ثمینہ راجہ کے خطوط

جمعرات 21 دسمبر 2017

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

شائد اب وہ وقت قریب ہے جب نئی نسل ’خط‘ کا لفظ سن کر اپنے بزرگوں کی طرف ’وضاحت‘ طلب آنکھوں سے دیکھے۔ جواب حیران کن ثابت ہوگا ،جب باہمی رابطوں کے ذریعے کی وضاحت کی جائے گی اور بتایا جائے گا کہ دو اشخاص کے رابطے کے بیچ میں پورا ڈاک کا نظام کارفرما ہوا کرتا تھا۔ مگر یہاں تو ثمینہ راجہ اور سید انیس شاہ جیلانی کے سندیسوں کا بوجھ صرف محکمہ ڈاک ہی نہیں اٹھاتا تھا بلکہ ایک طرف ماسٹر نوازاور دوسرے طرف مولوی بشیر احمد المعروف مولانا کھرپٹی صاحب بھی ’وچولے‘کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

ہم اس نسل کی باقیات کے طور پر موجود ہیں جنہوں نے خط وکتابت کی لذت اٹھائی۔ ڈاک کے انتظار کی بے چینی اک’ عادی نشہ‘ سے کہاں کم ہوتی تھی، ڈاکیہ محبوب نہیں تو محبوب کا سندیسہ لانے کا ذریعہ ضرور ہوا کرتا تھا۔

(جاری ہے)

خط کا حِظ اسکے لفافے سے شروع ہوتا،خط پڑھنے سے قبل اسکا کاغذخود قابل ملاحظہ ہوتا۔ کاغذ کے سٹائل اور رنگ کے ساتھ ساتھ اسپرچھڑکی ہوئی خوشبو کا علیحدہ سے نشہ ہوتا۔

خط پڑھنا اور پھر خط کا جواب دینا ، جواب دے کر پھر سے جواب کا انتظار کرنا ،یہ سب اس عہد کی باتیں ہیں جو وقت پیچھے چھوڑ آیا۔ وقت کا بہتا دریا‘کبھی اپنے تذکروں میں اک روانی اور سکون کا استعارہ ہوتا تھا،مگر اب اسکی طغیانی ہی اسکی پہچان بن چکی ہے۔ لمحہ پہلے اور لمحہ بعد کے درمیان اتنا کچھ بدل جاتا ہے کہ انسان پیچھے کی بجائے آگے ہی دیکھنے پر مجبور ہوچکا ہے۔

پہلے وقت کتنا رکا ہوا تھا اور پھر کیسے اسکو مہمیز لگی،ایسے جس طرح کسی فلم کو فاسٹ فارورڈ پر لگا دیا جائے۔ یہی منظر ہمیں ثمینہ راجہ اور انیس شاہ جیلانی کے مابین خط وکتاب پڑھ کر نظر آتاہے۔ اگر ثمینہ راجہ زندہ ہوتی اور اپنی خود نوشت لکھنے کی خواہش مند ہوتی یااب کوئی اسکی زندگی کا احوال لکھتا ،خواہ وہ ثمینہ کے جتنا بھی قریب ہوتا‘ یہ سب نہ لکھ سکتا جن کا اظہار یہ خطوط کرتے ہیں۔

گزرے وقتوں کا احوال عہد حاضر میں لکھنے سے زمانوں کا حقیقی رنگ اور ذائقہ بدل جاتا ہے۔ خود نوشت‘ بعد کے عہدوں میں لکھنے والا‘ماضی میں بھی تراش خراش اور ردوکد پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ارتقاء کے رندے سے ہموار اسکا ’آج‘ ماضی کی سنگلاخ ‘ہلاکت خیزی سے سے کتراتا ہے۔ شعوری نہ سہی مگر لاشعوری گرفت سے چھٹکار ا مشکل ہوتا ہے۔ یوں ماضی پر حال کا رنگ چڑھ جاتا ہے۔

خطوط سے’ زندگی نامہ‘ اپنے حقیقی آھنگ میں بالکل اپنے زمانی رنگوں میں نظر آتا ہے۔ ہر دکھ پوری شدت اور تاب سے ہر سکھ پوری خوشی اور لذت سے،ہر جذبہ پورے گداز سے ، ہر رشتہ اپنے پہلے اور اصلی رنگ میں کسی بھی زمانی آویزش کے بغیر صاف صاف محسوس ہوتا ہے۔ یوں حالات، واقعات،بنتے بگڑتے رشتے ناطے اپنی نومولودیت سے ہی ویسے دیکھے جاسکتے ہیں ،جیسے وہ ہوتے ہیں۔

ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ"ثمینہ راجہ کے خط" ،116خطوظ کا مجموعہ ہے، جس کو مکتوب الیہ سید انیس شاہ جیلانی نے مرتب کیا ہے'' دراصل ایک عہد کا بیان ہے۔ یہ خطوط ستر، اسی اور نوے کی دھائی کے پہلے سالوں کی علمی دنیا کا ایک منظر دکھانے کی قدرت رکھتے ہیں۔ اسی عہد کے 'نوواردگانِ ادب' کن حالات اور کیفیات کے روبروتھے ،اسکا بھی کچھ عکس یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔

دیہی زندگی کی بظاہر اندھیرنگری کی کوکھ سے علم ،دانش اور جستجو کے اجالے کیسے لپکتے اور اک جہاں کو روشن کرنے کا سبب بنتے ہیں، یہ واردات بھی پوری تفصیل سے انہی خطوط سے منعکس ہوتی دکھتی ہے۔ اگر چہ ثمینہ راجہ' پہلے خط کے مندرجات سے ہی پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، مگر اگلے خطوط بھی کسی طور دلچسپی سے خالی نہیں ہیں۔ بالخصوص ان خطوط میں ثمینہ کی شخصیت کا پورا ارتقاء پڑھا جاسکتا ہے۔

اگرچہ یہ خطوط کی یک طرفہ البم ہے، مگر ان کو پڑھ کر دوسری طرف کا احوال پورا نہیں تو آدھا‘ محسوس ضرور کیا جاسکتا ہے،بلکہ مکتوب الیہ کی شخصیت کے خفیہ یا مخصوص حصے زیادہ اجاگر ہوتے اور پڑھنے والے کی رائے کو متاثر کرتے ہیں۔ شائد یہ ممکن نہیں تھا، ورنہ انیس شاہ کے وہ خطوط جن کو سنبھال رکھنے کااعتراف خود ثمینہ راجہ نے کیا تھا وہ بھی بالمقابل موجود ہوتے تو مزا دوبالا ہوجاتا، نہ صرف موضوعات سخن پوری وضاحت سے سامنے آتے بلکہ انیس شاہ جیلانی کا خطوط میں بالکل منفرد، کاٹ دار اور ادبی چاشنی سے بھرپور انداز بھی قاری کو پڑھنے کو ملتا۔

جن صاحبان سے شاہ جی کی خط وکتابت رہی ہے وہ جانتے ہیں کہ موصوف ایک سطر میں بڑا مضمون بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں، یہ میرے لئے بھی انگشاف تھا کہ انہوں نے ثمینہ راجہ کو لمبے لمبے خطوط لکھے،شائد یہاں بھی 'صنفی سبقت' نے اپنا کام دکھایا۔ دوسری طرف ان خطوط میں ثمینہ راجہ کی تحریریں حیران کردیتی ہیں، پختہ طرز تحریر اورخود ’ثمینہ راجہ ‘ کے بقول کم پڑھی لکھی ہونے کے باوجود،کسی طور علمی ضعف دکھائی نہیں دیتا۔

ثمینہ راجہ کی عمر یقینی طور پر اپنے پہلے خط کے وقت 20 سال تھی مگر انکی تحریر، سوچ اور اپنے نقطہ نگاہ کی وضاحت عمر کی نسبت بہت پختہ دکھائی دیتی ہے۔ انیس شاہ جیلانی کو لکھے گئے خطوط کا ابتداء میں مطمع نظر معروف علمی ،ادبی شخصیات کے ساتھ تعلق خاطر قائم کرنا اور انکی وساطت سے اپنے شاعرانہ ذوق کیلئے راستے تلاش کرنا۔ رفتہ رفتہ اس خط وکتابت نے ثمینہ کی خوب حوصلہ افزائی کی اور اسکی شاعری پر مبنی کتاب کی مبینہ اشاعت کے ’سراب‘ کو خلق کیا۔

دوسری طرف صحرائی درویش کے لب بھی پیاس کی شدت سے دھک رہے تھے، محرومی کی نفسیات ادبی،علمی شاعرانہ گفتگو اور فلسفے پر غالب ہی آتی گئی مگر یک طرفہ۔ مکتوب الیہ کو اسکی 40 سالہ عمر کے طعنے دینے والی ثمینہ راجہ شعوری طور پر انسانی جذبات، خیالات اور پسندیدگی کو مخصوص وقت کی قید میں بند کرنے کے درپے نظر آتی ہے۔ انسانی خواہشات اور جذبات کے لئے ابھی تک وقت کا کوئی قید خانہ نہیں بن سکا۔

یہاں بھی ایسا ہی نظر آتا ہے۔ انیس شاہ جیلانی علمی گفتگو کا سٹیرنگ نفسانی خواہشات کی طرف موڑنے کی کوشش کرتے ہیں ، مگر اس
انداز میں کہ اثر پذیریری کا شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ اسکے مقابلے میں ثمینہ غیر فطری گفتگو کے ذریعے اس عفریت کا ردبلا کرنے میں مشغول نظر آتی ہیں۔ وہ کہیں اپنی پاک بازی کا اظہار کرتی ہیں ، کبھی اپنے سوتیلے رشتوں کے خوف کا اظہار کرتی ہیں، شاہ جی کو ماں بہن کے طعنے بھی سننے کو ملتے ہیں مگر 'منا بھائی' اپنی ہی دھن میں لگا ہی رہتا ہے۔

کہتے ہیں نا غرض مند دیوانہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے اگلے(خط وکتاب کا دورانیہ 1977۔2001) 24 سالوں میں مکتوب الیہ پوری دیانت داری اور خضوع و خشوع سے کنڈی ڈالے مچھلی پکڑنے کی کوشش کرتے رہے، دلچسپ امر یہ تھا کہ 'مچھلی 'اس نظارے سے محظوظ ہوتی رہی، ناراضی کا تاثر دیتے ہوئے بھی لبھانے کا عمل جاری رکھا، اپنے اشعار کی اشاعت کی غرض سے، مختلف جرائد تک رسائی کیلئے اور سب سے بڑا مقصد اپنے پہلے مجموعہ کلام کی 'اشاعت' کوحاصل کرنے کیلئے۔

یوں ثمینہ بھی شاہ جی کو اپنی طرف سے مچھلی ہی سمجھے ہوئی تھی اوروہ اپنی ’نسائیت ‘کے کینچوے سے راغب کرنے اورکتاب چھپوانے کی سعی ناحاصل کرتی رہی۔ شاہ جی بھی مفت میں کتاب کیونکر چھپوا دیتے، آخر منڈی کی معیشت کے اثرات تھے۔ اگر یہ اثرات نہ بھی ہوں تب بھی شاہ جی بہرحال بارٹر سسٹم کے قائل نظر آتے ہیں، ’اس ہات دے اس ہات لے ‘کے مصداق،مفت ‘کچھ کرنے کے قائل نظر نہیں آتے۔

بڑی مہارت سے امید کی کرن کو جگائے رکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنا مطالبہ بھی دھراتے نظر آتے ہیں۔ خود کو صنفی حد بندیوں سے ماورا قراردینے کے بارہا دعووں کے برعکس ‘اپنا کام نکالنے اور شاہ جی کو شیشے میں اتارنے کیلئے اپنی نسوانی حیثیت کو ہی ثمینہ راجہ نے بار بار استعمال میں لانے کی سعی کی۔نیتوں میں فتو ر دونوں طرف تھا، سو نہ کتاب چھپی نہ وصال یار ہوا۔

دونوں مستقل مزاجی سے اپنی اپنی طمع کا اظہار کرتے رہے۔ ثمینہ راجہ' شاہ جی کی فریفتگی کو انکی عمر کے حوالے سے رد کرتی چلی آتی ہے ، مگر یہ ایک تکنیک ہی ہوسکتی ہے وگرنہ ثمینہ راجہ نے بعد کے وقتوں میں احمد فراز ایسے شاہ جی سے بھی بزرگ شاعر سے اپنی ویسی ہی وابستگی استوار کی جس طرح کے تعلق کے انیس شاہ خواہاں تھے۔ یہاں مکانی مسائل بھی یقینی طور پر کارفرما ہیں،کیونکہ مراد پور، ڈاکخانہ تاج گڑھ کے راجہ فارم میں رہنے والی ثمینہ راجہ اپنے سوتیلے بھائیوں راجہ مجید وغیرہ کی عقابی نگاہوں کے سات پہروں میں جسمانی قید جیسی کیفیت میں تھی، مگر اسکی روح اور قلم آزاد تھا اور رسل ورسائل کے قدیم سہی مگر یہ ذرائع اس پر پوری دنیا وا کئے ہوئے تھے۔

دوسری طرف شاہ جی بھی 'مٹی چھوڑنے" پر یقین نہیں رکھتے۔ زبانی کلامی فریفتگی کا اظہار ہی اگر اثر افرینی رکھتا تو خواجہ فرید کیوں کوٹ مٹھن سے روہی کے ٹیلوں کی خاک اڑاتے۔ مگر شاہ جی کے جمود مسلسل کے برعکس، خاتون کمان سے نکلے تیر کی طرح جب نکلی تو پھرسفر آگے ہی ہوتا گیا، پوری دنیا مفتوح ہوتی گئی۔ کہاں ہمارے درویش کہلوا کر خوش ہونے والے’ منجمد شمالی ' مانند شاہ جی سے ایک کتاب چھپوانے کے ’ترلے‘ تھے ،کہاں پورے بارہ شاعری کے مجموعے،جن میں سے کچھ کے تو متعدد ایڈیشن چھپتے گئے ، خود ناشر تک بن گئیں۔

کتابیں چھاپنے والے اداروں کی افسر ٹھہریں اور کئی رسائل وجرائد کی ایڈیٹربھی بن بیٹھیں۔ جن کو ایڈیٹر نخروں سے اس طرح چھاپتے کہ انکی غزل کا پوسٹ مارٹم انکے دل کو چیر کے رکھ دیتا اور کہاں انکی صدارت اور میزبانی کے بغیر اسلام آباد میں مشاعروں کا تصور تک نہ ہوتا۔ ثمینہ ایک وقت میں اپنی تصویر چھپنے پر ملزم ٹھہری تھی پھر ٹیلی وژن کی سکرین کی مکین ٹھہری۔

دوسری طرف' سیدزادے کے ساتھ وہی ہوا جو برصغیر کی تاریخ میں کبھی راجپوتوں کا احوال تھا،راج واڑوں کی جنگوں کے بعد کہا اور لکھا جاتا تھا،” راجپوت بہت بہادری سے جنگ لڑے۔۔۔۔۔ مگر ہار گئے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ کامیابی کئی سو کلو میٹر دور ہی رہی اور اگر کسی کو ملی بھی تو وہ ملتان کے زمان ملک صاحب ٹھہرے۔ ثمینہ راجہ کواپنے تمام تر مسائل کے باوجود دنیا بھر سے 'تعلق خاطر' گھانٹنے میں کہیں دشواری نہ دقت پیش آئی حالانکہ سوتیلے بھائیوں کو سلطان راہی بنا کر پیش کرتی رہیں۔

مالی پریشانیوں کا رونا دونوں ا طراف جاری رہا‘ جیسا کہ ہمارے ہاں کے زمینداروں کی پختہ عادت ہے۔ ثمینہ راجہ ستر کی دھائی میں اکسویں صدی کے ”ذرائع رسل ورسائل“ کے نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نظر آتی ہے۔ ادبی علمی شخصیات کی صحبت حاصل کرنے کی شدید خواہش کے اثرات ‘بہرحال نکلے ، ملک بھر سے ادبی کمک حاصل کی اور اس سے استفادہ بھی کیا۔

ازدواجی زندگی بہر حال دو مختلف جنسوں اور انسانوں کے مابین ہی گزرتی ہے، صرف ایک خلئے والا ’امیبا‘ قسم کاجاندار ہی خود کو تقسیم کرکے اپنی خانگی زندگی کو پروان چڑھاتا ہے مگر انسان کیلئے ایسا کرنا ممکن نہیں۔ یہاں ثمینہ راجہ کا ایک اور رخ نظر آتا ہے،مگر اپنے خاوند سے عدم اطمینان کی بیان کردہ کہانی میں زیادہ دم نہیں ہے۔ جو ثمینہ راجہ خطوط کے آئینے میں نظر آتی ہے ،وہ اتنی کمزور تھی نا ہی بے بس ہوجانے والی' جو زمان ملک کی شخصیت کی(معمولی نوعیت) کی کمزوریوں، عادات واطوارکے روبرو اپنی اعلی شخصیت اور خوبیوں سمیت عاجز آجاتی۔

جن بدعتوں یا آلائشوں سے داغداربقول ثمینہ راجہ انکے شوہر نامدار زمان ملک تھے‘ سے زندگی گزارنے میں بظاہر اتنا تصادم نظر نہیں آتا جتنا بڑا ردعمل ثمینہ راجہ کا تھا، علیحدگی وہ بھی تین بچے پیدا کرنے اور بارہ سال خلوت میں گزارنے کے بعد۔ ممکن ہے اور لازمی طور پر دیگر اسباب موجود ہوں گے جن کا اظہار شعوری طور پر آخری خطوط میں درج نہیں ہے۔

بہرحال رحیم یارخاں کے دیہی پس منظر میں مظلوم اور بے بس نظر آنے والی اور سوتیلے رشتوں کی ستم رسیدہ نسبتا کم پڑھی لکھی ثمینہ راجہ دارلخلافہ کے ادبی علمی حلقوں میں مرکزی حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس طرح کہ برصغیر تک میں اسکی شاعری، شخصیت اور ادبی حیثیت کو احترام اور توجہ حاصل ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کیا ہوا؟ راوی خاموش ہے ، کیوں کہ خطوط کا سلسلہ 2001 ء کے بعد نہیں ملتا۔

سنی سنائی باتوں کو لکھنا مناسب نہیں ہے۔ ثمینہ راجہ خود نوشت لکھتیں تو شائد ایسے نہ لکھ سکتیں کیونکہ انکے محفوظ شدہ خطوط میں نہ کوئی ملاوٹ ہے اور نہ ہی بناوٹ،اسلئے یہ دھائیوں بعد‘ گزرے واقعات لکھنے کے عمل سے بہت ہی فائق اور اعلی ہیں، بالکل تازہ،ڈالی پر مہکتے پھول کی طرح۔ کتاب ’ثمینہ راجہ کے خط‘ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ سید انیس شاہ ‘ثمینہ کی زندگی بلکہ اسکی جوانی میں‘ اسکی شدید خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے اسکی شاعری کے پہلے مجموعے ”زمہریر“ نہ چھپواسکے، مگر بعد از مرگ‘ ثمینہ کے خط چھپوا کر کسی قدر تلافی کے مرتکب ہوسکے۔

اگرچہ یہ اشاعت (آغاز سے انجام تک غیر فعال) ”حیرت شملوی اکیڈیمی“ کی بجائے معروف اشاعتی ادارے’ فکشن ہاوس‘ کے ذریعے ہوئی ،کچھ معاملات میں مالی مسائل سے زیادہ شائد ہم دوردراز رہنے والے لوگوں کی سادگی یا پسماندگی یا یوں کہیں کہ ’ ثقافتی پسماندگی‘ آڑے آجاتی ہے جس کا اظہار کتاب کاغیر معیاری کاغذ، سرورق پر مدھم تصویر کے انتخاب سے ہوتا ہے۔

کتاب کا کا غذ مرحومہ ثمینہ راجہ کی خواہش کے مطابق ملائم اور معیاری ہونے کی بجائے سستا اور عامیانہ ہے۔ بہر طورسید انیس شاہ جیلانی نے ان خطوط کو شائع کرا کے پچھلی دھائیوں کی دیہی دوشیزہ کی علمی،ادبی مشکلات اور ناقابل شکست جدوجہد کو امر کردیا ہے۔ کاش ”زمہریر“ 1979ء میں ہی چھپ جاتی۔ایسا ہوتا تو ثمینہ راجہ اور شاہ جی کی رفاقت یقینی طور پر کسی اور نہج پر ہوتی۔

مگر تاریخ کو اگر مگر کے ذریعے درست کیا جاسکتا تو کہیں کچھ غلط نہ ہوتا۔ انسان کی بدقسمتی اور تاریخ کی خوبصورتی یہی ہے کہ انکا کوئی ری ٹیک نہیں ہوتا۔ ثمینہ راجہ کی زندگی کا پہلا حصہ "ثمینہ راجہ کے خط" پڑھ کر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے البتہ اسکے عروج اور عوج ثریا پر پہنچنے کی داستان کیلئے کسی اور مورخ کا انتظار کرنا پڑے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :