تھائی لینڈ- دیس اچھا مگر بدنام بہت ہے

جمعرات 18 جنوری 2018

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

تھا ئی لینڈ کا مقا می زبا ن میں لفظی ترجمہ ”مرد آزاد“ہے ، اور بنکاک پہنچتے ہی محسوس ہو تا ہے کہ ا س ملک کا نام تھا ئی لینڈ ہی ہو نا چا ہیئے تھا ۔یہا ں کا مو سم ایسا خو بصور ت ہے کہ اگر کسی گرم ملک سے آئیں تو آپکو خنکی محسو س ہو تی ہے اور کسی برفیلے دیس کے لو گ جب یہا ں پہنچتے ہیں تو گرمی محسو س کر تے ہیں ۔ مقا می لو گ پر امن،منکسرالمزاج، خدمت گزار اور بردبا ر ہیں ، جو کہ شا ید بدھ مت کے پیروکار ہو نے کے سبب سے ہے ۔

ملکی آبا دی کا% 94 فیصد حصہ بدھ دھر م کے ما ننے والوں کا ہے ، جو کہ انڈو پاک کے مشہور با دشاہ اشوک اعظم کے دور میں اسکی خصو صی کا وشو ں سے یہا ں پہنچا تھا ۔ پا نچ فیصد مسلما ن اور ایک فیصد آبا دی دیگر مذاہب کے ما ننے والو ں کی ہے ۔ اس میں عیسا ئیوں ، ہندوؤں اور سکھوں کے علا وہ ایک ہزار افراد یہو دی مذہب کے ماننے والے بھی ہیں ۔

(جاری ہے)

سر سبز و شا داب
پہا ڑوں ، جنگلو ں اور خو بصور ت سا حلوں پر مشتمل اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ اس کی شہرت اچھی نہیں ہے ۔

آدمی اگر کسی نیک مقصد کیلئے بھی تھا ئی لینڈ جا رہا ہو عمو می تا ثر یہی بنتا ہے کہ کسی برے کا م سے جا رہا ہے ۔ زما نہ طالب علمی میں پہلی مرتبہ جب میں کا لج کے ہم مکتب سا تھیوں کے ہمراہ سیا حتی دورے کی غرض سے تھا ئی لینڈ جا نے لگا تو بہت سے بہی خوا ہو ں کو تشویش لا حق ہو ئی ، بعض نے تو استفسا ر بھی کیا کہ شریف آدمی بنکا ک کیا لینے جا رہے ہو ؟
تھا ئی لینڈکا یہ تا ثر بلا جواز اور بے سبب بھی نہیں ہے ۔

سا ت کروڑ نفو س پر مشتمل اس ملک کو عشرت کدوں کے حوا لے سے عا لمی شہرت اس وقت ملی جب امریکی فو جیں ویت نا م میں داخل ہو ئیں۔ویت نام کے محا ذسے تھکے ہا رے امریکی فو جی چھٹیا ں منا نے کیلئے جو ق در جو ق ہمسا یہ ملک تھا ئی لینڈ آنے لگے ، ان فو جیوں کی تفریح طلبی سے بہت سا ری سیاحتی سرگرمیوں کے علاوہ مبینہ ہل چل بھی فروغ پا نے لگی ۔ حکو متی سر پرستی اور قانو نی تحفظ کے سبب غیر ملکیوں کی تفریح طبع کیلئے قا ئم کیے گئے مراکز نے با قا عدہ انڈسٹری کی شکل اختیار کر لی ہے ۔

دوسری عا لمی جنگ میں تھا ئی لینڈ نے جا پان کا سا تھ دیا تھا ، یہ جنو ب مشرقی ایشیا ء کاواحدملک ہے جو کبھی کسی سا مراحی قوت کی نو آبا دی نہیں رہا ۔ جا پا ن کا سا تھ دینے کا سبب تو یہ معا ہدہ تھا کہ بر طا نیہ اور فرانس نے اس کے جن علا قوں پر قبضہ کر رکھا ہے ، جا پا ن انہیں واگزار کرانے میں تھا ئی لینڈ کی مدد کر ے گا ، مگر جنگ میں شکست کے بعد معیشت بری طرح گراوٹ کا شکا ر ہو گئی۔

ویت نام میں امریکہ کی آمد کو تھا ئی لینڈ نے اپنی بدحا ل معیشت کو بحال کرنے کیلئے بھر پور استعمال کیا ۔ اس طویل جنگ کا نتیجہ تو امریکی شکست کی صور ت میں سا منے آیا ، مگر دوران جنگ تھا ئی لینڈ اپنی معیشت اور سیا حتی انڈسٹری کو مضبو ط بنیا دوں پر کھڑا کرنے میں کا میا ب ہو گیا ۔ اسی کا مظہر مقامی کرنسی”بھا ت“کی مضبو طی بھی ہے ، جو کبھی بے وقعت خیا ل کی جا تی تھی، آج ایک بھات تین پا کستا نی روپے کے برابر قیمت کا حامل ہے ۔


ملکی شہرت کی بات کر یں تو ہما رے عا لمی تا ثر کے بھی رنگا رنگ پہلو ہیں ، قو س وقزح کی طرح متنو ع ۔تھا ئی لینڈ کے بنکا ک انٹرنیشنل ائیر پو رٹ پر فلا ئیٹ کے انتظار میں ایک ہم وطن پا کستا نی دوست اور میں مٹر گشت کر رہے تھے کہ بیلجیم کی ایک لڑکی سے ہما ری مڈبھیڑ ہو گئی۔ ابتدائی رسمی تعا ر ف کے بعد پو چھنے لگی کہ تم لو گ کس ملک کے با شندے ہو؟ میں نے بتا یا کہ ہمار ا تعلق پاک سر زمین سے ہے ۔

پاکستا ن کا نام سن کر اس لڑکی نے میرا ہا تھ چو م لیا۔ ہا تھ کو بو سہ دینے کے بعد کہنے لگی کہ ”آپ لو گ عظیم ہیں “سچی با ت تو یہ ہے کہ اپنی قو می عظمت کا اس قدر و الہا نہ اظہار و اعتراف اس سے قبل میں نے اپنی زندگی میں کسی غیر ملکی کی زبا نی نہیں سنا تھا ۔ ایک سکھ دوست مجھے اکثر ”تسی گریٹ اوجی !!“کہتا رہتا ہے ، مگر یہ تو اس کا تکیہ کلا م ہے ، وہ تو سب کو یہی کہتا رہتا ہے ۔

یہا ں پر معا ملہ مختلف تھا ۔ میں نے بے سا ختہ مسکرا تے ہو ئے اس لڑکی سے پو چھا کہ ہم کس وجہ سے عظیم لو گ ہیں ؟ جو اباًوہ سنہری با لو ں اور نیلی نشیلی آنکھو ں والی لڑکی کہنے لگی کہ آپ کے ملک جیسی چرس پو ری دنیا میں کو ئی نہیں بنا تا ہے۔ صور ت حا ل کی گھمبیر تا کو دیکھتے ہو ئے پا کستا نی دوست کہنے لگا کہ اب یہا ں سے کھسکنا بہتر ہے ۔
یہا ں کے کھانے کچھ تو بہت مزیدار ہیں ۔

لیکن زیا دہ تر کے با رے میں میری رائے اچھی نہیں ہے ۔ تا زہ کو کو نٹ اور اس کا فرحت بخش دودھیا ر س البتہ ایسی چیز ہے جس کا پو ری دنیا میں کو ئی نعم البدل نہیں ۔ جس ہو ٹل میں میرا قیا م رہا ، اس کے اندر کپڑوں کی دکا ن کر نے والے ایک سکھ سے میری دوستی ہو گئی ۔ خا لصتا ن تحریک کے زوال کا سبب وہ نو جوان لڑکو ں کی شہا دت اور جلا وطنی بتا تا تھا مگر یہ مو ضو ع پھر کبھی اٹھا ئیں گے ، اس نے کھانو ں کے متعلق بڑی اچھی تجو یز دی ۔

دیسی کھا نو ں کے مرکز کی با بت اس سے پو چھا تو کہنے لگا یا روہ تو آپ سا را سا ل کھا تے ہو ،پہلے بھی کھا کر آئے ہو اور واپس جا کر بھی وہی کھا ؤ گے، یہا ں آتے ہو تو تھا ئی کھا نے ٹرائی کرو ۔ تھا ئی سی فو ڈ کی اس نے بہت خصو صی تعریف کی تھی۔ با زار میں بھا ؤ تا ؤ کا انداز اور ما حول با لکل پا کستا ن جیسا ہے ۔ جو قیمت دوکاندار طلب کر تا ہے ۔ اس سے کہیں کم قیمت پر فروخت کر نے پر بخو شی آما دہ ہو جا تا ہے ۔


ٹک ٹک یہا ں کا روایتی رکشہ ہے ، اس کے بغیر تھا ئی لینڈکا تذکرہ نا مکمل ہے ۔ بنکا ک میں آمدورفت کا یہ سب سے اہم ذریعہ ہے ۔ ٹک ٹک ہما رے چا ند گا ڑی کہلا نے والے رکشہ سے قدرے بڑا ہو تا ہے ۔ آپ یو ں سمجھ لیں کہ چا ندگا ڑی میں پھو نک بھر دی جائے اور وہ ایک مربع فٹ پھیل جا ئے تو ٹک ٹک بن جا تا ہے ۔ پبلک ٹرا نسپو ر ٹ کی با ت کر یں تو غا لبا ًیہ دنیا کا واحد ملک ہے جہا ں پر مو ٹر سا ئیکل بھی بطور ٹیکسی استعمال ہو تا ہے ۔

موٹر سا ئیکل ٹیکسی بنکاک میں زیا دہ مقبول ہے جس کی وجہ اس شہر کی بے ہنگم ٹریفک ہے ۔ بنکاک کو ٹریفک کے بہا ؤ کے اعتبا ر سے دنیا کا سب سے براشہر بھی کہیں تو مبا لغہ آرائی نہیں ہے ۔ پا کستا ن میں ٹریفک کا نظام یہا ں سے بدر جہا بہتر اور متوازن ہے ۔ بنکا ک میں اگر آپ ٹریفک میں پھنس گئے تو پتہ نہیں کب نکلیں گے ، دو ، چا ر گھنٹے تو معمو لی با ت ہے ، آٹھ، دس گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں ۔

فضا ئی آلو دگی اس شہر کا بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ یہا ں سے ایک گھنٹے کی مسا فت پر پتایا کہ سفید ریت کا حا مل خو بصور ت سا حل اور چھو ٹا سا شہر ہے ۔ میرا مشو رہ تو یہ ہے کہ اگر آپ تھا ئی لینڈ جا ئیں تو بنکا ک کی بجا ئے پتایاکے سا حل پر زیا دہ وقت گزاریں۔ ملک میں آئینی طور پر با دشا ہت ہے اور پا رلیما نی نظام آئین کا حصہ ہے جو کہ برطانیہ اور جا پا ن سے مما ثلت رکھتا ہے ، یہا ں با دشا ہ کو مذہبی تکریم حا صل ہے، لو گ اس سے بہت محبت اور عقیدت رکھتے ہیں ۔ آج کل جمہو ریت مو قوف ہے اور فو ج کا راج ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :