کم از کم عدلیہ کو تومتنازعہ نہ بنائیں

منگل 19 دسمبر 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

اسے ہمارے ملک کی بد قسمتی سمجھ لیں یا سیاسی بدقماشوں کی چالیں، جو اپنی کرپشن، حرام خوری اور ملک کو نقصان پہنچانے اور اپنے بنک اکاؤنٹس بھرنے کی خاطر بے دردی سے خزانے پر شب خون مارنے کی درجنوں وارداتیں، جسے چھپانے کے لئے وہ اپنے آپ کو معزز و محترم قرار دینے کے لئے اداروں کی کردار کشی اور انہیں متناز عہ بنا نے کا کوئی بھی موقع خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے ۔

افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑتا ہے کہ یہ اپنی کالی کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے کبھی یہ ایجنسیوں کے سربراہوں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالتے تو کبھی فوج سے خوامخوہ کا پنگا لینے سے بھی باز نہیں آتے ۔ جس کے نتیجے میں ملک اور ملک سے باہر ایسے لوگوں کی خود کوئی عزت نہیں ہوتی وہ اداروں کو مختلف طریقوں سے بدنام کر کے ملکی سا لمیت کو نقصان پہنچانے میں صف اول میں کھڑے ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)


قارئین ! حالیہ دنوں میں ، ملک کے خزانے کو اپنے آباؤ اجدا کا مال سمجھ کر ہڑپ کرجانے والے اور ایک اندازے کے مطابق ہر سال 3کروڑ ڈالر کھا جانے والے کرپٹ لوگوں کے خلاف جس طرح سپریم کورٹ نے ایک طویل دوارنیہ میں پورے شواہد کے ساتھ فیصلہ دیا اور پھر جے ۔آئی۔ٹی بنا کر پھر سے ان لوگوں کو اپنی بے گناہی ومعصومیت ثابت کر نے کا موقع دیا ۔ یاد رہے یہ وہ جے۔

آئی۔ٹی ہے جس پر کچھ لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں کہ کیوں خاص انٹیلی جنس ایجنسی کو جے۔آئی۔ٹی کے لئے کام کر نے پر مجبور کیا اور اسی بات پر وہ بھی عدلیہ کو متنازعہ بنا نے میں پیش پیش ہیں۔ اپنے آپ کو بڑے صحافی کہلانے والوں کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ حکمرانوں کے تلوے چاٹنے والے کسی سر کاری افسر میں اتنی جرات تھی کہ وہ ان کے خلاف انکوائری کر سکتا؟کیا وہ ظفر حجازی کی کرتوت بھول گئے ،جس کا اپنی خاتون افسر پر ریکارڈ میں ردوبدل کے بارے پریشر ڈالنا ثابت ہو گیا تھا؟ ۔


جن کے پاس اپنے وسیع و عریض محلات، لمبے چوڑے کاروبار اور سیکڑوں بنک اکا ؤنٹس میں موجود اربوں روپے سب معصوم قوم کے خون پسینے کی کمائی سے بنایا گیا ہو وہ بھلا کیسے اپنی بے گناہی ثابت کرتے؟لہذا انہیں مصدقہ چور قرار دے دیا جاتا ہے اور یوں کئی سالوں سے ملک پر حکمرانی کرنے والوں کو نا اہل اور صادق امین کی شرط پر پورا نہ اترنے پرمسند حکمرانی سے الگ کرنے کے احکامات صادر ہوتے ہیں ۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ ملک کی تاریخ کا ایک ایسا فیصلہ ہے جو نہ صرف آنے والے زمانوں پر گہر اثر چھوڑے گابلکہ مسند حکمرانی پر براجمان ہر شخص کو اس بات کا احساس دلاتا رہے گاکہ اگر ہم بھی ایسی ہی کرپشن میں ملوث رہے تو کوئی بعید نہیں ،ہمیں بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح رسوائی کا سامنا کر نا پڑے۔
اس تاریخی فیصلے کے بعد سے اب تک ان لوگوں ، ان کے اہل خانہ اور حواریوں کی طرف سے عدلیہ کے خلاف جس طریقے سے بیان بیازی کا مقابلہ شروع ہوا ہے اور بالخصوص جہانگیر ترین اور عمران خان نا اہلی کے فیصلے کے بعد عدلیہ کو متنازعہ بنانے کی کو شش کی گئی وہ قابل افسوس ہے ۔

قانون کی الف۔ب جاننے والا شخص بھی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ عمران خان کے خلاف دائر کی جانے والی پٹیشن میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کی روشنی میں ان لوگوں کی توقع کے مطابق فیصلہ آتا۔خان اور شریف کیسز میں دو مختلف قسم کے معاملات تھے جس کاا ظہار سپریم کورٹ کے ایک معزز جج جسٹس فیصل عرب نے 12صفحات کا اضافی نوٹ لکھتے ہوئے کیا کہ عمران خان کیس کے حقائق ،نواز شریف کیس سے بہت مختلف ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف30سال میں کئی بار عوامی عہدیدار ر چکے ہیں ۔وزیر خزانہ،وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم رہنے کے لئے ایماندار، شفاف اور اچھی ساکھ کا ہو نا ضروری ہے لیکن شریف خاندان لندن فلیٹس،العزیزیہ سٹل ملز اور گلف سٹیل ملز کے اثاثہ جات کے حوالے سے متعلق تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ جبکہ عمران خان کا لندن فلیٹ این۔ایس۔ایل کے تحت ٹیکس ادائیگی کے ساتھ صاف ستھری رقم سے خریدا گیااور جس کی ملکیت2002 کے الیکشن میں بھی ظاہر کی گئی ۔

خان نے عوامی عہدہ رکھنے سے 20 سال قبل لندن فلیٹ خریدااور جسے فروخت کر کے بنی گالہ اراضی خریدی گئی جس کے لئے کچھ رقم جمائما خان نے بھی اداء کی۔
قارئین کرام ! چیف جسٹس ثاقب نثار نے پاکستان بار کونسل کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جہاں معاشرے کے بہت سے تلخ حقائق بیان کئے ہیں وہاں ان لوگوں کے سوالوں کے جوابات بھی دئیے ہیں کہ ہم نے آئین کے تحفظ کی قسم کھائی ہے، عدلیہ کسی پلان کا حصہ ہے اور نہ بنے گی۔

ہر جج قانون اور اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کر رہا ہے ، آپ کے خلاف فیصلہ ہو تو گالیاں نہ دیں۔انصاف میں تاخیر کا سب سے بڑاسبب ججوں پر ہونیوالی تنقید ہے ۔اس سب کے باوجود بھی لوگ عدلیہ کے فیصلوں کو متنازعہ بنا نے سے باز نہ آئے تو کچھ بعید نہیں کہ پوری دنیا میں جہاں ہم پہلے ہی کرپشن، حرام خوری اور قومی خزانے کو ڈکارنے کے حوالے سے مشہور ہیں ، لوگ ہمارے اداروں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع ہو جائیں اور پھر ہمارا بچا ہوا وقار بھی خاک میں مل جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :