مریم نواز کا سوشل میڈیا سیل

اتوار 31 دسمبر 2017

Ammar Masood

عمار مسعود

گذشتہ دنوں لاہور میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سوشل میڈیا کا کنونشن ہوا۔ ن لیگ کے اس سوشل میڈیا سیل کا آغاز چند سال پہلے چندہی لوگوں کے ساتھ مریم نواز نے کیا تھا۔ کنوشن میں لوگوں کی تعداد چار سے پانچ ہزار تھی۔ نوجوان جذبے سے بھرپور تھے۔ اپنے لیڈروں کے اسقبال کے لیئے پر جوش نعرے لگا رہے تھے۔ مریم نواز نے اپنے خطاب میں ان سب نوجوانوں کو نواز شریف کا کارکن بتایا۔

سابق وزیر اعظم نے جہاں اپنی نااہلی کی وجوہات ایک دفعہ پھر بتائیں وہاں نوجوانوں کو جمہوریت کا سبق بھی پڑھایا۔ووٹ کی اہمیت کا درس بھی دیا۔ عوام کی حاکمیت کے بارے میں بھی بتایا۔ انہوں نے یہ بھی کہا عوام کے نمائندوں کو اس ملک میں حکومت نہیں کرنے دی جاتی۔ جس کے اسباب انکی ماضی کی تقریروں میں بھی بیان کیئے گئے۔

(جاری ہے)

پرجوش نوجوانوں نے مریم نواز کے اس جملے پر زبردست تالیاں بجائیں کہ سوشل میڈیا اب ایک فورس بن گیا ہے جس سے مخالفین خوفزدہ ہیں۔


سوشل میڈیا کے سیاسی استعمال کی تاریخ اس ملک میں اتنی پرانی نہیں ہے۔ سب سے پہلے ہم نے جنرل مشرف کے سوشل میڈیا سیل کا سنا۔ جس کے بارے میں جنرل صاحب نے خود کئی دفعہ توصیفی کلمات بھی کہے۔ اس کے لیئے سنا ہے انگلینڈ سے ایک ماہرین کے ٹیم بھی بلائی گئی تھی۔ شائد اسی ٹیم کی شبانہ روش محنت کی وجہ سے جنرل صاحب کو چند دنوں میں لاکھوں لوگوں نے فالو کیا۔

اسی ٹیم کی محنت کی بدولت ان کے فرمودات ری ٹوئیٹ بھی ہوتے رہے اور فیس بک پر انکے ارشادات کو ہزاروں لائیکس بھی ملتے رہے۔لیکن پھر جب حالات نے پلٹا کھایا تو نہ الکٹرانک میڈیا جنرل صاحب کے ساتھ رہا نہ ہی سوشل میڈیا جنرل صاحب کے دلیرانہ بیانات کو سہار سکا۔ وہ لاکھوں فالورز کبھی بھی جمع نہیں ہو سکے۔ لاکھوں تو چھوڑیئے چند ہزار کا مجع بھی جنرل صاحب کی تائید میں منظر عام پر آنے سے قاصر رہا۔


تحریک انصاف نے سوشل میڈیا کا زبردست استعمال کیا۔ 2013 کے انتخابات میں جو کامیابی تحریک انصاف نے حاصل کی اس میں بڑا حصہ سوشل میڈیا ٹیم کا تھا۔ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم مختلف حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ جہانگیر ترین کے ساتھ کام کرنے والے اور ہیں، چوہدری سرور کا اپنا گروپ ہے، سنٹرل سیکرٹیریٹ اپنے کام میں مصروف رہتا ہے۔ دھرنے سے لے کر خان صاحب کے جلسوں کی لمحہ لمحہ کوریج تک، اب تحریک انصاف کی ہر خبر عوام تک ،سوشل میڈیا کے توسط سے ہی پہنچتی ہے۔

یہ سوشل میڈیا سیل بہت منظم ہیں اور جدید طریقوں سے کام کرتے ہیں۔فوٹو شاپ کے بڑے بڑے ماہرین ان سوشل میڈیا گروپس کا حصہ ہیں۔ بیرون ملک بے شمار پاکستانی رضاکارانہ طور پر اس میں کام کر رہے ہیں۔ عموما اس سوشل میڈیا سے لوگوں کو جو شکایت ہے وہ گالی گلوچ کی ہے۔سب ہی اس سے نالاں ہیں۔ عمران خان کے بارے میں رتی بھر تنقید کا جواب بھرپور گالیوں سے دیا جاتا ہے۔

کارٹون بنا بنا کر سیاسی شخصیات کا تماشا اڑایا جاتا ہے۔۔ اس سوشل میڈیا گروپ سے کئی دفعہ فوٹو شاپ کے معاملے میں فاش غلطیاں بھی ہوئیں۔ ایسا بھی ہوا کہ لاہور کے کسی پل کی تصویر فوٹو شاپ کر کے پشاور میں لگا دی گئی۔ تبدیلی کے ثبوت کے طور پر ایسی سڑکوں کوصاف کرنے کا دعوی بھی کیا گیا جن میں صفائی تو ہو گئی مگر راہ گیر برسوں پرانی جگہ پر قائم رہے۔

جلسوں میں ایسا ہجوم بھی دکھایا گیا جس نے کسی اور جماعت کے جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے ۔اس کے باوجود اس بات کو ماننا چاہیے کہ تحریک انصاف کو بہت بڑا سہارا ان کے سوشل میڈیا کا ہے اور اس طرز کے میڈیا کو سیاسی قوت میں بدلنے کا سہرا تحریک انصاف کو جاتا ہے۔
مسلم لیگ ن کا سوشل میڈیا سیل مریم نواز کی ذاتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس سے پہلے پنجاب گورنمنٹ کا ایک سوشل میڈیا سیل چل رہا تھا جو
آج بھی قائم ہے مگر اس سیل کو سیاسی اور جمہوری قوت بالکل نہیں کہا جا سکتا تھا۔

موجودہ سوشل میڈیا سیل کا آغاز چند انتہائی پڑھے لکھے ضاکاروں کے ساتھ ہوا ۔ پہلے دھرنے میں اس نے اچھا کام کیا مگر اس وقت اس کی قوت کم تھی اس لیئے زیادہ پر اثر ثابت نہ ہو سکا۔شنید یہ ہے کہ اب بھی اس کا سیل کا بیشترکام رضاکارانہ طور پر ہورہا ہے لیکن بقول مریم نواز اب یہ سوشل میڈیا فورس شہر شہر ، گاوں گاوں اور گلی گلی پھیل گئی ہے۔مسلم لیگ ن کو عموما ایک قدامت پسند جماعت سمجھا جاتا ہے اس طرح کی ماڈرن چیز ان کے مزاج سے لاگا نہیں کھاتی تھی ۔

لیکن مریم نواز نے تن تنہا اس چھوٹی سے قوت کو بہت بڑا کر دیا ہے۔ اس سوشل میڈیا میں گالی گلوچ بہت کم ہوتی ہے۔ بحث کی طرف لوگوں کو مائل کیا جاتا ہے ۔ جمہوریت کے حق میں دلیلیں دی جاتی ہیں۔
مسلم لیگ ن کا سوشل میڈیا سیل باقی تمام جماعتوں سے مختلف ہے۔ اس لیئے کہ باقی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل کا مقصد اپنے اپنے لیڈروں کی توصیف، کارکردگی اور کارناموں کی تشہیر ہوتی ہے۔

لیکن مریم نواز کے سوشل میڈیا سیل میں بات صرف تعریف تک محدود نہیں رہتی۔ یہاں جمہوریت کا سبق بھی پڑھایا جاتا ہے۔ مقدس گایوں پر بات کی جاتی ہے۔ اداروں کی آئینی حدود پر بحث ہوتی ہے۔ جو کہ اس معاشرے میں اچھنبے کی بات ہے۔ ایسے موضوعات جن پر بات کرنے سے الیکٹرانک میڈیا بھی خوفزدہ ہے اور پرنٹ میڈیا بھی حتی لامکان اجتناب برتتا ہے۔ ان موضوعات پر بات کرنے کا سارا کریڈٹ اس سوشل میڈیا اور مریم نواز کو جاتا ہے۔

یہ سوشل میڈیا سیل اس لیئے بھی مختلف ہے کہ یہ واحد سوشل میڈیا سیل ہے کہ جس کے لوگوں کو ہراساں کیا گیا۔ کچھ لوگوں کو نامعلوم اداروں نے اٹھا بھی لیا۔ کچھ کی جان بخشی ہو گئی کچھ اب بھی جان بچاتے پھر رہے ہیں۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ خوفزدہ وہی کرتا ہے جو خود خوفزدہ ہوتا ہے۔ اس سوشل میڈیا کے توسط سے مریم نواز اب وہ شخصیت بن گئی ہیں جن کو سیاست سے باہر رکھنے کے لیئے بے انتہا کوششیں ہو رہی ہیں۔

ڈان لیکس کا ذمہ بھی ان پر لگا۔ اس سوشل میڈیا سیل کے بارے میں اپوزیشن بھی اکثر نالاں نظر آتی ہے۔ اس سوشل میڈیا سیل کے بارے میں یہ تک کہا گیا کہ میاں صاحب کا اس حال تک پہنچانے میں اس میڈیا سیل کا ہاتھ ہے۔ میرا تجزیہ اس سے مختلف ہے ۔ مجھے لگتا ہے میاں صاحب کو اس صورت حال سے نکالنے میں یہی سوشل میڈیا سیل پلیٹ فارم بنے گا۔ جہاں بات کہنے کی آذادی ہو وہیں تو جمہوریت کا پودا لگے گا۔


تحریک انصاف ہو یا ن لیگ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ نوجوان سیاسی جدوجہد کا حصہ بن رہے ہیں۔ انکو اظہار کے لیئے پلیٹ فارم مل رہا۔ ان کو جمہوریت کا سبق مل رہا ہے۔ ان کے سامنے ووٹ کی حرمت کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ عوام کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کے بیانات جاری ہو رہے ہیں۔ یاد رکھنے کی بات صرف اتنی ہے کہ سوشل میڈیا بے مہار گھوڑا ہے۔

ایک سوچ ایک نظریئے پر لوگوں کو اکھٹا تو کیا جا سکتا ہے لیکن پھر اس سوچ سے فرار ممکن نہیں ہے۔۔ جب نوجوانوں کے سروں میں جمہوریت کا سودا سما جائے تو پھر وہ سوال کرنے کے لائق ہوتے ہیں۔اور جب سوال کرنے کی صلاحیت میسر ہو تو پھر سوال کسی سے بھی ہو سکتا ہے۔ آج اگرجمہوریت کے درس دیئے جا رہے ہیں تو کل کسی غیر جمہوری اقدام پر تنقید بھی ہو سکتی ہے ۔۔ آج جو اداروں کو آئینی حدود میں رہنے کی تلقین ہو رہی ہے تو کل اداروں کے ساتھ مصالحت کرنے والے اس جماعت کے نامزد امیداور نہیں ہو سکتے۔مزاحمت کا سبق دے کر مصالحت نہیں کی جا سکتی۔ جمہوریت دو دھاری تلوار ہے ۔ اس دو دھاری تلوار پر چلنا مشکل ہے۔ جمہوریت کا سبق پڑھانا آسان ہے جمہوری سوچ سیاسی جماعتوں میں لانا مشکل کام ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :