پاکستانیو ۔ تیار رہنا

اتوار 7 جنوری 2018

Ammar Masood

عمار مسعود

اور ناضرین نواز شریف سعودی عرب سے بھی واپس آگئے۔ بہت سے اینکرز کی ناآسودہ خواہشیں نا آسودہ ہی رہیں۔ بہت سے تجزیہ کاروں کے تجزیئے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ دور کی کوڑی لانے والے خود کوڑی کے ہوگئے ۔ این آر او کی باتیں کرنے والوں کوسانپ سونگھ گیا۔ سعودی عرب فرار کی داستانیں سنانے والوں کو چپ لگ گئی۔ سعودیہ سے معافی مانگنے والی کہانیاں خود بخود دم توڑ گئیں۔

سعودی فرمارواں سے ڈانٹ کھانے والے فسانے ایک عجیب موڑ پر ختم ہو گئے۔ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے خواب بیچنے والوں کی آدھی نیند میں سے آنکھ کھل گئی۔نواز شریف تمام تر سفلی تجزئیات کے باوجود نہ ملک سے فرار ہوئے، نہ سعودی حکومت نے انہیں زبردستی مہمان بنانے کی کوشش کی، نہ کرپشن کی تفتیش کے لیے سعودی پولیس کو طلب کیا گیا ،نہ کوئی خفیہ معاہدہ ہوا اور نہ ہی بے سروسامانی میں وطن چھوڑنے کا فیصلہ ہوا۔

(جاری ہے)

نواز شریف وطن واپس آ گئے۔ اسطرح کی کہانیاں ہر بیرونی دورے میں جنم لیتی ہیں۔ نواز شریف کے ہارٹ بائی پاس کے آپریشن کے زمانے میں بھی ایسی ہی کہانیاں گھڑی گئیں۔ محترمہ کلثوم نواز کے علاج کے وقت بھی یہی داستانیں منظر عام پر آئیں۔والدہ کی تیمارداری کے لیے جانے والی مریم نواز کے بارے میں بھی یہی کہا گیا۔ جھوٹ بولنے والے نہ تھکتے ہیں نہ انکو اپنے کہے کی کوئی شرمندگی ہے۔

لیکن اب جھوٹ کے تسلسل سے لوگ اکتا گئے ہیں۔تماشہ دکھانے والے اب خود تماشہ بن رہے ہیں۔ ان پر ٹھٹھے لگ رہے ہیں۔ لوگ مذاق بنا رہے ہیں لیکن اس بات سے بے پرواہ ہو کر آمریت کی ڈگڈگی بجانے والے اپنا مداری پن جاری رکھے ہوئے ہیں۔میلہ اجڑ چکا ہے۔ تماشائی جا چکے ہیں۔ تماشہ بے لطف ہو چکا ہے لیکن ڈگڈگی بجانے والے اس بات سے بے خبربیچ چوراہے میں جھوٹ کی ڈگڈگی بجا رہے ہیں۔

صحافت کو سر عام کیش کروا رہے ہیں۔
لوگوں کو اندازہ ہی نہیں ہو رہا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔ طاہر القادری کے تیار سنٹرلی ہیٹڈ کنٹینر کو جالے لگ رہے ہیں۔جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دھرنے کا ریٹ ہی طے نہیں ہو رہا ہے اور دوسری یہ کہ دھرنے کے لیے سیاسی موسم اب مواقف نہیں رہا ہے۔ہر سال کو الیکشن کا سال قرار دینے والے شیخ رشید اب انتخابات سے خوف زدہ ہو رہے ہیں۔

اپنے کہے سے منکر ہو رہے ہیں۔ ہر دو ماہ کے بعد کچھ ہونے والا ہے کی نوید سنانے والے اب انتخابات رکوانے کی سعی نا تمام میں لگے ہوئے ہیں۔دوسری جانب نظریاتی کارکن پیپلز پارٹی سے منفور ہو رہے ہیں۔ قومی جماعت سے محدود ہوتے ہوتے اب پیپلز پارٹی اندرون سندھ کے چند اضلاع تک محدود ہو گئی ہے۔ پیپلز پارٹی قادری کے ساتھ پریس کانفرنس کر کے اپنی رہی سہی ساکھ بھی کھو چکی ہے۔

عمران خان انتخابات کی راہ میں ہر ممکن روڑے اٹکا رہے ہیں۔ وہ اب بھی سینٹ کے الیکشن سے پہلے ایمپائر کی انگلی کا انتظار کر رہے ہیں۔ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کو اپنی شکست صاف نظر آ رہی ہے۔2013والا جوبن اب تحریک انصاف کو میسر نہیں ہے۔ اگر اس عروج کے وقت بتیس سیٹیں میسر آئیں تھیں تو اس دفعہ تو ظاہر ہے اس سے کم ہی ہوں گی۔ اس متوقع ناکامی کا سہرا تحریک انصاف کے کارکنوں کو نہیں صرف اور صرف عمران خان کو جاتا ہے۔


دنیا کے حالات بدل رہے ہیں۔ آمریتوں سے گریز کیا جا رہا ہے۔ جمہوریت کی تو ثیق ہو رہی ہے۔عالمی منظر نامہ بدل رہا ہے۔ ٹرمپ کی پاکستان دشمنی سامنے آ گئی ہے۔ بتیس ارب ڈالر کا حساب مانگا جا رہا ہے۔ ڈبل گیم کے طعنے دیئے جا رہے ہیں۔ امداد بند کرنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں بنانے کے الزام لگ رہے ہیں۔ اسٹیلشمنٹ کی طرف سے معذرت خواہانہ رویہ اپنایا جا رہا ہے۔

خواجہ آصف البتہ گرج برس رہے ہیں۔ امریکہ کو اسکا ماضی یاد دلا رہے ہیں ۔ انکے علاوہ کوئی بھی یہ جرات نہیں کر رہا ۔ ایشا سوسائٹی میں
خواجہ آصف کی تقریر سونے کے حروف سے لکھی جانے والی تقریر ہے۔ اس قدر بے باکی سے ملکی موقف نہ کبھی کسی نے پہلے بیان کیا ہے نہ ہی کوئی بھی آج سے پہلے ایسی نڈر سوچ کا مرتکب ہو اہے۔ ہم نے تو وہ بزدل لوگ بھی دیکھے ہیں جو ایک فون کال پر ڈھیر ہو گئے تھے۔

جنہوں نے اپنے لوگ پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیئے ہیں۔ جنہوں نے غیرملکی سفیر مجرم بنا کر پیش کیئے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ڈرتے ورتے کسی سے نہیں تھے مگر اب اس سرزمین پر قدم رکھتے جان نکل رہی ہے۔
پاکستان کے حالات اس وقت اداروں کی مداخلت کے لئے موزوں نہیں ہیں۔ اب جیسے تیسے جمہوریت کو کڑوا گھونٹ گلے سے اتار نا ہی پڑے گا۔ جب ساری دنیا ہمارے اداروں کو الزام دے دہی ہے تو ایسے میں سیاستدانوں سے بہتر اپنے تاریک ماضی کا دفاع کوئی نہیں کر سکتا ۔

اس وقت سیاستدان اور جمہوریت عالمی منظر نامے کی ضرورت بھی ہے اور وطن عزیز کی بقا کی کنجی بھی اسی میں ہے۔اس امکان کی وجہ سے بہت تشفی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب سینٹ کے الیکشن بھی وقت پر ہوں گے۔ ڈکٹیٹروں کی عطا کردہ آئینی شقوں سے بھی نجات ملے گی۔ عام انتخابات بھی وقت پر ہوں گے۔جمہوریت کا لڑکھڑاتا سفر ایک اور مرحلے میں داخل ہوگا۔عوام ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے چنیں گے۔

زرداری دور سے موجودہ دور بدرجہا بہتر ہے۔ ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ اگلا جمہوری دور اس سے بہتر ہوگا۔ ترقی اس سے بھی زیادہ ہوگی۔ شاہراوں کے جال سارے ملک میں بچھیں گے۔ لوڈ شیڈنگ مکمل ختم ہو گی۔ اس دفعہ حکومت تعلیم اور صحت کی زبوں حالی پر بھی توجہ دے گی۔غربت کم ہوگی۔ صنعتیں پھولے پھلیں گیں۔کاروبار ترقی پائیں گے۔ ادارے اپنی حدود میں رہیں گے۔


اس تمام تر خوش گمانی کا سبب نواز شریف کی وہ پریس کانفرنس ہے جو انہوں نے سعودی عرب سے آکر کی ہے۔ اگر انکا رویہ معذرت خواہانہ ہوتا ، لہجے میں خود اعتمادی نہ ہوتی، آواز میں طاقت نہ ہوتی تو عام خیال میں جمہوریت کا ڈبہ گول ہو چکا ہوتا۔ لیکن عام رائے کے برعکس نواز شریف سعودی عرب سے آکر زیادہ جا رحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ماضی میں ہونے والی بے انصافیوں پر اب انکے لہجے میں پہلے سے زیادہ کاٹ موجود ہے۔

انتخابات میں کامیابی اب بھی انکی نظر میں ہے۔مسلم لیگ ن کا اتحاد اب بھی ان مقصد ہے۔ پاکستان کی ترقی کا خواب وہ اب بھی دیکھ رہے ہیں۔ این آر او کرنے والے ایسا نہیں سوچتے ۔ ایسا نہیں بولتے۔نہ انہیں خود پر یقین ہوتا ہے نہ آنے والے کل پر۔ لیکن نواز شریف کا لہجہ کچھ اور ہی بتا رہا ہے۔
سعودی عرب میں نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ کیا ملاقاتیں ہوئیں۔

ان ملاقاتوں میں کیا کیا موضوعات زیر بحث آئے۔ اس کے بارے میں حتمی اطلاع کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ سب قیافے، اندازے اور پیش گوئیاں ہی ہیں۔ لیکن جس احترام سے سعودی حکومت نے نواز شریف کوبلایا ہے۔جو پروٹوکول دیا ہے۔ جس سطح کی میٹنگز ہوئی ہیں ان سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ ہماری عدالتیں پانامہ کے بارے میں جو مرضی فیصلہ دے دیں ۔ عالمی منظر نامے سے نواز شریف کو نہیں ہٹا جا سکتا۔

اگر 2018 میں منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں تو
اگلی حکومت بھی مسلم لیگ ن کی بنے گی۔ سب پابندیاں خود بخود ختم ہو جائیں گی۔ سب درازے کھل جائیں گے ۔ عوام کی طاقت کو شکست دینے والوں کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کی کامیابی کے بعد یہ نواز شریف پر منحصر ہو گا کہ وہ اس ملک کے وزیر اعظم بننا پسند کرتے ہیں یا کرسی صدارت کا انتخاب کرتے ہیں۔


اور اگر بالفرض محال ایسا سب نہیں ہوتا۔ عالمی اور عوامی دباو کو پھر محلاتی سازشوں سے رد کر دیا جاتا ہے۔ جمہوریت کو زمیں بوس کرنے کا عظیم خفیہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے تو پھرپاکستانیو تیار رہنا۔ تیار رہنا ،خادم رضوی کو عنان حکومت سونپنے کے لیے۔ تیار رہنا ، طاہر القادری کو خارجہ امور کا نگہبان بنانے کے لیے ۔ تیار رہنا ، جامعہ حقانیہ کا اس ملک کا دارلخلافہ بنانے کے لیے۔ تیار رہنا، اس ملک کا نقشہ عراق اور افغانستان جیسا دیکھنے کے لیئے۔ تیار رہنا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :