پاک امریکہ تعلقات،رئیل ازم اور گیم تھیوری

اتوار 14 جنوری 2018

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو یہ شروع دن سے ساس بہو یا سوکنوں والی روایتی لڑائی کی طرح ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں کوئی انہونی بھی نہیں ۔ دنیا کے اہم ملکوں کے باہمی تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو بیشتر ملکو ں کے تعلقات میں آپ کو یہی عنصر دیکھنے کو ملے گا ، فرق ہے تو اتنا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں خارجہ پالیسی کی تشکیل کے لئے تمام متعلقہ ادارے قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے باہم مشورہ کرتے ہیں اور اس عمل میں عالمی سیاست کے مسلمہ اصولوں سے کما حقہ استفادہ کیا جاتا ہے ۔

پاکستان کا لیکن باوا آدم ہی نرالا ہے یہاں تو پالیسی کی تشکیل کے ذمہ دار وں کو گھاس تک نہیں ڈالی جاتی ۔
امریکہ جب بھی اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دیتا ہے تو اس کا محور ریاست کا قومی مفاد ہوتا ہے ۔

(جاری ہے)

ان کے ادارے اس قدر طاقتور اور پختہ کار ہو چکے ہیں کہ وہاں شخصیات ایک حد سے زیادہ اداروں پر اثر انداز نہیں ہو سکتیں۔ ٹرمپ کو ہی لے لیجئے جس نے اپنی انتخابی مہم میں واضح طور پر یہ اعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان سے امریکہ فوجوں کا انخلا یقینی بنائیں گے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد الٹا ٹرمپ نے افغانستان میں مزید فوجی بھیج دئیے ہیں ۔

اب قبلہ ٹرمپ فرماتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو اربوں ڈالر دئیے لیکن وہ ہمارے ساتھ ڈبل گیم کرتا رہا۔ پنجابی میں کہتے ہیں ”فٹے منہ تے لکھ دی لعنت“کیسی سپر پاور ہے جسے پندرہ برس تک معلوم ہی نہیں ہوا کہ اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے ۔ اصل کہانی یہ ہے کہ امریکہ کو سب معلوم تھا لیکن اس وقت اس معاملے میں بات کرنا امریکی مفاد میں نہیں تھا۔
ہمارے ہاں سرخی پاوٴڈر لگا کر ٹی وی پر تجزیے تو بہت کئے جاتے ہیں لیکن یہ کوئی نہیں سوچتا کہ عالمی سیاست میں REALISM(رئیل ازم ) بھی کسی بلا کا نام ہے ۔

بنیادی اصول رئیل ازم کا یہ ہے کہ ریاست کو اپنی بقا اور اثرو رسوخ کے پھیلاوٴ کے لئے زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کی کوششیں کرتے رہنا چاہیے ۔ جتنی زیادہ ریاست طاقتور ہوگی اسی قدر آسانی اور سہولت سے وہ اپنے مقاصد کو حاصل کر سکے گی ۔ کینتھ والٹز Kenneth Waltz ”رئیل ازم “ کے جدید افکار NEOREALISM کا باوا آدم ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ ہر ریاست طاقت کے حصول کی بھوکی ہوتی ہے اور اس بھوک کے پیچھے کچھ وجوہات بھی ہوتی ہیں ۔

ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا مقصد دنیا بھر میں CAPITALISMکا فروغ ہے ۔اس تناظر میں آپ REALISM کو مدنظر رکھیں تو امریکہ کیا برا کر رہا ہے ؟ظاہر ہے وہ سپر پاور ہے اوردنیا کے معاملات کو اپنے مطابق ہی چلانے کی کوشش کرے گا ۔ ہمیں اگر آج تک یہی معلوم نہیں ہو سکا کہ ہمارا قومی مفاد کیا ہے تو اس میں امریکہ کا کیا قصور ہے ؟۔


بہر حال! پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں حالیہ کشیدگی کا تعلق طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت پاکستان کچھ ایسا غلط بھی نہیں کر رہا لیکن چونکہ ہم اس کے مقابلے میں ایک کمزور ملک ہیں تو دنیا میں ہماری بات سنی نہیں جا تی ۔ سچی بات لیکن یہ ہے کہ جس قدر خارجہ پالیسی کے محاذ پر ہمیں کا م کرنا چاہیے تھا وہ ہم نہیں کر سکے ۔


دنیا میں آج جس دہشتگردی کے خاتمے کی بات ہورہی ہے اس کے ڈانڈے نائن الیون سے ملتے ہیں ۔ ہم میں سے بہت سے بھولے بادشاہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے نائن الیون کے بعدصرف امریکی دباوٴ پر طالبان کے معاملے میں یوٹرن لیا اور اپنے ”مسلم ہمسائے افغانوں“ کے قتل عام میں امریکہ کی معاونت کی ۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ملکوں کے تعلقات مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں مذہب کی بنیاد پر نہیں۔

ہم یہ بھی نہیں سمجھنا چاہتے کہ خارجہ پالیسی میں CONVERSION OF INTREST اور DIVERSION OF INTRESTنام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ جب کسی ریاست کے ساتھ آپ کے مفادات مشترک ہو جاتے ہیں تو آپ کے تعلقات اچھے ہوجاتے ہیں او رجہاں کہیں آپ کے مفادات کا ٹکراوٴ کسی دوسری ریاست سے شروع ہوتا ہے تو وہیں سے آپ کے تعلقات خراب ہونے شروع ہو جاتے ہیں ۔
دنیا میں صرف دو ہی ملک تھے جنہوں نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا اور ان میں سے ایک پاکستان تھا۔

طالبان نے مگر باقی دنیا کو بھی آدھے پر لکھا اور پاکستان کا بھی کوئی لحاظ نہ کیا۔نائن الیون سے بہت پہلے طالبان نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہ کرنے کا پھڈا ڈال دیااوراسی دو رمیں پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات بھی شروع ہوچکے تھے جن کے ڈانڈے افغانستان سے ملتے تھے ۔ یہی وہ وقت تھا جب پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان DIVERSION OF INTRESTیعنی مفادات کے ٹکراوٴکا آغاز ہوا۔

اقوام عالم کے ساتھ افغانستان کی طالبان حکومت کے تعلقات پہلے ہی اچھے نہیں تھے اوپر سے امریکہ کو یہ غصہ تھا کہ طالبان اسامہ بن لادن کو اس حوالے کرنے کی بجائے دنیا کی سپر پاور کو آنکھیں دکھا رہے تھے ۔صورتحال ایسی بنی کہ پاکستان کا طالبان کے ساتھ تو مفادات کا ٹکراوٴ چل رہا تھا لیکن امریکہ کے ساتھ ایک بار پھر CONVERSION OF INTRESTشروع ہوگیا یعنی مفادات مشترک ہوگئے ۔

شرط پاکستان کی یہ تھی کہ طالبان کے بعد کابل میں پاکستان دوست حکومت قائم کی جائے گی ۔ غلطی لیکن یہ ہوئی کہ افغانستان پر امریکی حملوں کے دوران پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سرحد کو منظم نہ بنایا بلکہ اس طویل سرحد سے دونوں اطراف آزادانہ آمدو رفت جاری رہی ۔ اوپر سے امریکہ نے پاکستان کے ساتھ وعدہ خلافی کرتے ہوئے بھارت کو خطے کا تھانے دار بنانے کے لئے کابل میں بھارت دوست حامد کرزئی کو اقتدار سونپ دیا۔

حامد کرزئی نے افغانستان کے بچے بچے کے دماغ میں یہ بات ٹھونس دی کہ افغانستا ن کے ساتھ ہر زیادتی کا ذمہ دار پاکستان ہے ۔ افغانستان میں بھارتی مفادات بڑھنے لگے تو پاکستان میں دہشتگردی بھی عروج پر پہنچ گئی ۔پاکستان میں دہشتگردی بڑھی تو کابل میں بھی پے درپے دھماکے ہونے لگے۔ عقل والے تو سمجھ رہے تھے کہ ایک کا جواب دوسرا ہے ۔
ایبٹ آباد میں اسامہ کی ہلاکت کے بعد پاکستان اور امریکہ کے مفادات میں ایک بار پھر ٹکراوٴ شروع ہوگیا ،سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد تونان نیٹو اتحادی کی زبردستی کی یہ شادی تقریباََ ٹو ٹ ہی چکی تھی ۔

عالمی سیاست شطرنج کی ایک ایسی بساط ہے جو بڑے بڑوں کے ذہن چکر ا دیتی ہے ۔ سیاسیات کے طالب علم اور ماہرین GAME THEORYسے اچھی طرح واقف ہیں جس میں فریقین اپنے مفادات کے حصول اور دشمن کے نقصان کے لئے ایک کے بعد دوسرا پینترہ بدلتے ہیں تاکہ اپنی بقا اور سلامتی کو یقینی بنایا جاسکے ۔ افغانستان میں حامد کرزئی کے بعد اشرف غنی کی حکومت آئی تو ایک بار یہ امید بندھی کہ شائد دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہوجائیں لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا۔

پاکستان اب افغانستان سے آنے والے دراندازوں کو روکنے کے لئے سرحد پر باڑ لگا رہا ہے ،جس سے امریکہ کے پیٹ میں شدید مروڑ اٹھ رہے ہیں کیونکہ پاکستان اندرونی سطح پر بڑی حد تک دہشتگردی کا خاتمہ کر چکا ہے اور افغانستان سے دراندازی بند ہوگئی تو دہشتگردی تقریباََ ختم ہی ہو جائے ۔ افغانستان میں لیکن طالبان آج بھی امریکہ اور کابل کے لئے در د سر بنے ہوئے ہیں ۔

امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان نے جو اثاثے اس کی مدد سے اپنے لئے بنائے تھے انہیں اپنے ہاتھوں آگ لگا دے لیکن اتنا پاگل کون ہوتا ہے ۔ دوسری خواہش امریکیوں کی یہ ہے کہ افغان طالبان کو مذاکرات کے لئے بھی پاکستان ہی راضی کرے لیکن پاکستان شائد اس چوہے بلی کے کھیل سے تنگ آچکا ہے اور وہ خود کوچین کی مدد سے معاشی طورپر مستحکم کرنا چاہتا ہے ۔ اسی لئے پاکستان نے NO MORE کا نعرہ لگا دیا ہے ،خدا کرے میرا یہ خواب سچاہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :