کیا وزیراعظم کے طور پر شہباز شریف کی نامزدگی کا فیصلہ درست ہے؟

پیر 25 دسمبر 2017

Ammar Masood

عمار مسعود

چند ماہ پہلے پاناما کیس میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد وزیر اعظم کے عہدے کے لئے شہباز شریف کے نام اعلان ہوا۔ صحافیوں اور پارٹی عہدیداروں کو بتایا گیا کہ شاہد خاقان عباسی صرف اس وقت تک وزیر اعظم رہیں گے جب تک شہباز شریف قومی اسمبلی میں منتخب ہو کر آ نہیں جاتے۔ پھر شاہد خاقان عباسی کا نام مستقل ہو گیا اور شہباز شریف پنجاب کے دھندوں میں کھو گئے۔

چند روز پہلے ایک بار پھر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ کے صد ر میاں محمد نوز شریف نے ایک پھر اعلان کیا آئندہ ہونے والے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کے وزیر اعظم کے متفقہ امیدوار شہباز شریف ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس دفعہ یہ بات کس حد تک سچ ثابت ہوتی ہے۔
اگر سینٹ کے الیکشن وقت پر ہوتے ہیں اور مسلم لیگ ن ان میں متوقع کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو پہلی صورت میں وہ آئینی ترمیم کی جائے گی جس کی مدد سے میاں نواز شریف کو اسمبلی میں واپس لایا جائے۔

(جاری ہے)

کچھ احباب کا خیال ہے کہ اس ترمیم کو 2018 کے انتخابات کے بعد نو منتخب شدہ اسمبلی میں پیش کیا جانا چاہیے تاکہ آئین کی شق 62,63کو اچانک سے ختم کرنے سے کہیں مذہبی انتہا پسند گروپ سرگرم نہ ہو جائیں اور اس کا خمیازہ عام انتخابات میں پارٹی کو نہ اٹھانا پڑ جائے۔لیکن اندورنی حلقوں کے مطابق پارٹی کی قیادت سے عام انتخابات تک صبر کی خواہش ممکنات میں سے نہیں ہے۔

جیسے ہی اسمبلی اور سینٹ میں متوقع اکثریت ملی نواز شریف دوبارہ اسمبلی میں آئیں گے اور پارٹی قیادت کے سوا وزارت اعظمی کی کمان بھی اپنے ہاتھ میں تھام لیں گے۔ایسی صورت میں کسی اور کے وزیر اعظم بننے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا لیکن بالفرض ایسا نہیں ہو پاتا تو کیا ہو گا؟
شہباز شریف کے متوقع وزیر اعظم کے اعلان کے پیچھے یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ اس طرح اسٹیلشمنٹ کے سے ساتھ اختلافات میں کمی جائے اور یہ اعلان فریقین کی مرضی سے کیا گیا ہو۔

اس بات سے یہ نتیجہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اب عمران خان اور پیپلز پارٹی کے انتخابی مستقبل سے مایوس ہو چکی ہے۔ انہیں اس بات کا یقین ہو چکا ہے کہ مسلم لیگ ن کو عام انتخابات میں شکست دینا ناممکن ہو گیا ہے۔اس لئے ٹکراو سے بچاو کے لئے اب راہ فرار مسلم لیگ ن میں سے ہی تلاش کی جائے اور اس مصالحت کے لئے شہباز شریف سے بہتر کوئی اور امیدوار نہیں۔


نواز شریف اور شہباز شریف ایک ہی پارٹی کے دو ایسے سربراہان ہیں جن کی سوچ میں زمیں آسمان کا فرق ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کبھی نواز شریف کو دل سے قبول نہیں کر سکتی اور نواز شریف بھی کبھی پارلیمنٹ کی بالادستی پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔یہ بات نواز شریف کی نہ صرف سرشت میں ہے بلکہ ان کی حالیہ تمام تر تقریروں کا لب لباب بھی یہی ہے۔نواز شریف اس وقت سیاست میں سب سے زیادہ تجربہ کار سیاست دان کی حیثیت سے موجود ہیں۔

پارٹی میں ان کا کہا حرف آخر ہوتا ہے۔ جس کے سر پر وہ ہاتھ رکھیں وہی سب کا چہیتا قرار پاتا ہے۔ جس سے اختلاف کریں وہی لعنت ملامت کاموجب بنتا ہے۔پارٹی پر نواز شریف کا کنٹرول اس حد تک قائم ہے کہ تام تر کوششوں کے باوجود کسی نے ابھی تک پارٹی چھوڑنے کی جرات نہیں کی۔ جو ایک دو نام سامنے آئے وہ اتنے قابل ذکر نہیں ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں ہے کہ مسلم لیگ ن کووووٹ نواز شریف کے نام کا پڑتا ہے۔

ووٹر انہی کے نام کے گن گاتے ہیں۔ میاں کے نعرے جب لگتے ہیں تو اس سے مراد صرف میاں نواز شریف ہوتے ہیں۔آج تک کسی نے اس نعرے کا مخاطب شہباز شریف کو نہیں سمجھا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نواز شریف کو سول بالا دستی، عوام کے حق حاکمیت، ووٹ کا تقدس ، اداروں کے کردار کا تعین ، پارلیمنٹ کی بالادستی جیسی باتیں کرنے کا بہت شوق ہے۔ یہی نعرے اور طرز عمل انکی مقبولیت کا سبب ہیں ۔

کارکن نواز شریف کا احترام کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ جس سے ملیں شفقت سے ملتے ہیں۔ عوام سے آئی لو یو سن کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ پرانے دوستوں سے رابطہ کبھی نہیں چھوڑتے۔جبکہ شہباز شریف کے مسائل بالکل مختلف ہیں
شہبازکارکن آدمی ہیں ۔ جلدی سے کام کرتے ہیں۔ کرپشن کا کوئی داغ ان پر نہیں ہے۔پنجاب کے ترقیاتی پراجیکٹ انہی کی پھرتیوں کے مرہون منت ہیں۔

جلدی میں فیصلے غلط بھی کر جاتے ہیں۔ درشت رویہ رکھتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے ممبران سے بات تو درکنار ہاتھ ملانے سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔بارش میں لانگ بوٹ پہن کر سڑکوں پر نکل جانا اور ہرعصمت دری کے کیس میں مظلوم خاندان کے ساتھ داد رسی کا فوٹو سیشن کروانا، ا ہر ادارے میں انگلی اٹھا اٹھا کر معطلیاں کرنا ان کا خاصہ ہے۔

انکے درشت رویئے کے سبب بیشتر پارٹی ورکر، بیورورکریسی اور عوام عمومی طور پر ان سے شاکی رہتی ہے۔ لیکن یہ بات ماننے کی ہے کہ وزیر اعلی پنجاب جوڑ توڑ کے بادشاہ ہیں۔ رات کے اندھیروں میں ہونی والی میٹنگز پر دسترس رکھتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراو کی بات کبھی نہیں کرتے۔ اداروں کو ان کی آئینی حدود میں رہنے کی تلقین کبھی شہباز شریف کا طرہ امتیاز نہیں رہی دراصل اداروں سے مصالحت ان کا طرہ امتیاز ہے۔

مسلم لیگ ن میں لوگوں کی بڑی اکثریت شہباز شریف سے اختلاف رکھتی ہے ان کے نقطہ نظر سے دامن بچا کر گذرتی ہے۔ پارٹی میں ا نکے احترام کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ نواز شریف کے بھائی ہیں۔ اس بات کا شہباز شریف کو بھی مکمل ادراک ہے کہ مسلم لیگ ن میں ووٹ صرف میاں نواز شریف کا ہے۔ شہباز شریف کی وزارت اعلی دراصل نواز شریف کے ووٹ کی محتاج ہے۔
نواز شریف آج کل جس لہجے میں قوم سے مخاطب ہیں وہ بہت جارحانہ ہے۔

وہ بار بار سوال کرتے ہیں مجھے کیوں نکالا؟ میرا قصور کیا تھا؟ پاناما میں کچھ نہ ملا تو اقامے پر نکا ل دیا؟ کتنے وزیر اعظم نکالے گے؟ کسی کو حکومت کی مدت پوری کیوں نہیں کرنے دی جاتی؟ کون جمہوریت کی لگامیں کھینچ لیتا ہے؟ کون ووٹ کو بے توقیر کر دیتا ہے؟ کون سول بالادستی کو نہیں مانتا؟ احتساب سب کا ہونا چاہیے؟ سزا سب کو ملنی چاہیے؟مشرف کا احتساب کیوں نہیں ہوا؟ ڈکٹیٹروں کو کٹہرے میں کیوں نہیں کھڑا کیا؟ عدلیہ انصاف سے قاصر کیوں ہیں؟ کس کے کہنے پر سیاستدانوں کو بے توقیر کیا جاتا ہے؟کون احتساب سے منکر ہے؟ ہم نے ملک بنایا ہے ملک توڑنے والوں سے کیوں نہیں پوچھتے؟ یہ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف ہے جو ہماری سیاسی تاریخ میں ہمیشہ مقبول رہا ہے؟ بھٹو بھی اس موقف کو اپنانے کی وجہ سے آج تک زندہ ہے۔

نااہلی کے بعدنواز شریف کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت بھی اسی نعرے کی مرہون منت ہے۔ایسے میں شہباز شریف کی نامزدگی کیا اس عوامی موقف کی نفی نہیں؟ مصلحت کی سیاست آج کے دور کا مقبول نعرہ بالکل نہیں۔کیا شہباز شریف کی نامزدگی کا فیصلہ وقت کے آگے ہتھیار ڈال دینے کی رسم ہے یا اسٹیبلشمنٹ کو مطمئن کرنے کی ایک سیاسی چال ہے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا۔

لیکن اگر نواز شریف خود وزیر اعظم نہ بن سکے پارٹی میں بہت سے لوگ ہیں جو انکے حالیہ موقف کو بڑھاوا دے سکتے ہیں۔ خواجہ آصف ، احسن اقبال اور خود مریم نواز شریف کی سوچ وہ سوچ ہے جو درست بھی ہے اور اسے عوامی پذیرائی بھی حاصل ہے ۔ ایسے تاریخی موڑ پر شہباز شریف کی نامزدگی فیصلہ درست ہے یا غلط اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کر سکتا ہے لیکن سوچنا صرف اتنا ہے کہ کیا یہ فیصلہ عوامی پذیرائی حاصل کر سکے گا؟ عوام کو حق حاکمیت دلوا سکے گا؟ ووٹ کی تقدیس کروا سکے گا؟اداروں کو انکی حدود میں رہنے کی تلقین کر سکے گا؟
نواز شریف کے مقبول نعرے مجھے کیوں نکالا سے یاد آیا کہ اب مجھے کیوں نکالا کی فہرست میں صرف نواز شریف ہی نہیں ہیں۔

پرویز رشید، مشاہد اللہ، طارق فاطمی اور نہال ہاشمی بھی یہی نعرے لگا رہے ہیں۔ حال ہی میں اس نعرے کے حق دار پیمرا کے سابق چیئر مین ابصارر عالم قرار پائے ہیں۔ چھوڑ دیں ہاورڈکی فیلو شپ کی بات کو سچ تویہ ہے کہ ابصار عالم نے صرف بی اے کیا ہوا ہے اور بی اے پاس آدمی کسی بھی عہدے کے لائق نہیں ہے، اس کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں پینتیس برس ان لوگوں نے حکومت کی ہے جن کی تعلیمی قابلیت صرف ایف اے تھی۔ ان سے تو کوئی سوال نہیں کرتا ؟خیر یہ بات تو ایسے ہی جملہ معترضہ کی طور پر آگئی ۔ اور سنائیں کیا حال چال ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :