کوئی نسبت تو ہوئی رحمت عالم سے مجھے!

جمعہ 12 جنوری 2018

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

دنیا میں خیر و شر اور حق و باطل کی معرکہ آرائی ابتدائے آفرینش سے جاری ہے اوراللہ کی زمین کسی بھی دور میں ایسے لوگوں سے خالی نہیں رہی جو سچائی کی جنگ لڑتے، حق پر قائم رہتے اور باطل سے دودو ہاتھ کرتے ہیں۔ دوسری جانب ایسے لوگ بھی روئے زمین پر ہمیشہ وافر مقدار میں پائے جاتے رہے ہیں جو طاغوت پر ایمان رکھتے، کفرو و شرک پر اڑتے اور حق والوں سے ستیزہ کاری کو اپنا شعار بنالیتے ہیں۔

اقبال کا شعر ہے تو بہت مشہور لیکن اس کی معنویت کی گہرائی اسے ہر دم تازہ و تابندہ رکھتی ہے کہ #
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی
آج کی دنیا کے منظر نامے ہر اگر ایک نظر دوڑائی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی کی ستیزہ کاری اس وقت کی سب سے بڑی عالمی حقیقت ہے۔

(جاری ہے)

گزشتہ صدی کے نصف آخر میں مغربی سرمایہ داریت اور روسی اشتراکیت کی کشمکش دنیا کی سب سے بڑی معرکہ آرائی قرار پائی اور دنیا کے خطیر وسائل اس جنگ میں جھونکے گئے جبکہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد رواں صدی کے آغاز سے پہلے ہی یہ بات طے کر لی گئی تھی کہ نئی صدی میں مغربی سرمایہ داریت کا ہدف اسلام کا” خطرہ“ ہوگا۔

عالمی طاقتوں نے اس مقصد کے لیے جہاں عراق اور افغانستان سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں بودے بہانوں سے گرم محاذ کھولے اور لاکھوں مسلمانوں کو تہ تیغ کیا، وہیں ساتھ میں نظریاتی جنگ کے لیے ابلاغی ہتھیاروں کو بھر پور طریقے سے بروکار لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسلام سے متعلق تشکیک پھیلانے اور مسلم معاشروں کو اسلامی تعلیمات سے برگشتہ کرنے کے لیے مختلف حربے بروئے کار لائے جانے لگے۔


ان میں سے سب سے خطرناک حربہ مسلمانوں کی محبتوں اور عقیدتوں کے مرکز و منبع محسن انسانیت حضوررسالت ماٰب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات والا صفات پر رکیک حملے کرکے امت مسلمہ کے قلب و جگر کو چھلنی کرنے کا حربہ تھا۔ مغرب جانتا ہے کہ حضور خاتم النبیین سے محبت و عقیدت دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے درمیان بائینڈگ فورس ہے اورآپ کے ساتھ مسلمانوں کا رشتہ کمزور پڑگیا تو اس کے لیے اپنے عزائم کی تکمیل آسان ہوجائے گی۔

چنانچہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت مغربی اخبارات و جرائد میں توہین آمیز خاکے اور مضامین شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور جب مسلمانوں نے اس ناپاک جسارت کے خلاف احتجاج شروع کیا اور عالمی قوتوں سے اس دریدہ دہنی کو روکنے کا مطالبہ کیا تو مسلمانوں کے اس احتجاج کو ”انتہاپسندی“ جبکہ توہین رسالت کی ناپاک کوششوں کو” آزادیٴ اظہار“ کاحق باور کرانے کی کوشش کی گئی۔

تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق چند مسلماں نوجوانوں نے خاکے شائع کرنے والے جرائد کے دفاتر پر حملے کیے تو باوجود اس کے اسلامی دنیا کے ذمہ دار ممالک اور شخصیات نے ان حملوں کی مذمت کی، اگلے ہی روز 40مغربی ممالک کے سربراہان ہنگامی بنیاد پر جمع ہوکر توہین رسالت کے مجرموں کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور یہ پیغام دے دیا کہ انہیں دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مجروح جذبات و احساسات کی کوئی پروا نہیں ہے اور در حقیقت وہی چراغ مصطفوی کے مقابلے میں شرار بولہبی کو بھڑکانے والے ہیں۔


ان قوتوں نے اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ پاکستان سمیت ان اسلامی ممالک پر جہاں توہین رسالت جرم ہے، دباو ٴ ڈالنا شروع کردیا کہ وہ انسداد توہین رسالت کے قوانین کو ختم کرکے ناموس رسالت کے خلاف دریدہ دہنی کے لیے میدان ہموار کریں تاکہ وہ اپنے پیادوں کو اس میدان میں اتار سکیں۔ یہ کوششیں تو زیادہ کامیاب نہ ہوسکیں تاہم دوسری جانب رواں عشرے کے آغاز پر سوشل میڈیا کی صورت میں مغرب کو ایک نیا ہتھیار میسر آگیا، اس ہتھیار کو استعمال کرنا اس لیے آسان ٹھہرا کہ اس کے ذریعے چھپ کر وار کیا جاسکتا ہے۔

چنانچہ ایک وقت ایسا آیا جب پاکستان جیسے ملک میں جہاں98فی صد آبادی مسلمان ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت بھی رکھتی ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے انتہائی غلیظ اور نجس پروپیگنڈے کا آغاز کیا گیا۔ اس پروپیگنڈے نے ہر کلمہ گو پاکستانی کو شدید ذہنی کرب اور اذیت میں مبتلا کردیا، مختلف دینی جماعتوں، عوامی حلقوں اور تمام طبقات نے اپنی اپنی سطح پر اس سلسلے میں احتجاج کیا لیکن افسوس کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنی ذمہ داریوں کا بروقت ادراک نہیں کیا اور بہت دنوں تک پاکستانی قوم دکھ اور بے بسی کی کیفیت میں مبتلا رہی۔


مگر یہ اس قو م کی خوش قسمتی ہے کہ اس کے ایک بیٹے نے باطل کے اس زہریلے وار کا موٴثر جواب دینے کی ٹھانی اور اپنی ایمانی حمیت، قانونی بصیرت اور اپنے منصب کی طاقت کا پورا پورا استعمال کرتے ہوئے شرار بولہبی کی بھڑکوں پر ایسی روک لگادی ہے کہ ان شا ء اللہ یہ اب کم از کم پاکستان میں چراغ مصطفوی سے ستیزہ کاری میں کوئی تیزی نہیں دکھاسکیں گی۔


میری مراد عزت ماٰب جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب سے ہے جنہوں نے سوشل میڈیا پر توہین رسالت کے مقدمے میں انتہائی جرأ ت مندانہ اور تاریخی فیصلہ جاری کرکے پوری پاکستانی قوم کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا ہے۔ جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس مقدمے کی سماعت کے دوران جس طرح تمام متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران کے ایمان و غیرت کو جھنجھوڑااور سوشل میڈیا پر توہین رسالت کے سدباب کے لیے جو احکامات جاری کیے، اس سے پاکستان کے بیس کروڑ مسلمانوں کو ایک ڈھارس ملی کہ پاکستان کے ریاستی اداروں میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کی بدولت ہم اپنے اداروں پر فخر اور اعتماد کرسکتے ہیں۔


جسٹس شوکت عزیزصدیقی کا یہ فیصلہ اب کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے اورراقم اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہے کہ جسٹس صاحب کے دستخط کے ساتھ سے یہ کتاب بندہ کے بھی نظر نواز ہوئی ہے۔ بندہ نے بہت سے پینٹ کورٹ والے حضرات کو علماء وبزرگان دین سے انتہائی عقیدت وانکساری سے ملتے اور ان کی دست بوسی کرتے دیکھا ہے، گزشتہ دنوں اس کے برعکس ایک نجی تقریب میں بڑے بڑے علماء کو پینٹ کورٹ میں ملبوس جسٹس شوکت عزیز سے دینی عقیدت سے ملتے اوران پر عقیدتوں کے پھول نچھاور کرتے دیکھا اور زبان پر بے اختیاریہ آیت آگئی کہ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔


جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا یہ فیصلہ ایک جانب ان کی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے بے پناہ محبت و عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اس کے ایک لفظ اور پیرے میں حب نبوی کے کوثر و تسنیم کی آب و تاب جھلکتی ہے تو دوسری جانب یہ بین الاقوامی اور ملکی قوانین پر ان کی زبردست دست رس کی بھی گواہی دیتا ہے۔ جسٹس صدیقی نے اپنے اس فیصلے میں جہاں قرآن و سنت کے دلائل و براہین، اسلامی تاریخ اور فقہ کے نظائراور نامور مسلم مفکرین و علماء کی آراء سے انسداد توہین رسالت کے اسلامی احکام کو الم نشرح کردیا ہے، وہیں ساتھ میں اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قوانین، مغربی و یورپی ممالک کے عدالتی فیصلوں اور رائج دساتیر کے نظائر سے ان تمام اشکالات و شبہات کو مدلل اور مسکت جواب دیا ہے جو آزادیٴ اظہار اور تحفظ افکار کے نام پر پھیلائے جارہے ہیں۔

جسٹس صاحب نے ناقابل تردید دلائل سے ثابت کیا ہے کہ دنیا کے کسی قانون اور ضابطے میں” اظہار کی آزادی“ اور” اظہار کی ذمہ داری“ کو الگ الگ نہیں کیا گیا۔ جسٹس صاحب کے اس فیصلے پر اگر مختصر تبصرہ کیا جائے تو یہ ناموس رسالت کے تحفظ کے سلسلے میں مسلمانوں کے علمی ورثے کا خلاصہ اور نچوڑ ہے اور اس کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ محض ایک تحقیق یا تصنیف نہیں بلکہ باقاعدہ ایک قانونی دستاویز ہے۔

گویا جسٹس صاحب نے اس مسئلے پر امت مسلمہ کے موقف پر عدالتی مہر ثابت کردی ہے اور اپنے سچے اور کھرے ”صدیقی “ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ جسٹس صاحب نے اس فیصلے میں ملک میں توہین رسالت کے سدباب کے لیے بہترین سفارشت پیش کی ہیں، توہین رسالت کے جھوٹے مقدمات قائم کرنے کی روک تھام کے لیے انہوں نے تجاویز دی ہیں جن پر غور کیا جانا چاہیے۔ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے فیصلے کی کتاب پر مختصر اور جامع تقریظ لکھی ہے جبکہ دیگر کئی علماء اور مذہبی رہنماوں کی فیصلے سے متعلق تحریریں کتاب کا حصہ ہیں۔

کتاب میں شامل عرفان صدیقی کی تحریر اور ختم نبوت سے متعلق پارلیمنٹ ذولفقار علی بھٹو کی تقریر بھی پڑھنے کی چیز ہے۔
جسٹس صاحب نے فیصلے کا آغاز قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کے حوالوں اور اختتام علامہ ابن تیمیہ کی شہرہ آفاق ”الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول“ کے اقتباس سے کیا ہے اور آخر میں اپنے جذبات کی ترجمانی ان اشعار سے کی ہے #
میں نہ زاہد، نہ مجاہد، نہ مفسر نہ حکیم
میری دولت دل شرمندہٴ عصیاں ہی سہی
کوئی نسبت تو ہوئی رحمت عالم سے مجھے
آخری صف کا میں ادنیٰ سا مسلماں ہی سہی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :