خادم اعلیٰ!فرخ جیسے لوگوں کی شکایتوں سے بچیں!!!

منگل 9 جنوری 2018

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

فرخ کا شمار میرے بچپن کے دوستوں میں ہو تا تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس کے نانا محکمہ پولیس کے افسر تھے جس کی وجہ سے ان کے گھرمیں دنیا کی تمام نعمتیں میسر ہوتی۔ وسیع و عریض گھر، صرف ہم ہی نہیں بلکہ پورے محلے کے تمام بچے یہاں جمع ہوتے اور اپنی اپنی مرضی کے مطابق کھیل میں مصروف ہوتے،سب بچوں کے لئے دوپہر کا کھانا ان کی ہی ذمہ داری ہوتی ۔

دوران تعلیم جو بچہ بھی اچھے نمبر حاصل کرتا ، اس کے اعزاز میں شاندار تقریب کا اہتمام اور ایک اچھا سا تحفہ، نانا جی کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔ مجھے اب بھی اچھی طرح یاد ہے کہ کوئی روز ایسا نہیں گذرتا تھا جب ان کے گھر میں کوئی مہمان نہ آتا ہو۔ پورے محلے میں یہ گھر مہمان داری کی اپنی مثال تھا۔
والد صاحب کی کراچی پوسٹنگ کی وجہ سے شروع میں تو فرخ سے رابطہ رہا لیکن زندگی کے مصروف شب وروز کی وجہ سے آہستہ آہستہ دوستوں سے رابطہ کم ہوتا چلا گیا اور یوں ایک دن ایسے کئی دوست جن کے بغیر کچھ لمحے گذارنا مشکل ہوتے تھے ، وہ زندگی سے ایسے نکلے جیسے ان کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہ تھا۔

(جاری ہے)

شاید اب رشتوں میں اس قدر مادیت پیدا ہو چکی ہے کہ تعلق کو قائم رکھنے کے لئے دوسرے کو یاد کرانا پڑتا ہے کہ میرا بھی تمہارے ساتھ کوئی رشتہ ہے۔ زندگی کے ہنگاموں کی وجہ سے نہ تو مجھے فرصت ملی کہ میں اپنے کسی دوست کو یہ احساس دلاتا اور نہ انہیں کوئی زحمت گوارہ ہوئی ۔ وقت گذرتا رہا، جوانی میں قدم رکھا ، نئے چیلنجز سینہ تان کر آگے کھڑے تھے، ان سے نبردآزما ہونے کی کوششوں میں کچھ وقت جو کبھی میسر آجاتا تھا وہ بھی ختم ہو گیا ۔


اسی دوران والدصاحب نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ لاہور شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا اور یوں واپس لاہور آنا پڑا۔یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ وہ گھر جو کبھی محلے کی رونق سمجھا جا تا تھا وہاں اب اندھیروں نے ڈیرے ڈال لئے ہیں، جو بچوں کے قہقہوں سے گونجا کرتا تھا وہاں اب مٹی ، دھول اور خاموشی ہے ۔ معلوم ہوا کہ نانا جی کی وفات کے بعد ان کے گھریلو حالات تنگ ہو گئے اور جس کی وجہ سے وہ یہ گھر بیرون ملک کسی انوسٹر کو فروخت کر گئے ہیں۔

اس دوران میں نے فرخ کا پتہ لگانے کی کافی کوشش کی لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا۔
کئی سالوں بعد پچھلے دنوں ایک دوست نے فون کال کے ذریعے اطلاع دی کہ فرخ کو کینسر ہو گیا ہے اور وہ انمول ہسپتال میں داخل ہے ۔ موقع غنیمت جانتے ہوئے میں فوری انمول ہسپتال پہنچا تو دیکھا کہ وہ فرخ جو ہم سب دوستوں میں سب سے خوبصورت تھا، صحت، دولت اور ہر نعمت میں سم سب سے آگے تھا وہ غربت، بیماری اور بے بسی کی تصویر بنا ہو ا تھا۔

اس کے پاس اب اتنے پیسے بھی نہ تھے کہ وہ اپنا علاج کرا سکتا۔ مجھے دیکھ کر بے ہوشی کے عالم میں مخاطب ہوا:”یار ذوہیب! مجھے بچالو، میں مرنا نہیں چاہتا، میں اپنی بیوی اور دو سالہ بچے کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا“۔اپنے آنسوؤں کو بہت مشکل سے روکتے ہوئے میں نے اسے تسلی دی کہ انشا ء اللہ تمہیں کچھ نہیں ہوتا۔ میں اور کچھ دوستوں نے اپنی استطاعت کے مطابق پیسے جمع کئے اور اس کے حوالے کئے۔


آہستہ آہستہ اس کی طبیعت میں بہتری آرہی تھی جس کی وجہ سے ہسپتال انتظامیہ اسے گھر بھیج دیتی تھی۔ ایک روز اچانک اس کی طبیعت خراب ہوتی ہے اور اس کے گھر والے اسے فوری مئیو ہسپتال لے آتے ہیں ، ہسپتال انتظامیہ کچھ دیر بعد ہی اسے ایمرجنسی سے وارڈ میں شفت کر دیتی ہے اور جہاں 12گھنٹے گذرنے کے بعد بھی کسی ڈاکٹر کو اسے دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیں ہوتی اور پھر یہاں سے بھی اسے دوبارہ گھر بھیج دیا جا تا ہے ۔

گھر پہنچے ابھی ایک گھنٹہ بھی نہ گذرا تھا کہ اس کی سانس دوبارہ رکنا شروع ہو جاتی ہے ، اسے دوبارہ مئیو ہسپتال لایا جا تا ہے لیکن ان بے حس اور حرام خور ڈاکٹروں اور محکمہ صحت کے افسران جنہیں پروٹوکول کے مریضوں اور حکمران جماعت کے حمایتی مریضو ں کو وی۔وی۔آئی۔پی علاج سے فرصت ملے تو یہ عام مریض کو دیکھیں ۔ بالآخر فرخ بھی ان سیکڑو ں عام مریضوں کی طرح تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دیتا ہے جو ابھی مرنا نہیں چاہتے تھے۔


قارئین ! میں سمجھتا ہوں کہ بطور صوبے کے حکمران ہونے کے ناطے عام آدمی کی تما م تر ضروریات کی ذمہ داری خادم اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف پر عائد ہوتی ہے اور مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ اپنی اس ذمہ داری کو بخوبی سر انجام نہیں دے پارہے جس کی وجہ سے سیکڑوں لوگ محکمہ صحت کے ذمہ داروں کی وجہ سے موت کی وادی کے مسافر بن جاتے ہیں ۔

فرخ جیسے کئی لوگوں کی موت کی ایف۔آئی۔آر اُس بڑی عدالت میں آپ کے خلاف درج ہو رہی ہے جہاں جوابدہی بڑا کٹھن مرحلہ ہے اور جہاں جس پر فرد جرم عائد ہو جائے اسے فرار کا کوئی موقع میسر نہیں آتا۔ خادم اعلیٰ ! ایسے کئی لوگ رب کی بارگاہ میں آپ کیخلاف شکایت لے کر پیش ہوئے ہیں بلکہ فرخ کی بیوی اور معصوم بچے سمیت کتنے ہی لوگ صبح سے شام اپنے پیاروں کو موت پر اپنے رب کو شکایت لگاتے ہوں گے تو حضور ابھی بھی وقت ہے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سر انجام دیتے ہوئے صرف صحت کے شعبے کو حقیقی معنوں میں تبدیل کردیں تو مجھے یقین ہے کہ آپ کے خلاف کئی شکایتوں کا کفارہ ادا ء ہو سکے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :