انسان اور خدا ۔ آخری قسط

پیر 11 دسمبر 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

انہوں نے کافی کا آخری سپ لیا ،دونوں بازوہوا میں پھیلا کر انگڑائی لی اور بولے ”جدید ذہن کے لیے ما بعد الطبعیات اور جنت و جہنم کے تصور کو قبول کرنا ناممکن ہے ،کسی نہ کسی حد تک دور جدید کامسلم سیکولر ذہن بھی اس بات کا قائل ہے کہ جنت و جہنم کا تصور محض انسان کو اخلاقیات کا پابند بنانے کے لیے تھا۔اس ذہن کوجب بتایا جاتا ہے کہ انسان جو کچھ کرتا ہے فرشتے یہ سب ریکارڈ کر رہے ہیں اور قیامت دن انسان کا نامہ اعمال اس کے سامنے پیش کیا جا ئے گاجس میں اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ محفوظ ہو گا ، اس دن اسے دکھایا جائے گا کہ اس نے اپنی پچاس ساٹھ سالہ زندگی کس طرح گزاری، اس کی زبان گنگ ہو جائے گی اور اس کے اعضاء بول کر اس کے خلاف گواہی دیں گے تو یہ سب باتیں جدید ذہن کے لیے قابل قبول نہیں ۔

(جاری ہے)

لیکن جدید سائنس نے مذہب کی ان تمام باتوں کی نہ صرف تصدیق کر دی ہے بلکہ اس کی عملی صورتیں بھی ہمارے سامنے پیش کر کے ہمیں بے بس کر دیا ہے ۔ “ میں نے وضاحت کے لیے نظریں ان کے چہرے پر گاڑ دیں ، وہ بو لے ”میں اپنی بات کی طرف آنے سے پہلے تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں ، کچھ عرصہ پہلے ہماری یونیورسٹی میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا ، ہم کچھ دوست ڈائریکٹر کے روم میں بیٹھے تھے اتنے میں ایک اسٹوڈنٹ ہڑ بڑاتاہوا کمرے میں داخل ہوا کہ سر میرا بیگ چوری ہو گیا ہے جس میں میرا لیپ ٹاپ، قیمتی ڈاکو منٹس اور کچھ رقم تھی ۔

ہم سب پریشان ہو گئے کیونکہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں اس طرح کا یہ پہلا کیس تھا ، دائریکٹر نے اسے تسلی دی اور باہر جانے کا کہا ،تمام کلاسز میں اعلان کروایا گیاکہ اگر کسی نے غلطی سے یا از راہ مذاق بیگ اٹھایا ہے تو وہ واپس کر دے لیکن کوئی بھی ماننے کے لیے تیار نہیں تھا ۔تھوڑی دیر بعد اسٹوڈنٹ دوبارہ آفس میں آیا کہ سر فلاں اسٹوڈنٹ کے بارے میں شک ہے کہ اس نے میرا بیگ چرایا ہے ۔

اس اسٹوڈنٹ کو بلایا گیا ، ڈائریکٹر نے اسے پیار سے سمجھایا کہ اگر یہ حرکت آپ نے کی ہے تو صاف بتا دو آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا لیکن وہ اسٹوڈنٹ نہ مانا ، اتفاق سے انہی دنوں ڈیپارٹمنٹ میں کیمرے نصب کیئے گئے تھے اور اکثر طلباء کو اس کی خبر نہیں تھی ، ڈائریکٹر کے ذہن میں فور ا آیا کیوں نہ کیمروں کی ریکارڈنگ چیک کی جائے ، ہم سب کنٹرول روم کی طرف بڑھے ،کیمرے کی ہسٹری چیک کی تو معلوم ہو ا کہ بیگ اسی اسٹوڈنٹ نے چوری کیا تھا، اس اسٹوڈنٹ کو دوبارہ آفس میں بلایا گیالیکن وہ نہ مانا ،ڈائریکٹر نے اس کاہاتھ پکڑا اور ہم سب کنٹرول روم کی طرف چل دیئے ، تمام اسٹوڈنٹس بھی ہمارے ساتھ ہو لیئے ، کمرے میں پہنچ کر ڈائریکٹر نے کیمرے کی ہسٹری چلا دی ،اب ہم سب دیکھ رہے تھے کہ وہ اسٹوڈنٹ کس طرح چپکے سے کمرے میں داخل ہوا ، دائیں بائیں دیکھا ، دروازہ بند کیا اور آہستہ سے آگے بڑھ کر بیگ سے لیپ ٹاپ نکال کر اپنے بیگ میں رکھا ، رقم نکال کر جیب میں ڈالی اور بیگ کھڑکی سے باہر پھینک دیا، ہم سب یہ مناظر دیکھ رہے تھے ، جیسے ہی کیمرے نے ہسٹری دکھائی اس اسٹوڈنٹ کے پیروں سے زمین نکل گئی ، اس کی زبان گنگ ہو گئی اور وہ سب اسٹوڈنٹس اور اساتذہ کے سامنے شرمند ہ ہو گیا ۔

“ وہ تھوڑی دیر کے لیے رکے اور دوبارہ بولے ”تم اسے چھوڑو یہ تو پانچ سال پرانا واقعہ ہے میں تمہیں ابھی لائیو اس کا مشاہدہ کرواتا ہوں ۔“ وہ اٹھے اور کمپیوٹر آن کر کے دوبارہ لیٹ گئے ، ماوٴس ان کے ہاتھ میں تھا اور نظریں اسکرین پر، میں بھی ان کے پاس چلا گیا، انہوں نے مجھے اسکرین کی طرف دیکھنے کا اشارہ کیا، میں نے دیکھا اسکرین پر چار کیمرے بیک وقت لائیو تھے ، انہوں نے پہلے کیمرے کی طرف اشارہ کیا اس میں ان کا مالی صحن میں لگے پھولوں کو پانی دے رہا تھا ، انہوں نے دوسرے کیمرے کی طرف اشارہ کیا یہ گھر کے مین دروازے پر لگا تھا اور ہر چیز واضح دکھا رہا تھا ، گلی سے گزرنے والا ہر شخص اس کیمرے کی نظر میں تھا ، انہوں نے باری باری سب کیمروں کا منظر دکھایا اور بولے ” جب تم آئے تھے اور دروازے پر دستک دی تھی تو میں تمہاری ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا ، تم نے کس طرح دستک دی ، دروزے سے کتنا پیچھے ہٹ کر کھڑے ہوئے ، تم نے گھڑی پر ٹائم بھی دیکھا تھااور بیگ سے بھی کوئی چیز نکالی تھی۔

“میں ہکا بکا رہ گیا ، میری زبان گنگ ہو گئی اور میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھنے لگا ۔ وہ بولے ” اب تم اندازہ کرو ایک انسان جو اس قدر عاجز اور کمزور ہے کہ اپنی مرضی سے ایک پتا تک نہیں ہلا سکتا اوراپنی مرضی سے ایک قدم تک نہیں چل سکتا جب وہ اتنی طاقت اور قوت حاصل کر چکا ہے کہ وہ آپ کے ایک ایک منٹ کی ریکارڈنگ کرے تو خدا کے لیے یہ کام کیسے ناممکن ہے ، جو کام انسان اپنے محدود اختیارات کے بنا پر کر سکتا ہے وہی کام اللہ تعالیٰ اپنی لامحدود طاقت اور اختیارات کی بنا پر کیوں نہیں کر سکتا ، جو کام انسان نے چھوٹے پیمانے پر کر دکھایا ہے انسانوں کا خدا یہی کام وسیع پیمانے پر کیوں نہیں کر سکتا ۔

آج میں آپ کو اگلے دس سالوں کے لیے اس کمرے میں قید کر دوں اور ساتھ ہی ایک کیمرہ نصب کر دوں تو آپ کی ان دس سالوں کی ایک ایک حرکت میرے نوٹس میں ہو گی اور میں اگلے چالیس سال بعد بھی اسے دیکھ سکوں گا ، اسی طرح اللہ تعالی بھی آسمانوں پر بیٹھا ہماری ایک ایک حرکت نہ صرف دیکھ رہا ہے بلکہ اسے ریکارڈ بھی کر رہا ہے اور کل قیامت کے دن ہمارے سامنے پیش کر دے گا اور ہم اسے جھٹلا نہیں سکیں گے ۔

اسی طرح جب ہم موبائل، ٹیلی فون یا کسی اور ذریعے سے بات کر رہے ہوتے ہیں تو ہماری آواز متعلقہ اسٹیشن پر نہ صرف ریکارڈ ہو تی ہے بلکہ اسے سنا جا رہا ہوتا ہے ، زبان سے جو لفظ بھی نکلے وہ ریکارڈنگ کا حصہ بن جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ آج کل اکثر تخریب کار اسی ذریعے سے پکڑے جاتے ہیں ، اگر انسان انسانوں کی آواز کو ریکارڈ کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے تو وسیع پیمانے پر یہی کام خدا کے لیے کیسے ناممکن ہے ۔

کافی عرصہ پہلے ایک امریکی ماہر سمعیات نے ایک تحقیق پیش کی تھی جس میں اس نے بتایا تھا کہ ہم جو کچھ بھی بولتے ہیں وہ انسانی کھال کے اوپر بالکل ایسے ہی نقش ہو رہا ہے جیسے ٹیپ ریکارڈر پر ہوتا ہے ، اگر مخصوص آلات کے ذریعے ان لہروں کو حرکت دی جائے تو انہیں بالکل ایسے سنا جا سکتا ہے جیسے ٹیپ ریکارڈر پر سنا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ قرآن جو کہتا ہے کہ قیامت کے دن انسان کی کھال اس کے خلاف گواہی دے گی بالکل سچ اور قطعی ممکن ہے۔

“میں حیرت کے بحرا الکاہل میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا ، وہ سانس لینے کے بعد ددوبارہ گویا ہوئے ” یہ میں نے صرف چند مثالیں دی ہیں ورنہ آپ کوئی بھی جدید سائنسی ایجاد کو دیکھ لیں اس میں آپ کے لیے عبرت کے ہزاروں سامان پوشیدہ ہیں ، میں مغربی تہذیب کو اپنانے کی دعوت نہیں دے رہا بلکہ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس نے یہ کام صرف اور صرف علوم وفنون میں مہارت حاصل کر کے کیا اور آج اگر مسلمان اپنا کھویا ہوامقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی ترجیحات پر غور کرنا ہو گا ۔

“ گفتگو ابھی تشنہ طلب تھی لیکن وقت کافی ہو گیا تھا ، پروفیسر صاحب کی کچھ ذاتی مصروفیات تھیں ، انہوں نے اگلی تاریخ کا وقت دیا اور اٹھ کر چلے گئے ، میں نے بیگ اٹھایا اور دسمبر کی ٹھنڈی راتوں میں یہ سوچتا ہو ا گلیوں میں گم ہو گیا کہ امت مسلمہ کی نشاة ثانیہ کا آغاز کب ہو گا ؟؟؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :