راستہ موبائل ایپ:لاہور کے شہریوں کے لئے ایک تحفہ

بدھ 27 دسمبر 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

روز ہی میڈیا کے توسط سے ایسی ایسی خبریں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں کہ جس کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جا تا ہوں کہ کیا یہ انسانوں کو معاشرہ ہے؟ صرف دس بیس روپے کی رقم کے اختلاف پر بندوقوں سے نکلتی گولیاں زندہ انسانوں کو کچھ ہی لمحوں میں ڈھیر کر کے رکھ دیتی ہیں۔ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار نے، نقصان پہنچانے اور لوگوں کو اذیت پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔

یہی وجہ ہے کہ بقول قرآن حکیم :” تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے کے لئے نفع رساں ہے “ کے برعکس ہمارے معاشرے میں زیادہ تر لوگوں کی تعداد وہ ہے جو دوسروں کو تکلیف پہنچانے میں فرحت و خوشی محسوس کرتے ہیں اور اسی کی سزا ہم بھگت رہے ہیں کہ گھروں، گلیوں ، محلوں اور شہروں سے ہوتا یہ سلسلہ پورے ملک تک پھیل گیا ہے۔

(جاری ہے)

یہ ہمارے اسی اجتماعی روئیے کی وجہ ہے کہ خیر کا عنصر معاشرے سے ختم ہو تا جا رہا ہے اور ہر جگہ شراور عدم برداشت کا عنصر پوری توانائی کے ساتھ سرایت کرتا جا رہا ہے ۔


قارئین ! علم بشریات کے ایک طالبعلم ہو نے کی حیثیت سے جب میں اپنے لوگوں کے روئیوں بارے سوچتا ہوں تو جہاں کئی وجوہات سامنے آتی ہیں وہاں عدم برداشت کا عنصر ، معاشرے کو تباہی کی جانب لے جانے میں اہم کردار ادا ء کر رہا ہے ۔ گھریلو حالات، مہنگائی ، بے روزگاری، جائز کاموں کے لئے سر کاری اداروں میں ذلت و خواری کا سامنا، ظلم و نا انصافی اور سب سے بڑھ کر ٹریفک کا اژدھام ، لوگوں میں عدم برداشت کے عنصر کو مزید توانا کرتا ہے ۔

بے ہنگم اور بے ترتیب ٹریفک کے پیچھے جہاں ٹریفک پولیس کا قصور ہے وہاں90 فیصد اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ سگنل پر اگر ٹریفک وارڈن موجود نہیں ہے تو سگنل توڑنا ، ہمارا پسندیدہ عمل بن چکا ہے ۔ ون وے اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ، ہر دوسرا شہری اپنے کچھ منٹ بچانے کی خاطر لوگوں کے گھنٹوں بر باد کر نے میں ملوث ہے ۔کچھ لوگوں کا دل کرتا ہے ، عین چوراہے پر مجمع لگاتے ہیں اور شہر کی اہم شاہراؤں کو بند کر دیتے ہیں۔

یوں اپنے ہاتھوں ہی ٹریفک قوانین کی پامالی کی وجہ سے ہر شہری کو بے ہنگم ٹریفک کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے جس کے نتیجے میں لا شعوری طور پر عدم برداشت کے عنصر کو ہم اپنے اندر پروان چڑھا رہے ہیں ۔
قارئین محترم !لاہور کے چیف ٹریفک افسر ، رائے اعجاز کا شمار قابل پولیس افسران میں کیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ٹریفک پولیس کی10 فیصد غفلت کو ختم کر نے کی کافی کو شش کر ہے ہیں لیکن نا معلوم آخر وہ کونسے محرکات ہیں کہ جن کی وجہ سے وہ اپنے مقاصد میں پوری طرح کامیابی حاصل نہیں کر پارہے ۔

ٹریفک کی ابتر صورتحال کو بہتر بنا نے کے لئے نصاب میں ٹریفک قوانین کی آگا ہی کے لئے صفحات مختص کرانا، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات میں لیکچرز اور ٹریفک وارڈنز کی اخلاقی، نفسیاتی اور کارکردگی کو بہتر بنا نے کے لئے معروف ٹرینرز کے ذریعے ٹریننگ کے آغاز کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کو برؤئے کار لاتے ہوئے ”راستہ موبائل ایپ“ کا اجراء ایک خوش آئند اقدام ہے ۔


راستہ موبائل ایپ کے ذریعے لاہور کے شہریوں کو گھر بیٹھے ہی ٹریفک کی معلومات ایک کلک پر حاصل ہو جائیں گی۔ٹریفک ایڈوایزری جس کے تحت آپ کو معلوم ہو سکتا ہے کہ کہاں ٹریفک جام ہے ، کہاں ٹریفک کا فلو آہستہ ہے ، کہاں کوئی احتجاج ہو رہا ہے،کس روٹ پرٹریفک فلو روٹین کے مطابق ہے ،آپ نے جہاں جانا ہے اس کا متبادل روٹ، ٹریفک قوانین پر مشتمل چارٹ، لائسنس کے بارے معلومات، لرننگ لائسنس بنوانے کی آن لائن سہولت، چالان کی تفصیلات، ڈارئیونگ سکولوں کی تعداد اور کہاں واقع ہیں اور اس جیسی بہت سی معلومات ایپ میں موجود ہیں۔


قارئین کرام !میں سمجھتا ہوں کہ ”راستہ موبائل ایپ“ لاہور کے شہریوں کے لئے کسی تحفہ سے کم نہیں ہے ۔ مجھے امید ہے کہ جہاں اس ایپ کو استعمال کرتے ہوئے شہری ٹریفک قوانین کے بارے آگاہی حاصل کر سکیں گے وہاں اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں، انہیں کسی قسم کی زحمت اٹھانی نہیں پڑے گی۔ ٹریفک پولیس کے ذمہ داران بھی پہلے سے بہتر طریقے سے ٹریفک کو موثر انداز میں کنٹرول کرنے کی کوشش کریں گے جس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ رائے اعجاز کی کاوشوں کو مقبولیت حاصل ہو اور اس کے ساتھ ہی معاشرے میں عدم برداشت کے کلچر کا بھی اپنی موت آپ مر سکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :