موجودتھے جس میں بھٹو،حنیف رامے اور کھرعازم پنڈی تھے، گوجرانوالہ سے آگے جی ٹی روڈ پر لوگوں کاہجوم بے کراں سرخ پرچم لہراتے ہوئے ”جیہڑا واوے اوہی کھاوے… سوشلزم آوے ای آوے“کے نعرے لگاتے کارکے آگے آگیا ۔

کار میں ہی بیٹھے بھٹونے مڑکرمنوبھائی اور حنیف رامے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ”ان کو دیکھو،جوہم نے لانا نہیں ہے وہ مانگ رہے ہیں“۔یہ گفتگو منو بھائی کے انقلابی خیالات اور نظریات کیلئے کسی دھچکے سے کم نا تھی مگر کوئی متبادل رہ سجائی نہیں دے رہی تھی۔منو بھائی ہمیشہ محنت کش طبقے تک رسائی کیلئے لچکدار طریقے کے حامی تھے۔وہ ولادی میر لینن کو کوٹ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ”جب مزدوروں کے کسی گروہ کو سڑکوں پر کسی بھی جدوجہد میں برسرپیکار دیکھو،ان میں شامل ہوجاؤ،انکو ہمدردانہ نکتہ نگاہ سے دیکھو،وہ انقلابی ناہوں تو کوئی بات نہیں ،انکے نعرے غور سنو ،انکی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملاکر انکے نعروں کی گونج بلند کرو،آپ انکی مطالبوں اور نعروں کو کچھ غلط بھی پائیں تو بھی صبر اور استقامت سے انکے ساتھ رہو،جب انکی ریاستی اداروں سے مدبھیڑ ہوجائے تو انکے شانہ بشانہ لڑائی میں شامل ہوجاؤ باوجوداسکے کہ آپ کے اعتراضات موجود ہیں۔

پولیس اور ریاستی اداروں کے نشانے پر محنت کشوں بہنے والے خون کے ساتھ جب آپ کاخون بھی شامل ہوگا تو پھر آپ محنت کش طبقے کے ساتھ وہ رشتہ استوار کرسکو گے جہاں وہ آپ کی رائے کو اہمیت دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرینگے ۔منو بھائی عمر کے کسی بھی حصے میں اس غلط فہمی کاشکار نہیں ہوئے کہ انکے سیکھنے کا عمل مکمل ہوچکاہے۔اسی طرح شوبزنس اور ٹیلی وژن میں اعلی درجے کی پذیرائی کے باوجود انہوں نے خود کو وہاں گم نہیں ہونے دیا۔

انکی نظریاتی اور انقلابی زندگی کا سب سے اہم بریک تھروٹیڈ گرانٹ کے انقلابی نظریات کوجاننے سے ہوا،ذریعہ ظاہر ہے کامریڈ لال خاں تھے ۔انہوں نے سرمایہ داری نظام کے آخری مرحلے یعنی سامراجیت کی زوال پذیری اور اسکی فرسودگی کامطالعہ کرکے نتیجہ نکال لیا تھا کہ موجودہ نظام اپنے عہد میں رہنے والے اربوں لوگوں کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوکر صرف سرمایہ داروں کے منافعوں میں وسعت کا وسیلہ بن چکا ہے۔

انکی تحریریں جابجا اصلاحات کے ذریعے نظام کو درست کرنے کی فرسودہ سوچ کو مستردکرتی نظر آتی ہیں۔یہ ایک دلچسپ عہد تھا جب منو بھائی کا روزنامہ جنگ کا روزانہ وار کالم”گریبان“ کرنٹ ایشوز کی وضاحت مارکس ازم اور اشتراکیت نظریات سے کرتے تھے۔وہ تیسری دنیا اور سابق نوآبادیاتی ممالک میں ’انقلاب کے کردار ‘،حکمران طبقے کی نااہلیت اور تاریخ سے پچھڑ جانے اور سامراجیت کامقابلہ کرنے کی صلاحیت نارکھنے جیسے اہم ترین قضیئے کو سمجھ جانے کی بنا پر پاکستان کے انقلاب کو عالمی انقلاب کے ساتھ جوڑ کردیکھتے تھے۔

لیون ٹراٹسکی کے نظریاتی ساتھی اور اسکے نظریات کو عہد حاضرکے مطابق وسعت دینے والے ٹیڈ گرانٹ کے نظریات کے ساتھ منوبھائی کی دلچسپی نے سات سمندر پار کا سفر کرنے پر مجبور کردیا ۔وہ جب بھی اپنی اس ملاقات کا احوال بیان کرتے اورٹیڈگرانٹ کی سرمایہ داری نظام کے عروج( 1948-73ء )کے دوران اسکے زوال کی پیش بینی کرنے کی انقلابی بصیرت کو خراج تحسین پیش کرتے۔

ٹیڈ گرانٹ کے نظریات کے مطابق پاکستان میں ”طبقاتی جدوجہد“کے ساتھ منوبھائی کا اشتراک عمل زندگی کاحصہ بن گیا تھا۔منوبھائی نے اپنی صحت مند زندگی کا ایک لمبا عرصہ طبقاتی جدوجہد کی سرگرمیوں کا حصہ بن کرگزارا۔ملک بھر کے طول وعرض میں ہونے والی سرگرمیاں‘ جن میں شرکت کیلئے ہزاروں کلومیٹرکا سفر کرنا پڑتا منوبھائی بغیر کسی تامل اور پریشا نی سے ”طبقاتی جدوجہد“ کی میٹنگز میں شرکت کرتے۔

طبقاتی جدوجہد کے زیر اہتمام لیون ٹراٹسکی کی کتاب ”میری زندگی“جس کا اردو ترجمہ معروف شاعر اور منوبھائی کے قریبی دوست جاوید شاہین نے انہی کے اصرار پر کیا تھا‘کی اشاعت سمیت ،کامریڈ لال خاں کی تحریر کردہ کتابوں چین انقلاب کی تلاش،سوشلسٹ انقلاب اور پاکستان،پارٹیشن : کین اٹ بھی ان ڈن،پاکستان کی اصل کہانی سمیت متعدد پبلی کیشنز میں منوبھائی کا عملی اور مالی تعاون شامل رہا۔

اسی طرح ٹیڈ گرانٹ کی کتاب روس:انقلاب سے ردانقلاب تک،کی اشاعت ممکن نا ہوتی اگر منوبھائی کے ایک اوردوست چوہدری یعقوب بھاری قرض مہیا ناکرتے۔طبقاتی جدوجہد کی متعدد کتابوں کے دیباچے اور فلیپ منوبھائی نے لکھے۔ ناصرف 1997ء میں طبقاتی جدوجہد کی رحیم یارخاں کانگریس میں شریک ہونے آئے ۔”طبقاتی جدوجہد“ نے فیصلہ کیا کہ قومی اسمبلی کے حلقہ 150سے ہمایوں اختر کے خلاف قمرالیکشن لڑے گا تو میری کاغذات نامزدگی ریٹرننگ آفیسر کے پاس جمع کرانے منوبھائی خود گئے۔

1999ء میں پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی کنونشن میں شرکت کیلئے رحیم یارخاں بطور خاص آئے۔ہر سال طبقاتی جدوجہد کی سالانہ کانگریس کے انتظامی اور مالی معاملات میں انکی شمولیت رہتی۔کامریڈ لال خان کے ساتھ انکی محبت کولفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔یہ ستائیس سالوں پر محیط گہرا نظریاتی تعلق تھا جو بے لوث محبت میں تبدیل ہوچکا تھا جو منوبھائی کے آخری دم تک قائم رہا۔

کئی سال پہلے جب ان کوشدید ہارٹ اٹیک ہوا تو انکے اہل خانہ نے ڈاکٹر سے بھی پہلے کامریڈ لال خان کو فون کیا،کامریڈ لال خان کے ساتھ جانے والے ثقلین شاہ کا کہنا ہے کہ میں حیران ہوں کہ مال روڈ سے ریوازگارڈن تک کا سفراتنی سرعت کیسے طے ہوگیا۔ایمبولنس یاڈاکٹر ابھی نہیں پہنچے تھے،کامریڈ لال خان جنہوں نے گو پاکستان میں میڈیکل پریکٹس نہیں کی مگر منو بھائی کو انہوں نے زندگی بچانے والی ابتدائی میڈیکل مدد دیکر اسپتال تک پہنچادیا۔

جب منو بھائی کو ہوش آیا تو انہوں نے سب سے پہلے لال خان کالفظ منہ سے نکالا،کامریڈ لال خان پاس ہی موجود تھے تو منوبھائی نے کہا ”مجھے یقین تھا کہ لال خاں آگیا تومیں بچ جاؤں گا“۔منوبھائی صبح پانچ بجے واک کے بعد کالم لکھا کرتے تھے،لکھتے لکھتے اعدادوشماریا تاریخی حوالے کیلئے کامریڈ لال خان کو فون کرتے تو حالت نیند میں بھی دیئے ہوئے جواب کوبلادھڑک اپنے کالم میں لکھ دیتے۔

پھر اکثر گفتگو کے دوران کہتے ”یارگہری نیند میں بھی (لال خاں)اشاریہ کی بھی غلطی نہیں کرتے“۔ مجھ سمیت پاکستان بھر کے کامریڈز کوسالہاسال ان محفلوں کا حصہ بننے کاموقع ملا جولاہور میں سرشام ایک طرح سے سٹڈی سرکلز کی شکل اختیار کرجاتیں اور ہر روزآرٹ،کلچر،فلسفے ،تاریخ وتہذیب کے ارتقا ،عالمی اور پاکستان کے منظر نامے کے کسی نا کسی اہم حصے پر سیر حاصل گفتگو ہوتی ،انقلابی نظریات،عملی جدوجہد،لائحہ عمل اور طریقہ کارجیسے دقیق اورنازک موضوعات کو اور زیادہ وسیع بنیادوں پر استوار کرنے والی بحثیں کی جاتیں۔

طبقاتی جدوجہد کی سنٹرل کمیٹی کے اجلاسوں میں جب دقیق اور بھاری بھرکم موضوعات پر بحثیں ماحول کواورزیادہ سنجیدہ بنادیتیں تو منوبھائی کی بحث میں ہلکی پھلکے انداز میں مداخلت ،لطائف اور تاریخی واقعات کی آمیزش سے ’سیشن‘ ہلکا پھلکا ہوجاتا۔پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہداور انقلابی پارٹی کی تعمیر میں منوبھائی کا ناقابل فراموش کردار ہے جو انکے پاکستان میں کالم نگاری ،اردوادب،ٹی وی ڈرامے اورشاعری میں بے مثال کردار سے بھی زیادہ بلند اور اعلی ہے۔

کامریڈ منوبھائی!ہم سے آج جدا ہوگئے ہیں مگر انکا مشن ”پاکستان کو طبقات سے پاک سماج میں تبدیل کرنا اورپوری دنیا سے اس ظالمانہ سرمایہ داری نظام کو اکھاڑ کراکثریتی محنت کش طبقے کا راج قائم کرنا“ ایک ایسا مشن ہے جسکی تکمیل کی جدوجہد میں شامل ہوکر منوبھائی کوسب سے اعلی خراج تحسین پیش کیا جاسکتاہے۔کامریڈ منوبھائی!سرخ سلام

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :