شوگرملزمافیا ،چیختے چلاتے کاشتکار اور عوام الناس

ہفتہ 6 جنوری 2018

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

ناہی اس موسم میں سیلاب یا طوفان آتا ہے اور ناہی کسی قسم کی لینڈ سلائیڈنگ ہوتی ہے مگر موسم سرما کے تین مہینوں میں یہاں سفر کرنا خطرناک اور بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ ہنگامی صورتحال میں ممکن نہیں ہے کہ یہاں سے ایمبولنس یا ہنگامی مدد کی گاڑیاں گزر سکیں۔ معمول کا سفر کئی اضافی گھنٹوں کی صعوبت میں بدل جانا معمول کی بات ہے۔ سڑکیں ٹریفک کے اژدھام سے ہانپنا شروع کردیتی ہیں۔

بہاولپور سے اندرون سندھ تک کاعلاقہ ’گنے کی پیداوار‘اورغیرمعمولی تعداد میں شوگرملزکے قیام سے یہاں متضاد کیفیات پیدا ہوچکی ہیں۔ایک طرف گنے کے کاشتکاروں پر ہُن برسنے لگ گیاہے اور عالمی کساد بازاری اور سرمایہ دارانہ نظام کے گہرے زوال کے باوجود یہاں پر بڑے چھوٹے زمینداروں کی آمدن میں قابل رشک اضافہ ہوچکاہے۔

(جاری ہے)

رہائشی سوسائٹیاں اپنے اعلان کے چند گھنٹوں میں ہی بک جاتی ہیں۔

دولت کی ریل پیل کی وجہ سے بازاروں میں رونقیں ہیں اورسڑکوں پر چمکتی دمکتی گاڑیوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔چیختے چلاتے، مسائل کارونا روتے اور نرخوں کی کمی پر دھاڑتے زمیندار ہر سال نئے ماڈل کی گاڑیاں خریدتے اوردیہی حویلیوں میں جدت پر مبنی آرائیش وسہولیات ،فارم ہاؤس بنانے کے بعد شہر والے گھر کی تعمیر کرتے اور پھر کسی بچے یابھائی کو شہر میں نیا کاروبار شروع کراتے نظر آتے ہیں۔

رونا چلانا اور نرخوں کو بڑھانے کامطالبہ کرنا ان کاشتکاروں کی اب عادت بن چکی ہے۔کسانوں کی نام نہاد تنظیمیں کسان مسئلہ کے ادراک سے عاری اور اپنا رونا پیٹنا صرف نرخوں کے اضافے تک ہی محدود کرچکی ہیں۔بڑی چالاکی سے زرعی مزدور،زمینوں اور جاگیروں کی تقسیم ،بے زمین ہاری اور غیر حاضر مالکان کے قضیے کوبے معنی شوروغوغا میں بھلادیا گیا ہے۔

مگرگنے کی پیدوار اور گنے کو چینی کی شکل دینے والی شوگر ملز نے یہاں پر بہت سے مسائل بھی پیدا کئے ہیں اور ان مسائل سے صرف گنے کی پیداواروالے علاقے ہی مشکلات کا شکار نہیں ہیں بلکہ یہ مسائل پورے پاکستان کی ٹریفک تک متاثر کرنے کا باعث بن چکے ہیں۔سب سے بڑا مسئلہ گنے کی جنس کو ملوں تک پہنچانے کیلئے درکار متوازی شاہراہوں کاہے۔اس مسئلے کو بھانپتے ہوئے چاردھائیاں پہلے قانون بنایا گیا تھا کہ ہر سال گنے کی ملیں’ شوگر سیس‘ کے نام سے ایک فنڈ جمع کرانے کی پابند ہیں۔

یہ فنڈ کروڑوں روپے سے تجاوز کرجاتا ہے۔ ضلع رحیمیارخاں میں 8شوگرملز ہونے کے باعث ’شوگرسیس‘ کی رقم بلامبالغہ اربوں روپے میں ہونا چاہئے۔مگریہ رقم کہاں جاتی ہے ؟نئی سڑکیں توکیابننا تھیں، شوگرملزکی طرف جانے والی ذیلی اور مین شاہراہیں چغلی کھاتی ہیں کہ ان پر عرصہ دراز سے مرمت کی مد میں ایک روپیہ نہیں لگایا گیا۔اسکے برعکس پچھلے چند سالوں سے شوگرملز کی طرف جانے والی وہ سڑکیں جو کہ صوبائی یا ضلعی حکومتوں نے ان شوگرملز کے بننے سے سالہا سال پہلے شہریوں کی آمد ورفت کے لئے بنائی گئیں تھیں وہ ٹوٹ پھوٹ کر کھنڈرات میں بدل چکی ہیں۔

یہ بات ہرطرف عام ہے کہ جنوبی پنجاب کے اربوں روپے کے شوگرسیس کے فنڈز وزیر اعلی پنجاب کی صوابدید پر لاہور میں انکے ’شوشا‘ والے منصوبوں پر خرچ ہورہے ہیں ،اس لئے ناصرف شوگرسیس کے اربوں روپے کے فنڈز بلکہ جنوبی پنجاب کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے مختص بجٹ بھی وزیر اعلی پنجاب اپنے پسندیدہ منصوبوں پر ہی خرچ کررہے ہیں۔پنجاب حکومت نے ’سیاسی مقاصد‘کے تحت ہر ضلع میں کم چوڑائی والی کارپٹ سڑکیں بنوائی بھی ہیں ،مگر ایک تو یہ آمنے سامنے سے آنے والی ٹریفک کی ضرورت پوری کرنے سے عاری ہیں اور پھر یہ شوگرملزکے گنے کی نقل وحمل کے حوالے سے بھی کسی طور مناسبت نہیں رکھتیں۔

ان سڑکوں کوبنے ابھی چند ماہ ہوئے ہیں مگر زیادہ تر ناقص’ کمپیکشن ‘اور اطرف میں ’بیڈ ‘ نا بنانے کی وجہ سے بیٹھنا شروع ہوگئی ہیں،گنے کے سیزن کے بعد یہ سفر کے قابل بھی نہیں رہیں گی۔ جنوبی پنجاب کے ضلع رحیمیارخاں میں دیہی علاقوں سے شہراپنی ڈیوٹی یا روزانہ وار ذمہ داریوں کے سلسلے میں جانا اور واپس گھروں کوآنا‘ ان دنوں بہت ہی دشوار بلکہ جان لیوا ہوچکاہے۔

یہ علاقہ ہیپاٹائٹیس کی وجہ سے زیادہ ہلاکتوں کے لئے مشہور ہے مگر ان سالوں میں زیادہ ہلاکتیں‘گنے کی باربرداری کی ٹرالیوں کی وجہ سے ہورہی ہیں۔کم وبیش ہرروز جان لیوا حادثات ہورہے ہیں اور دوسری طرف سڑکوں پر ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے کوئی بھی وقت پر منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔ دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ قومی شاہراہ کے قریب قریب نئی بننے والی شوگرملزکی وجہ سے ’کے ۔

ایل ۔پی روڈ ‘ کاکئی سوکلومیٹر حصہ اب قومی شاہراہ اور پاکستان بھر کی روڈ ٹرانسپورٹ کی گزرگاہ کی بجائے شوگرملز کا ”شوگرکین یارڈ“بن چکاہے۔یہی حالت اندرون سندھ کی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس اتنے بڑے کرائسیزپر کنٹرول کرنے کیلئے عملی اقدام تو دور کی بات،اس مسئلے کے مضمرات پر کسی بھی سرکاری یاغیر سرکاری فورم تک بات نہیں ہورہی۔

عوامی سطح پر ان سفری مشکلات اور جان لیوا حادثات کے بڑھنے سے بے چینی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اصلاح احوال کیلئے حکومت اور شوگرملز مالکان کو آگے بڑھنا پڑے گا۔ عوامی مطالبہ ہے کہ 1۔گنے کی ترسیل کیلئے راستے علیحدہ کئے جائیں۔2۔قومی شاہراہ پر گنا بردارٹریلرز کاداخلہ بالکل ممنوع قراردیا جائے۔3۔گنا بردارٹریلرز کا سائیز متعین کیا جائے اور باڈی سے باہر گنے کو لوڈ کرنے پر ٹریلرز کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جائے۔

4۔آمنے سامنے آنے والی گنے کی ٹرالیوں کا تدارک کرنے کیلئے محکمہ مال کی معاونت سے شوگرملز میں گنے کی فراہمی کیلئے علاقے مختص کئے جائیں۔5۔گنے کی ترسیل کے راستے میں عائد رکاوٹیں دور کی جائیں تاکہ کھیت سے فیکٹری تک آنے والے گنے کے ٹرالرز بلارکاوٹ فیکٹری میں داخل ہوسکیں اور سڑکوں پر رش ختم ہو۔6۔گنے کے ٹرالرز کا شہروں کے اندرونی راستوں کااستعمال بالکل ممنوع قراردیاجائے7۔

خان پور شہر ،صادق آباد سے بہاولپورجانے والے دونوں راستوں میں آنے والے شہروں اورقصبوں کے گرد’رنگ روڈز‘ تعمیر کرکے گنے کی ٹرالرز کوشہر میں داخل ہونے سے روکا جائے۔8۔حکومت گنے کی تمام ملوں سے کرشنگ کاٹارگٹ قبل گنے کی کاشت سے قبل حاصل کرکے گنے کی کاشت کی حدود کاتعین کرے تاکہ شوگرملزمالکان کی بلیک میلنگ کو روکا جاسکے اور ضرورت سے زائد گنے کی کاشت کو روکا جاسکے۔

اسی طرح کرشنگ سیزن کے آغاز اور اختتام کی تواریخ مشتہر کی جائیں اور اسکی خلاف ورزی کرنے والی شوگرملز سے جرمانے لیکر کاشت کاروں کودئے جائیں۔جہانگیر ترین کے متعارف کرائے گئے جالی دار ٹرالرز کو گنے کی نقل وحرکت کیلئے استعمال میں لانے اورگنے کو کھیت میں ہی کاٹ کر ٹکڑوں کی شکل میں ٹرالر پر لوڈ کرنے سے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ اس ضمن میں حکومت گنے کی ملز کوپابند کرے کہ وہ گنے کی خریداری کھیت سے کرکے باربرداری منظورشدہ سائیز اور ڈیزائن والے ٹرالرز کے ذریعے کرائے۔

حکومت کا اگر کوئی’ فعال ‘منصوبہ بندی والا محکمہ یا وزارت ہے تواسکوجائیزہ لینا چاہئے کہ گنے کی فصل اور چینی کی تیاری ملک وقوم کی معیشت کیلئے کس حد تک سود مند ہے۔ جن علاقوں پر ان سالوں میں گنے کی فصل کاشت ہورہی ہے ،یہ زرعی زمینیں نقد آور فصل کپاس کی پیداوار کیلئے دنیا بھر میں مشہور تھیں۔قدرتی طور پر مناسب آب وہوا اور درکار زمین کی وجہ سے اسرائیل،مصر میں پیدا ہونے والی کاٹن کے معیار کی کپاس پاکستان میں ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر پیدا ہوتی تھی۔

اس فصل سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کمانے کاموقع ملتاتھا۔ مگر اب گنے کی کاشت سے مقامی کاشتکار کو ”پاکستانی کرنسی“(جو حکومت ضرورت کے مطابق پرنٹنگ پریس پر دھڑا دھڑ چھاپے جارہی ہے )ضرور مل جاتی ہے ،جب کہ چینی کی پیداوار اور پاکستان میں ہی کھپت کسی طور بھی دانشمندانہ معاملہ نہیں ہے۔چینی کے نرخ بھی کسی طور لاگت پیداور سے میل نہیں کھاتے۔

گنے کی قیمت اور فیکٹری کے تمام اخراجات‘چینی کی تیاری کے بعد فاضل اشیاء یعنی گنے کے چورا ،میل، شیرا وغیرہ بیچ کر پورے ہوجاتے ہیں اور فیکٹری مالکان کو چینی تقریباََ ’مفت ‘ میں ملتی ہے۔ چینی کی قیمت بڑھنے کی وجہ سیاسی پارٹیوں کے قائد کہلانے والا شوگرملز مافیا ہے جو اقتدار میں ہونے کی وجہ سے چینی کی بے لگام قیمت اور اسکے اضافوں کوبرقراررکھنے میں اپنے تمام اختیارات کااستعمال کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر طرف خسارے میں عوام ہی ہیں۔اس گھنبیر صورتحال کا اگر اداراک کرکے تدارک نا کیا گیا تو نقصانات کامیزان بڑھتا ہی چلا جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :