انوسٹی گیشن پولیس اور سی۔آر۔او ڈیپارٹمنٹ

بدھ 13 دسمبر 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی انتظامی صلا حیتوں کا میں شروع سے ہی معترف ہوں جس کی وجہ ان کی پیشہ وارانہ مہارت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جب کسی کام کا ارادہ کرتے ہیں تو اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔ میٹرو ٹرین منصوبہ ہو، صحت کے شعبے میں اصلاحات کی کاوشیں ہوں، تعلیم کی ابتر صورتحال کو بہتر بنا نا ہو یا اورنج لائن کی تکمیل ہو، ان تما م منصوبوں میں شہباز شریف دیوانوں کی طرح مصروف عمل دکھائی دئیے اور یہ اسی دیوانہ وار کوششوں کانتیجہ ہے کہ ایسے تما م پروجیکٹس کامیابی کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچے ہیں۔

عوام سے بلواسطہ رابطے میں رہنے والے کئی محکموں میں جاری کرپشن، افسران کی جانب سے حرام خوری اور سستی اور کاہلی کے نظام کو اکھاڑ کر یہاں عوام کا اعتماد بحال کرنے، ایماندار افسروں کی تعیناتی اور عوامی مسائل کو اولین ترجیح دیتے ہوئے انہیں فی الفور حل کرنے کا سہرا بھی انہی کے سر سجتا ہے ۔

(جاری ہے)


قارئین !بالخصوص محکمہ پولیس میں جدید اصلاحات کا آغاز اور اسے دور حاضر کے جدید تقاضوں اور ٹیکنالوجی سے ہمکنار کرنا ، ایسا کام ہے جسکے بہت مثبت نتائج بر آمد ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔

سب سے پہلے پولیس کے آپریشن ونگ میں انقلابی تبدیلیاں لاتے ہوئے صدیوں سے بد تمیزی اور ترش و تلخ لہجے کے روئیوں کو محبت و انکساری میں تبدیل کرنا، پورے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کرتے ہوئے مقدمات میں تاخیر کا سبب بننے والے تما م محرکات کا خاتمہ ،عام آدمی کی افسران تک بغیر سفارش کے رسائی اور اپنے مسائل کے حل کے لئے موبائل ایپلیکشن کا آغاز ، تھانہ کلچر کی تبدیلی کے سالوں پرانے خواب کی تعبیر ہے ۔


لیکن اس کے باوجود پولیس کا انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ وہی روایتی سستی کا شکارتھا۔مقدمات کی تفتیش میں تاخیر اور آئی۔اوزمدعی و ملزم دونوں سے پیسے لینے والی عادت کو چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔ جس کا اظہار میں پولیس کے مختلف افسران اور اپنے کالموں میں کرتا تھا ۔سوشل میڈیا پر انوسٹی گیشن ونگ کی کار کردگی کے ایک اختلافی نوٹ کو دیکھتے ہوئے، کرائم ریکارڈ آفس کے انچارج عمران محبوب نے مجھے انوسٹی گیشن ہیڈ کواٹر آنے کی دعوت دی ۔

چونکہ عمران محبوب سے میری پرانی یاد اللہ ہے اور جس کا سبب ان کی نیک نیتی اور ہر سال اکھٹے گذارے دس ایام ہیں جو اعتکاف کی سعادت حاصل کرتے ہوئے میسر آتے ہیں۔
لہذا اپنی مصروفیات میں سے وقت نکالتے ہوئے ان کے دفتر جا پہنچااور یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ کچھ سال پہلے کہ اور آج کے سی۔آر۔او ڈیپارٹمنٹ( جس کا کام مجرمان کا ڈیٹا محفوظ رکھنا ہوتا ہے) میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔

جس کے لئے ڈی،آئی۔جی انوسٹی گیشن چوہدری سلطان جیسے درویش منش انسان ، ایس ۔ایس۔ پی مبشر میکن جیسے بہادر افسر اور عبدالرحیم شیرازی وایس۔پی سٹی قرار شاہ جیسے نفیس لوگوں کی انتھک محنت اور جہد مسلسل قابل تحسین ہیں۔ پہلے مجرمان کے فنگر پرنٹس، سکیچیز، اس سے متعلقہ معلومات سے صفحات بھرے جاتے تھے اور جو فائلوں کی نظر ہونے کی وجہ سے مٹی اور دھول کی موٹی موٹی تہہ جم جایا کرتی تھی ۔

اب کرائم ریکارڈ آفس کا تما م ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرد یا گیا ہے جہاں ایک ہی وقت میں انوسٹی گیشن افسر کو مجرم کے بارے تما م معلومات ایک کلک پر دستیاب ہیں۔پانچ لاکھ سے زائد کرایہ داروں کے کوائف ،کس تھانے میں کرائم کا کیا ریکارڈ ہے ، زیادہ کرائم ریٹ کن اوقات میں ہے اور اس سے نبٹنے کے لئے کیا حکمت عملی ہونی چاہئیے ؟ یہ سب معلومات ایک سوفٹ وئیر کے ذریعے ڈی۔

آئی۔جی سے لیکر آئی۔او تک کو دستیاب ہیں۔ یہ اسی پیشہ وارانہ صلاحیت کا ثبوت ہے کہ تاریخ میں پہلی دفعہ کرائم ریکارڈ آفس کا عملہ نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے چالیس سے زائد کرمنلز کو گرفتار کرنے میں پیش پیش رہا ہے جس میں زیادہ تر تعداد اغواء برائے تاوان،قتل اور ڈکیتی کے مقدمات کی ہے۔
قارئین محترم !یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہم ایک ملازم کی حرام خوری کی وجہ سے بغیر تصدیق ، کسی ادارے کے بارے اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں اور پھر ہمیں جہاں موقع میسر آتا ہے اس محکمے و ادارے کے خلاف اپنے اپنے الفاظ کے انسا ئیکلو پیڈیا کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت کچھ کہہ جاتے ہیں جن کا حقیقت سے دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا۔

ایسا ہی محکمہ پولیس کا انوسٹی گیشن ونگ ہے جو تبدیلی کے رستے پر گامزن ہے ۔ مجھے امید ہے کہ سلطان چوہدری صاحب کی قیادت میں پولیس کا یہ ونگ بہت جلد خادم اعلیٰ پنجاب کے وژن کے مطابق عوام میں آسا نیاں تقسیم کر نے اور مجرمان کو قانون کے شکنجے میں لانے کے لئے اپنی ذمہ داریاں مزید احسن طور پر اسر انجام دینے کے قابل ہو جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :