ہمیں کس نے شکست دی ہے؟

جمعہ 12 جنوری 2018

Farrukh Shahbaz Warraich

فرخ شہباز وڑائچ

قصور میں پیش آنے والے افسوس ناک واقعے نے ہمارے معاشرے کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اندوہناک داستان پہلی مرتبہ ہمارے سامنے آئی ہے؟ بالکل نہیں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا،اس سے پہلے میرے اور آپ کے قریب کتنی ہی بار یہ سب ہو چکا ہے ہر مرتبہ ہم مذمتی بیان سنتے ہیں،دو چار دن افسوس کرتے ہیں،فیس بک اور ٹوئٹر پر حکمرانوں کو گالیاں دے کر سوجاتے ہیں۔

اس واقعے کو بھول جاتے ہیں یہاں تک کے پھر اس سے ملتا جلتا سانحہ سامنے نہ آجائے۔ پاکستان میں بچوں کے ساتھ سے زیادتی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے اور ملک میں روزانہ 11 معصوم بچے جنسی درندگی کا شکار بنتے ہیں۔ 2016ء میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 2127 واقعات پیش آئے جب کہ 2017 میں 1764 وااقعات رپورٹ ہوئے۔

(جاری ہے)


پولیس ریکارڈ اور مختلف تنظیموں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اوسطاً ہر روز 11 معصوم بچے جنسی درندگی کا شکار بنتے ہیں اور صرف 2016 میں ملک بھر میں 100 بچے ایسے تھے جو زیادتی کے نتیجے میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے یا قتل کر دیے گئے۔

پولیس تک پہنچنے والے کیسز میں سے 76 فی صد دیہی علاقوں جب کہ 24 فی صد شہری علاقوں کے تھے۔ جنسی درندگی کا نشانہ بننے والے بچوں میں سے 41 فی صد لڑکے تھے اور اہم بات یہ ہے کہ بہت سے واقعات پولیس تک پہنچتے ہی نہیں، اس لیے ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں بن پاتے۔
ایک دوسری رپورٹ کے مطابق 2016 کے مقابلے میں 2017 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں 17 فیصد کمی دیکھنے میں آئی لیکن اس کمی کی وجہ میڈیا کا زیادتی کے واقعات کے بجائے سیاسی معاملات پر توجہ دینا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2016 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 2127 واقعات پیش آئے جب کہ 2017 میں 1764 وااقعات رپورٹ ہوئے۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 2016 میں جنسی زیادتی کے واقعات میں 850 بچوں اور 1277 بچیوں کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 2017 میں یہ تعداد بالترتیب 697 اور 1067 رہی۔
جنسی تشدد کے ان واقعات کو صوبائی بنیاد وں پر دیکھا جائے تو پنجاب 1089 واقعات کے ساتھ سرفہرست رہا جس کے بعد سندھ میں 490، بلوچستان میں 76، خیبرپختونخوا میں 42 جبکہ آزاد کشمیر سے بچوں سے جنسی زیادتی کے 9 افسوس ناک واقعات منظر عام پر آئے۔

ایسے میں صرف قصور کی بات کی جائے تو اس شہر سے سال2017 کے ابتدائی 6 ماہ میں 10 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا جن کی عمریں 5 سے 10 سال کے درمیان تھیں۔ابھی چند ماہ پہلے بچوں کے ساتھ بد فعلی کے واقعات اور بعد ازاں ان کی ویڈیو بنا کر بلیک میل کرنے کا واقعہ بھی قصور ہی میں پیش آیا تھا میڈیا رپورٹس کے مطابق اس واقعے میں 200سے زائد بچوں کی ویڈیوز بنائی گئی تھیں۔

2000ء میں جاوید اقبال نامی شخص کا کیس سامنے آیا تھا جو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے انہیں جان سے مار دیتا تھا ،اس نے خود ہی گرفتاری دے دی تھی بعد میں جیل میں خود کشی کرلی تھی اس نے 100 بچوں کی جان لینے کا اعتراف کیا تھا۔ایسے بے شمار واقعات رونما ہوئے مگر افسوس کے ساتھ ہم نے”ڈنگ ٹپاؤ“ پالیسی اپنائے رکھی۔آج تک ہم کتنی قانون سازی کرنے میں کامیاب ہوئے؟ ہم اس حوالے سے شعور تک نہ دے سکے آج کے روز تک کتنے بچے کام کرنے والی جگہوں پر،مدرسوں میں ،اپنی گلی محلوں میں ہوس کا نشانہ بن رہے ہیں ۔

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سوسائٹی بانجھ ہوگئی ہمارے پاس اپنے بچوں کی تربیت کے لیے بھی کچھ نہیں رہا ابھی اس خوفناک واقعے کے بعد ہمارے چینلز بھارتی اداکار عامر خان کی اس حوالے سے بنائی گئی ویڈیو دکھانے پر مجبور ہوئے،یہاں سے اندازہ لگائیں ہمارے تربیتی ادارے آج تک کیا کام کر رہے تھے،ہمارے دانشور سیاست پر تجزیوں میں مصروف تھے،ہمارے اینکرز حکومتیں بنا اور گرا رہے تھے،ہمارے علمائے کرام ،میڈیا،تعلیمی ادارے،این جی او ز،حکومتیں یہ سب ان سالوں میں کہاں سوئے ہوئے تھے؟صورتحال اتنی مشکل کیسے ہوگئی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کیا ہمارے معاشرے نے فکری راہنما پیدا کرنے بند کردیے ہیں،کتنے ہی موضوعات ہیں جن پر کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ،ہم بطور قوم کنفیوزڈ ہیں۔

معاشرے میں کئی المیے ایک ساتھ پنپ رہے ہیں ان سالوں کا سب سے بڑ ا المیہ جس نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے وہ فکری بحران ہے جو آج بھی ہمارا منہ چرا رہا ہے۔ کیا ہم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں ۔اب بھی وقت ہے ہم اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں کہ معاشرے کی بنیادیں کیونکر اتنی کھوکھلی ہوگئیں،ہمیں کس نے سر عام رسوا کرنے کے بعد شکست دے دی ہے۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :