باباریمتا

اتوار 31 دسمبر 2017

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

رانی بی بی: صاحب جی !صاحب جی اللہ جانتا ہے میں نے اپنے بندے کو نہیں مارا۔
صاحب جی :تو پھر کس نے مارا تمھارے بندے کو ؟
رانی بی بی:صاحب جی یہ توتھانے والے ہی پتہ چلا سکتے ہے کہ کس نے مارا اس کو ۔
صاحب جی :تھانے والے تو کہہ رہے کہ تم نے ہی مارا اس کو ،تمہاری ماں ،باپ اور بھائی بھی شامل تھے تمہارے ساتھ ۔
رانی بی بی:صاحب جی ،میرے تو وہ سر کا سائیں تھا ،مجھے اپنے دل کی رانی کہتا تھا،،میرے ماں پیو نے تو ریجھوں سے اس کے ساتھ میرا ویاہ کیا تھا،میں اسے کیسے مار سکتی ہوں ؟۔


صاحب جی :یہاں سب یہی کہتے ہیں کہ ہم نے کچھ نہیں کیا۔ جیل جاوٴ گی تو لگ پتہ جائے گا۔
رانی بی بی:صاحب جی ،رحم کریں ، ہم نے اس کو نہیں مارا ، ہم بے گناہ ہیں ۔ ہمارے خلاف کوئی ثبوت بھی نہیں کہ میں نے اپنے ماں پیو سے مل کر اپنے بندے کومارا۔

(جاری ہے)

میرے بھائی کی تو اس کی ساتھ گوڑی یاری تھی ، وہ اس کو کیوں مارتا۔
صاحب جی :اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ تم نے اس کو نہیں مارا؟ہے کوئی ثبوت ؟ لے جاوٴ ان کو اور جیل میں ڈال دو۔


پندرہ سالہ رانی بی بی ،ا س کا جوان بھائی اور بوڑھا باپ جیل گئے تو کچھ دن تک تو سمجھ ہی نہ آئی کہ یہ آسمان کیسے ٹوٹا۔ ایک دن کسی بتایا بابا ریمتاغریبوں کا بڑا حامی ہے ،وہ بے گناہ غریبوں کو انصاف دیتا ہے ، تم اس سے فریاد کرو۔ رانی بی بی نے ایک رات پہرے پر موجود پولیس والے سے بات کی ۔ اس نے سر سے لے کر پاوٴں تک رانی بی بی کا ایکسرے کیا اور ایک مکروہ مسکراہٹ سے گویا ہوا۔

بابے ریمتے کے پاس اپیل کرنے کی فیس چار لال نوٹ ہیں ،ہیں تیرے پاس؟
رانی بی بی :ہم غریب لوگ ہیں روز کی روز کماتے ہیں تو کھاتے ہیں ،عدالتوں کے رولے میں گھر کے بستر بھی بک گئے ، لال نوٹ کہاں سے لاوٴں ؟
پہرے دار:فیس کے بغیر تو بابے ریمتے تک فریاد نہیں پہنچ سکتی ۔
رانی بی بی کے دل میں امید کا جو دیا جلاتھا وہ ایک دم بجھ گیا ،جیسے اس پر کسی نے ٹھنڈے پانی کا گھڑا ڈال دیا ہو۔


اس کے باپ اور بھائی کو الگ جیل میں رکھا گیا تھا۔پولیس والے ایسے بولتے تھے جیسے انسان سے نہیں گلی کے آوارہ کتے کو گالی دے رہے ہوں ۔ اسے پتہ چلا اس کے بوڑھے باپ کو پولیس والے ٹھڈوں سے مارتے اور پھر کہتے کیا کمال دھی ہے اس کی ،بندہ ای کھاگئی ۔ میرا باپ اس تذلیل اور تحقیر کی تاب نہ لاسکا اور ایک دن جیل میں ہی مرگیا۔ ظالموں نے مجھے اس کی لاش پر بین بھی نہ کرنے دیا۔

ہمارے خاندان میں تو بیٹیاں باپ کی لاش پر بین نہ کریں تو برادری کہتی تھی ” ایس نمانڑے دی لاش اتے تے وین کرن آلا وی کوئی نئیں “
اس رات رانی بی بی بہت روئی ،آسمان کی طرف چہرہ اٹھایا اور گویا ہوئی ۔ سوہنے مالک مجھے کس گناہ کی کی سزا دی ؟کیسا امتحان ہے میرا؟کچھ تو بتا؟رانی بی بی کامن بجھ چکا تھا ،جیل میں ہی نوجوانی بھرپور جوانی میں بدل گئی تھی لیکن اس جوانی میں کوئی چلبلا پن نہ تھا۔

سانس چلتی تھی ،ہاتھ پیر حرکت کرتے تھے لیکن دل میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہ تھی ۔ جیل میں ا س کی کچھ دوستیاں بھی بن گئی تھیں جس کی وجہ سے دن کٹ جاتا تھا لیکن رات کاٹنی پڑتی تھی۔ رانی بی بی نے اس زندگی کو قبول کر لیا تھا۔ زمین والے تو سنتے نہیں تھے لیکن ایک دن آسمان والے کوجانے کیا سوجھی کہ کسی طرح بات بابے ریمتے تک پہنچ گئی ۔
بابے ریمتے نے پولیس کی بات سنی اور پھر میری فریاد ،وہ گہری سوچ میں پڑ گیا ۔

اسی دوران سفیدجوڑے پر کالی واسکٹ پہنے ایک جوان بابے ریمتے کے پاس آیا اور اسے بتایا کہ چائے تیار ہے ۔ بابا ریمتا اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا اور ہم اتنظار کرنے لگے ۔ یہ انتظار مگر ختم نہ ہوا ،کافی دیر بعد ایک بندے نے بتایا کہ بابا ریمتا ایک ضروری کام سے گیا ہے تم پھر کسی دن آنا۔ بابے ریمتے کے پاس آنا کون سا آسان تھا، پولیس کی مرضی ہوتی تو لے آتی نہیں تو اللہ مالک ۔

کافی دنوں بعد پتہ چلا کے بابے ریمتے نے بلایا ہے ۔ ہم بابے کے پاس پہنچے تو اسکی کرسی پر
کوئی اور بیٹھا تھا۔مجھ پتہ چلا یہ بھی بابا ریمتا ہے ،ہماری باری سب سے آخر میں آئی، کھڑے کھڑے میری ٹانگوں میں درد ہونے لگا تھا۔ اونچی چھت والے ٹھنڈے کمرے میں بڑی سی کرسی پر بیٹھے بابے ریمتے نے کہامیں تھک چکا ہوں تم لوگ پھر کسی دن آنا۔ میں اس بیگارسے تنگ آچکی تھی ،کبھی ٹھنڈی زمین پر بیٹھتی تو جیل کا پرانا کمبل یاد آتا ، کبھی جون جولائی کی دھوپ میں سارا دن جلنا پڑتا تو گاوٴں کے کھیت یاد آتے جہاں مشقت کے بعد نلکے کا پانی تو میسر آجاتا تھا۔

بس اسی طرح کئی سال گزر گئے ،کبھی پتہ چلتا بابا ریمتا سرکار کے کسی مقدمے میں مصروف ہے۔اس دوران بڑی بڑی گاڑیوں پر لشکتے سوٹوں والے بندے آتے جن کو بابے ریمتے کے کمرے میں کرسی بھی دی جاتی ، وہاں سے نکل کر وہ ٹی وی کیمروں کے سامنے جا کر تقریر کرتے، جس کو بہت سارے لوگ خاموشی سے سنتے تھے لیکن کوئی نہیں سنتا تھا تو ہماری فریاد ، لگتا تھا شہر میں کوئی آفت آنے والی جس کو روکنے کے لئے یہ سب بابے ریمتے کے پاس آتے ہیں اور بابار یمتا پوری کوشش کررہا ہے کہ شہر اس آفت سے بچ جائے ۔

میں سوچتی اس سے تو بہتر تھا بابے ریمتے کی آس بھی نہ ہوتی ۔
اونچی چھت والے کمرے میں پڑی بابے ریمتے کی کرسی پر کئی آئے اور کئی گئے ۔انیس سال گزرگئے میراماں جایا بوڑھا ہو چکا تھا۔ جیل کی سختیوں اور زندگی کے دکھوں نے اسے اندرسے توڑ دیا تھا ۔ ہم جب کبھی بابے ریمتے کے پاس جاتے تو ایک دوسرے کو دیکھ کر روتے بھی نہیں تھے ۔ شائد ایک دوسرے کو جھوٹی تسلیاں دیتے تھے ۔

مجھے اپنے باپ کی یاد آئی جس نے ایک بار ماں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے نتھلی بنوا کر دے گا لیکن اس غریب کے پاس اتنی دولت ہی جمع نہ ہوئی کہ وہ اپنا وعدہ وفا کرتا ۔ ایک دن ماں نے اسے کہا تھا ”تیرے لارے ،تے پرنے وی کوارے“۔بس ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہورہا تھا۔ پھر ایک دن بابے ریمتے کو پتہ نہیں کیا ہوا، اس نے جیل والوں کوکچھ کہا جو میرے پلے نہ پڑا پتہ چلا وہ انگریزی میں بات کر رہا تھا۔

لگتا تھا وہ جیل والوں پر غصے ہورہا ہے ،لیکن وہ چُپ کھڑے تھے ،مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا ہو رہا ہے ۔پھر اچانک مجھے کسی نے بتایا کہ بابے ریمتے نے تمھیں بے گناہ کر دیا ہے ۔ حیرت سے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔ ایک آواز آئی ”مبارک ہو،تمہیں باعزت بری کر دیا گیا ہے “اور پھر کچھ دن بعد ہمیں جیل سے چھوڑ دیا گیا۔ تین کپڑوں میں اپنے ماں جائے کے ساتھ میں جیل سے نکلی تو مانگ تانگ کر گاوٴں پہنچی ۔

کچھ دن تو گھر سے ہی نہ نکلی ، ماں جایا کہیں سے کچھ لا دیتا تو کھا کر سو جاتی ۔ کچھ دن بعد گھر سے نکلی ،گاوٴں کی حویلی میں چودھرائن کے پاس گئی تاکہ کوئی نوکری مل جائے تو پاپی پیٹ کو بھرنے کا سامان کروں ۔ اس نے بیزار ی سے کہا ابھی تو کوئی کام نہیں ، پھر کسی دن آنا میں دیکھوں گی۔ حویلی کا بڑا صحن گزرتے ہوئے میرے کانوں نے سنا ”کہتی ہے بابے ریمتے نے بے گناہ کر دی ہے ، جھوٹ بکتی ہے ،بے گناہ تھی تو انیس سال جیل کیوں کاٹی ؟“برادری بھی مجھے قاتل ہی سمجھتی ہے ۔

سوچتی ہوں بابے ریمتے کے پاس جاوٴں اور کہوں مجھے بے گناہ مت کرو، مجھے دوبارہ جیل میں بھیج دو کم از کم،باعزت بری ہونے کی ذلت سے تو بچ جاوٴں گی اور پاپی پیٹ کا بندوبست بھی ہو جائے گا۔ لیکن میرے پاس تو بابے ریمتے کے پاس جانے کا کرایہ تک نہیں اور بابا ریمتا چنیوٹ آتا نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :