مدرسہ ڈسکورس کیا ہے !

اتوار 7 جنوری 2018

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ دونوں پی ایچ ڈی کی اسٹوڈنٹ تھیں اور امریکہ کی کسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھیں ۔ ان کا آبائی تعلق لاہور سے تھا اور ا ن دنوں یہ لاہور آئی ہوئی تھیں ، ان میں سے ایک میرے دوست ناصر باجوہ کی صاحبزادی تھیں ۔ ناصر باجوہ پاکستان میں انٹر نیشنل میڈیا کا بڑا نام ہیں ، یہ وائس آف جرمنی سے وابستہ ہیں اور کئی پاکستانی چینلز میں بھی کام کر رہے ہیں ۔

ایک دن ان کا فون آیا کہ میری بیٹی اور اس کی چند دوستوں کا ایک گروپ ہے ،یہ سب سائنس کی سٹوڈنٹس ہیں ، ان کے ذہن میں اسلام کے بارے میں چند سوالات ہیں اور وہ اپنے سوالات کلیئر کرنا چاہتی ہیں ۔ اس سلسلے میں انہیں کسی اسکالر کی تلاش تھی ، مولانا طارق جمیل صاحب سے رابطہ کیا گیا تو وہ ملک سے باہر تھے ، ایک دو اور مولانا حضرات سے بات ہوئی تو انہوں نے معذرت کر لی ، بلآخر لاہور کی ایک یونیورسٹی کے اسلامیات کے پروفیسر سے بات ہو گئی ، وہ گھر تشریف لائے ، اسٹوڈنٹس نے سوالا ت شروع کر دیئے ، یہ پی ایچ ڈی لیول کی اسٹوڈنٹ تھیں اس سے آپ ان کے سوالات کا اندازہ کر سکتے ہیں ، ان کے سوالات کچھ اس طرح کے تھے کہ ہم خدا کو کیوں مانیں جبکہ جدید سائنس یہ بات ثابت کر چکی ہے کہ کائنات کا نظام چند متعین قوانین کے تحت چل رہا اور اس میں خدا کا کوئی کر دار نہیں ۔

(جاری ہے)

اگر مذہب کو ماننا ہی ہے تو دنیا میں مختلف مذاہب کیوں ہیں ، ان سب مذاہب کو ملا کر ایک انٹر نیشنل مذہب کیوں تشکیل نہیں دیا جا سکتا، ہمیں عبادت کا حکم کیوں دیا گیا ہے ، ہمارے نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے سے اللہ کو کیا فائدہ ہوتا ہے اور اگر ہم نہیں کرتے تو اللہ کو کیا نقصان ہے ، اگر اللہ رحمان اور رحیم ہے تو اپنے بندوں کو جہنم میں کیوں ڈالے گا ،اللہ نے قرآن میں زمین و آسمان کی تخلیق اور کائنات کے بارے میں جو حقائق بیان کیے ہیں جدید سائنس نے انہیں غلط ثابت کر دیا ہے ایسا کیوں کیا ؟ پروفیسر صاحب نے اپنے علم اور فہم کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے اور محفل ختم ہو گئی ۔


یہ ایک مثال ہے ورنہ ہماری نوجوان نسل میں سے اکثر اس طرح کے سوالات سے دو چار ہیں اور ان سوالات نے ان کے ذہنوں میں طوفان برپا کر رکھا ہے ، یہ سوالات کیوں پیدا ہو رہے ہیں اس کی وجہ بڑی دلچسپ ہے ۔ دنیا کی گزشتہ تین چار سو سالہ تاریخ میں سینکڑوں نئے علوم و فنون متعارف ہوئے اور یہ سارے علوم مغرب نے متعارف کروائے ہیں، آج بھی مغربی یونیورسٹیوں میں پانچ پانچ سو ماسٹر ز ڈگری پروگرام چل رہے ہیں جبکہ ہمارے یہاں کوئی یونیورسٹی بمشکل ہی سو پروگرام آفر کر رہی ہو گی ۔

یہ سارے علوم وفنون نیچرل سائنسز اور سوشل سائنسز پر مشتمل ہیں اور یہ مغرب کے راستے سے ہم تک پہنچے ہیں ۔ مغربی فکر کا خدا ،کائنات ، سماج اور انسان کے بارے میں اپنا ایک نقطہ ء نظر ہے اور یہ سارے علوم اسی خاص نقطہ ء نظر اور تناظر میں پروان چڑھے ہیں ، اب ہمارے نوجوان جب یہ علوم وفنون یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں تو اس کا ٹکراوٴ ان کے ایمان اور عقیدے سے ہوتا ہے اور یہیں سے سوالات جنم لیتے ہیں ، اب سوالات تو اٹھ رہے ہیں لیکن انہیں رسپانڈ نہیں کیا جا رہا اوراس کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے اس کا شاید ہمیں ابھی احساس نہیں ہو پا رہا۔


یہ سوالات ماضی میں بھی تھے لیکن تب صورتحال مختلف تھی ، ایک تو ان سوالات کی نوعیت مختلف تھی دوسرا انہیں رسپانڈ کرنے کے لیے پورا علم الکلام موجود تھا ، علم الکلام کیا تھا اور یہ کیسے وجود میں آیا یہ حقیقت بھی دلچسپ ہے ،آسان لفظوں میں آپ علم الکلام کو فلسفے کی اسلامی شاخ کا نام دے سکتے ہیں ۔ ابتدائی صدیوں میں دین اسلام جب جزیرہ عرب سے نکل کر عجم میں پھیلا تو اس کا سامنا وہاں کے مقامی مذاہب اور فلسفے سے ہوا ، یہ دور یونانی فلسفے کے عروج کا دور تھا ،ایک طرف یونانی فلسفہ اور دوسری طرف ہندو متھا لوجی نے اسلام کے سامنے خدا، کائنات ،سماج اور انسان کے بارے میں بہت سارے سوالات کھڑے کر دیئے تھے ۔

اس کے ساتھ مسلمانوں کے اندر بھی کچھ ایسے گروہ پیدا ہو گئے تھے جنہوں نے کائنات ، خدا ، قرآن ، معجزات ، بندے اور خدا کے تعلق اور مرتکب کبیرہ کے بارے میں بحث کا آغاز کر دیا تھا ، یہ لوگ اہل سنت سے ہٹ کر ایک الگ روش پر چل نکلے اور معتزلہ کہلائے ، اسلامی علمی روایت میں سب سے پہلے انہی لوگوں نے عقلیت کا نعرہ لگایا اور عقلی بنیادوں پر احکام و مسائل کی تشریح کرنے کی کوشش کی ۔

ان سے پہلے فقہی مسائل میں بحث و مباحثہ ہوتا تھا لیکن عقائد پر بات نہیں ہوتی تھی انہوں نے عقائد پر بھی بات شروع کر دی اور یوں اہل سنت کو یونانی فلسفے ، ہندو متھالوجی کے ساتھ معتزلہ کی کلامی مباحث کا بھی جواب دینا پڑا ۔ ان سارے چیلنجز اور سوالات کو رسپانڈ کرنے کے لیے جو علمی روایت قائم ہوئی اسے علم الکلام کا نام دیا گیا اور اس فن کے ماہرین متکلمین کہلائے ۔

اہل سنت کی طرف سے اشاعرہ اور ماتریدیہ نے اس میدان کو سنبھالا اور اپنے وقت اور زمانے کے سوالات اور چیلنجز کو بہترین طریقے سے رسپانڈ کیا ۔
گزشتہ تین چار صدیوں سے مسلمانوں پر جو علمی و سیاسی زوال آیا اس کے اثرات علم الکلام پر بھی پڑے ۔ اگرچہ برصغیر ، ایران اور مصر میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے طور پر علم الکلام کو زندہ رکھنے کی کوشش کی اور اپنے دور کے سوالات کا جواب دیا لیکن یہ انفراد ی کوششیں ذیادہ دیر تک نہ چل سکیں۔

اب صورتحال یہ ہے کہ جدید سائنس اور فلسفے نے سوالات کی نوعیت بدل ڈالی ہے ،ا کیسویں صدی میں جدید سائنس اپنی معراج پر کھڑی ہے ، انسانی فہم شعور ارتقاء کی منازل طے کرتا ہوا بہت آگے جا چکا ہے ، جدید سائنس نے قدیم متھالوجی اور ایمان و عقیدے کے باب میں بہت سارے نئے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں اور سوشل اور نیچرل سائنسز کے دائرے میں سوالات کا ایک طوفان ہے جو مسلسل بلند ہوتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے اور نوجوان نسل اس طوفان میں غرق ہو رہی ہے لیکن اسے کہیں سے ریلیف نہیں مل رہا ۔

اس وقت جو سوالات پیدا ہو رہے ہیں وہ دو طرح کے ہیں، ایک ، وہ سوالات جو غیر مسلموں کی طرف سے سامنے آ رہے ہیں ، اس میں مستشرقین سے لے کر جدید سائنس اور جدید مغربی فکر و فلسفہ شامل ہیں ، دو ، وہ سوالات جو خود مسلمانوں کے اپنے ذہنوں میں پرورش پا رہے ہیں اور ان کے ذہنوں میں الجھاوٴ اور وسوے پیدا کر رہے ہیں ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ایک سائنس کا اسٹوڈنٹ یا ایک عام مسلمان جب ان سوالا ت کو لے کر اپنے محلے کی مسجدیا امام کے پاس جاتا ہے تو اسی تسلی بخش جواب نہیں ملتا اور اس کی تشنگی بر قرار رہتی ہے ۔

ہمارے علماء ،قراء حضرات اور آئمہ مساجد کے ایمان و تقوی میں کو ئی شک نہیں ، ان کی علمی پختگی ، دینی تصلب اور خشیت الہٰی میں کسی کو شبہ نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان سوالات کا جواب نہیں دے پا رہے۔ ہمارے مدارس میں آج جو فلسفہ اور علم الکلام پڑھایا جا رہا ہے وہ وہی ہے جو قدیم یونانی فلسفے اور معتزلہ کے سوالات کو رسپانڈ کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا، بلاشبہ یہ اپنے دور کا بہترین علم الکلام تھا لیکن آج اس سے کام نہیں چلے گا ۔

ہمیںآ گے بڑھ کر جدید سائنس، انسانی شعور کے ارتقاء، نئے علوم وفنون اور جدید مغربی فکر و فلسفے کو مد نظر رکھ کرنئی تھیا لوجی یا نیا علم الکلام ڈویلپ کرنا پڑے گا اور مدرسہ ڈسکورس یہی کام کر رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ؟ اس کے لیے ہمارے پاس صرف دو آپشن ہیں ، وہ دو آپشن کیا ہیں وہ میں اگلے کالم میں ذکر کروں گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :