معصوم زنیب کی لاش پر سیاست

اتوار 14 جنوری 2018

Afzal Sayal

افضل سیال

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ زنیب واقعہ ہمارے معاشرتی پستی کی نشاندہی کر رہا ہے ۔ میرے ملک پاکستان میں کئی زنیب اسطرح کی درندگی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں ۔ زنیب واقعہ بھی اگر میڈیا اور سوشل میڈیا کی زنیت نا بنتا تو یقننا زنیب کا والد اب تک ایف آئی ار درج کروانے کے لیے سیاست دانوں کے دفتر کے چکر لگا رہا ہوتا ۔۔۔ قصور کی تحصیل پتوکی کے چھٹی کلاس کے طالب علم شرق عرف بوبی سکول سے واپس نا لوٹا تو والدین نے پولیس کو اغوا کی درخواست دی لیکن پولیس نے اپنی راویتی انداز اور رویہ اپنایا کہ اپنے رشتہ داروں کے ہاں ڈھونڈیں ۔

اگر کسی پر شک ہے تو چھ ہزار کا ڈیزل گاڑی میں ڈالوانے کے پیسے دیں ہم کاروائی کرتے ہیں چار روز بعد اسکی لاش گنے کے کھیتوں سے ملی ہے جسکو زیادتی کے بعد گلا دبا کر قتل کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔
زنیب گھر واپس نا لوٹی تو لواحقین نے پولیس کو درخواست دی لیکن پولیس نے کوئی کاروائی نا کی ۔۔۔۔ پولیس کو سی سی ٹی وی فوٹیج دی گئی لیکن پولیس پانچ دن تک زنیب کی کوڑے سے لاش ملنے کا انتظار کرتی رہی ۔

۔ المیہ دیکھیں جب بچی کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملی تو پولیس نے بچی کے لواحقین کو کہا کہ (جس نے لاش ڈھونڈی ہے اسکو دس ہزار انعام دیں)
سب سے پہلے سوشل میڈیا نے اس درندگی کو اجاگر کیا پھر میڈیا نے اس درندگی پر بھرپور کوریج دی جسکے بعد خادم اعلی اور حکومتی انتظامیہ کو تب ہوش آیا جب ننھی کلی مرجھا چکی تھی اسکی چمکیلی آنکھیں زندہ رہنے کی فریاد کرتے کرتے ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئیں ۔

۔ یہ دو واقعات پنجاب میں پولیس کی کارکردگی کے عکاس ہیں ایسی کئی زنیب درندگی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں لیکن انکا کہیں ذکر تک نہیں ۔۔۔۔۔۔ زنیب کے ساتھ طالب علم شرق کے والدین کو بھی انصاف ملنا چاہیے لیکن ہمارے ملکی لیڈران زینب کے اہل خانہ کو انصاف دلاتے دلاتے قاتل کا ذکر ہی بھول گئے اور زنیب کو انصاف دالانے کی آڑ میں حکومت گرانے کی کوشش شروع ہوگئی۔

۔ اب پلان کے ساتھ قصور میں انارکی پھیلائی جارہی ہے ن لیگ کے حکومتی ممبران کے گھروں اور گاڑیوں کا آگ لگائی جا رہی ہے ہسپتال ، ڈی پی او ، ڈی سی آفس پر تالے لگ چکے ہیں اور شہر کا نظام زندگی انصاف لینے والے ورغلائے ہوئے شرپسندوں کے ہاتھ میں ہے پورے شہر کو ڈنڈا بردار لوگوں نے یرغمال بنا رکھا ہے ۔ زنیب کا انصاف لینے والے تین مزید افراد کو پولیس نے گولیاں مار کر قتل کردیا ہے جسکے بعد اب پولیس مظاہرین کا سامنا کرنے سے قاصر ہے ۔

۔
عمران خان اور آصف زرداری پنجاب حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں، شیخ رشید، سراج الحق اور طاہرالقادری کے بیانات ایسے ہیں کہ گویا شہبازشریف اور رانا ثنااللہ نے منظم منصوبہ بندی کے تحت ریپ کرایا، نابلد ممبر قومی اسمبلی مسلم لیگ ن مائزہ حمید تو والدین کو سانحے کا ذمہ دار قرار دے چکی ہے (گو کہ بعد میں اس نے معافی مانگ لی ) اگر قاتل یہ سب دیکھ رہا ہوگا تو یقننا ہمارے حکمرانو اور سیاست دانوں پر ہنس رہا ہوگا۔

۔ روایتی باتوں کے سوا زنیب قاتل کے حوالے سے سول سوسائٹی ، انسانی حقوق نامی تنظیمں اور موم بتی آنٹیاں بھی کوئی ٹھوس موقف نہیں دے رہیں ۔۔ سوشل میڈیا اور ہر عام پاکستانی زنیب کے قاتل کو سرعام چوک میں پھانسی کا مطالبہ کر رہا ہے ۔۔ لیکن یہ آنٹی مافیا اس پر خاموش ہے کیونکہ وہ پاکستان میں پھانسی کے خلاف موم بتیاں جلا کر اپنے یورپین آقاوں سے بنک بیلنس بھرتی ہیں ۔

۔ لہذا وہ زنیب درندگی پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں ۔۔۔ حالانکہ یورپ اپنے ملزموں کو ظاہر کا انجکشن لگا کریا سر میں گولیاں مار کر سمندر برد کردیتا ہے لیکن ان پھاپھے کوٹنی آنٹیوں کو پاکستان میں پھانسی کا قانون ظلم لگتا ہے ۔۔
اپوزیشن کے غیر ذمہ دارانہ راویے سے تو یوں لگ رہا ہے جیسے زینب کو انصاف کا بہانہ ہے اور نشانہ حکومت ہے،یہ جتنے بھی سیاسی لیڈر ہیں، ان کے معیار دہرے ہیں، نوڈیرو میں پانچ سالہ مسکان کا ریپ ہوا، آصف زرداری نے ایک لفظ نہیں کہا مگر زینب کے لیے وہ انصاف مانگ رہا ہے ، ڈٰیرہ اسماعیل خان میں لڑکی کو برہنہ کرکے گھمایا گیا، عمران خان ملزمان کے سرپرستوں کے حق میں بیان دیتے رہے مگر زینب کے معاملے پر وہ غیرت مند ہوچکے ہیں، سراج الحق عورتوں پر تشدد کے خلاف بل کو اسلام پر حملہ قرار دے چکے ہیں اور اب وہ زینب پر ہوئے تشدد پر برافروختہ ہیں، پرویز مشرف بھی زینب کے لیے انصاف مانگ رہے ہیں مگر وہ بھول گئے کہ انہوں نے 2005 میں واشنگٹن پوسٹ کو بتایا تھا کہ پاکستانی لڑکیاں کینیڈا کا ویزا حاصل کرنے کے لیے اپنا ریپ خود کراتی ہیں
مختاراں مائی سے شازیہ خالد اور کائنات سومرو سے ننھی زینب تک ہماری بیٹیاں لٹتی چلی گئیں اور ہم میں سے اکثر قاتل پر بات کے بجائے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرتے چلے گئے
آج ملک کا ہر شہری سوگ میں ہے ، ہر بیٹی کا باپ اشک بہا ر ہاہے لیکن سیاست دان سیاست چمکا رہے ہیں یہ لوگ کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم درندگی اور سفاکیت پر سیاست تو نا کرو صاحب
ہمارے سماج کا ٹریک ریکارڈ تو یہی بتا رہا ہے کہ نا پہلے کسی درندے کو سرعام پھانسی ہوئی اور نا زنیب کے قاتل کو سرعام پھانسی ہوگی ۔

۔ کیونکہ جب انصاف کی آڑ میں سیاست ہوتی ہے تو انصاف نہیں ملتا صاحب صرف سیاست ہوتی ہے سیاست ۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :