اشرافیہ کی تلاش

بدھ 27 دسمبر 2017

Hussain Jan

حُسین جان

آج طاہر القادری صاحب کا ایک بیان نظر سے گزرا جس میں انہوں نے فرمایا کہ اشرافیہ نے ملک کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ یہی بیان کم و بیش ہر سیاستدان، بیوروکریٹس ،ججز اور بعض اوقات جرنیلزکے بھی ہوتے ہیں۔ سوچا آخر یہ اشرافیہ ہوتے کون ہیں زہن میں خیال آیا ہوسکتا ہے گلی میں ریڑھی پر سامان بیچنے والے ہوں گے کہ سامان کچھ مہنگا بیچتے ہیں۔

پھر سوچا ہو سکتا ہے چھوٹے دُکان دار ہوں یا پھر پلمبر،الیکٹریشن، رکشہ ڈرائیوڑ، ٹیکسی چلانے والے، ٹرک چلانے والے وغیرہ ہوں گے۔ گمان گزرا نہیں یقینا پرائمری سکول کے اساتذہ ہوں گے اشرافیہ کہ نئی قوم اُنہی کے ہاتھوں سے نکلتی ہے۔ دل پھر بھی نہیں مان رہا تھا کہ آخر یہ کون سے لوگ ہوتے ہیں جو ملک کا بیڑہ غرق کر دیتے ہیں۔
آخر میں فیصلہ کیا آج کل گوگل کا زمانہ ہے اسی سے کچھ مدد لیتا ہوں۔

(جاری ہے)

سب سے پہلے اشرافیہ کا انگریزی مطلب پتا ہونا ضروری تھا ۔ لہذا وہی ڈھونڈاتو انگریزی میں اس کا مطلب eliteآیا پھر اس لفظ کی تعریف تلاش کی ۔ یعنی ایسے افراد یا فر د جو معاشرئے میں کسی نہ کسی حوالے سے اثر و رسوخ رکھتا ہو ۔ ایسے افراد یا فرد کا تعلق سیاست، سرکاری ملازمت یا کاروبار سے بھی ہوسکتا ہے۔ تو نتیجہ یہ نکلا کہ مندرجہ بالا افراد جو ہر وقت ہمیں اشرافیہ کا لولی پاپ دیتے ہیں اصل میں یہی طبقہ تو اشرافیہ کہلاتا ہے۔

تعجب ہوتا ہے جن لوگوں نے عوام کے مسائل حل کرنے ہیں وہی ان مسائل کا رونا روتے ہیں۔ چلیں آج قادری صاحب کے تعلقات میاں برادران سے بہتر نہیں مگر پہلے تو تھے بہتر تھے۔ اور جب بہتر تھے انہوں نے اپنا مفاد حاصل کیے ہوں گے عوام کے لیے کیا حاصل کیا۔ خود سائکل سے پراڈو پر آگئے۔ اسی طرح ، بلاول، شہباز، حمزہ شہباز، میاں نواز شریف ، زرداری وغیرہ ہر وقت کوئی نہ کوئی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔

کسی کو قانون سے پرابلم ہے تو کسی کو والدہ کے قاتلوں سے تو کسی کو فوج سے۔ اب جب یہ لوگ خودہی کمزور ہیں تو عوامی مسائل کون حل کرے گا۔ عدالت کو بابا اور فوج کو نیپالی فوج سے تعبیر کرتے ہیں۔ ملک میں بہتری کے آثار مستقبل قریب میں تو نظر نہیں آتے۔
میاں شہباز شریف صاحب فرماتے ہیں اگر عوام نے اگلی دفعہ بھی موقع دیا تو پورے پنجاب میں صاف پانی مہیا کر دیں گے۔

ساری دُنیا جانتی ہے کہ پنجاب میں کم و بیش تیس سال تک میاں برادران کی حکومت رہی ہے۔ اور کچھ بوڑھے سیانے فرما گئے ہیں کہ ملک اور صوبے کی تقدیر بدلنے کے لیے چند سال ہی کافی ہوتے ہیں۔ دوسری طرف موصوف نے ارشاد فرمایا ملک میں امیر اور غریب کا فرق مٹانا ہوگا۔ جناب بھی بلا کے معصوم ہیں بندہ پوچھے اگر ملک سے غربت ختم ہو گئی تو آپ کی دُکان کیسے چلے گی۔

غربت و جہالت دو ایسے ہتھیار ہیں جن کو استعمال کر کے آپ اس ملک پر حکومت کر رہے ہیں۔
بڑئے میاں صاحب نے بھی انصاف کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کا عندیہ دے رکھا ہے ۔ وہ تو کچھ دوست احباب ساتھ نہیں ورنہ یہ پہلے حکمران ہوتے جو اپنی ہی حکومت کے خلاف تحریک چلاتے۔ انصاف، تعلیم، روزگار جیسی سہولتیں حکومتوں کا کام ہوتا ہے کہ عوام کہ پہنچائیں۔

آپ لوگوں کے تو اپنے رونے نہیں ختم ہوتے عوام کی بھلائی کے لیے کیا کام کریں گے۔ سیدھی سی بات ہے عدالت نے آپ کو نااہل قرار دے دیا ابھی نیب کے فیصلے کا انتظار کریں۔ بہت کچھ کھا پی لیا اب لندن میں اپنے محل جائیں اور پوتے پوتیوں کو کھلائیں۔ رہی بات پاکستانی عوام کی تو اُس کی فکر مت کریں۔ آپ جیسے بہت سے سیاستدان ابھی باقی ہیں جو عوام کو اذیت دینے کے لیے کافی ہیں۔


بلاول صاحب نے ارشاد فرمایا کہ والدہ کے قاتلوں کا پیچھا کرتے رہیں گے۔ اب ہمیں تو پتا نہیں موصوف پیچھا کرنا کس کو کہتے ہیں۔ کیونکہ پانچ سال تک ان کو حکومت کا موقع ملا تب تو والدہ کے قاتلوں کو گرفتار نہ کر پائے اب جبکہ پارٹی بچانا مشکل ہو رہا ہے تو جناب چلیں ہیں والدہ کے قاتلوں کو بچانے۔ آپ کو سندھ میں حکومت کرتے ایک عرصہ ہوچکا ہے۔

اندرون سندھ اور کراچی کے عوام کے مسائل کہاں تک حل کروایں ہیں۔ بنے ہوئے ہسپتال میں ایک وارڈ بنا کر پوچھتے ہیں عوام کو علاج چاہے یا میٹرو۔ بارش کی چند بوندیں پورے کراچی کو ڈبو کر رکھ دیتی ہیں۔ روشنیوں کے شہر کو آپ نے خون کی ندی میں تبدیل کر دیا۔ آپ کو بھی اشرافیہ سے گلا رہتا ہے اب پتا نہیں آپ کی نظر میں اشرافیہ کون ہیں جہازوں میں جانے والے یا سائیکل چلانے والے۔


بات بہت سیدھی سی ہے اشرافیہ ہی نے اس ملک کو برباد کیا ہے اور اشرافیہ ہی اس کا رونا روتی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب یہ لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں تب اشرافیہ کو گالیاں نہیں دیتے ۔ جیسے ہی اقتدار ہاتھ سے جاتا ہے تو خود کو اشرافیہ کے معیار سے دور کر لیتے ہیں۔ اس میں ان لوگوں کا بھی کوئی قصور نہیں۔ ملک کے عوام بیچارے عقل سے پیدل ہیں ایک پلیٹ بریانی کے لیے اپنے پانچ سال قربان کر دیتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :