بکھرتا معاشرہ اور ہمارے رویے

پیر 11 دسمبر 2017

Hussain Jan

حُسین جان

زمین کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے جس میں بہت سے لوگ رہتے ہیں تو معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ اس معاشرہ میں مختلف بطقات رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ یہ طبقات آپس میں کسی نہ کسی حوالے سے جڑئے رہتے ہیں۔ رشتہ داریاں ،ہمسایہ گیریاں اور دوست احباب اس کے خاص لوازمات ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ آپس میں لین دین کی وجہ سے ملتے ملاتے ہیں۔ دُکاندار اور گاہک کا بھی رشتہ ہوتا ہے۔

ملازم اور مالکان بھی ایک رشتے کی لڑی ہوتے ہیں۔ سبزی والا ہو یا پھیری والا کسی نہ کسی محلے سے تعلق رکھتا ہے۔ اُستاد اور طلباء کا بھی ایک رشتہ ہوتا ہے۔ مکینک اور چھوٹو بھی ایک دوسرئے کے لیے ضروری ہیں۔ ڈاکٹر مریض بھی ایک دوسرئے کی پہچان رکھتے ہیں۔ صاحب اقتدار اور عوام کا تعلق بھی گہرا ہوتا ہے۔ سرکاری انتظامیہ بھی صارفین سے تعلق بنائے رکھتی ہے۔

(جاری ہے)

ٹھیکے دار مزدور سے واسطہ رکھتا ہے اور مزدور ٹھیکے دار سے۔ آپ کروڑ روپے کی گاڑی کے مالک ہیں تو بھی آپ کا تعلق کسی نہ کسی پنکچر لگانے والے سے ضروری ہے۔ چار کنال کے گھر کے لیے بھی مالی، خانساماں، ڈرائیور اور چوکیدار کے ساتھ ساتھ رنگ و روغن کی لیے ابھی افراد ہی باہمی رابطے کا زریعہ ہوتے ہیں۔ لہذا ہم کہ سکتے ہیں پورا معاشرہ ہی ایک دوسرئے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

اگر مندرجہ بالا تعلقات دیکھیں جائیں تو یوں لگتا ہے جیسے تمام لوگ ایک ہی خاندان کے افراد ہیں اور ایک دوسرئے کے بغیر زندگی بے کار ہے۔
اب آتے ہیں تصویر کے دوسرئے رُخ کی طرف یعنی مطلب کی طرف کہ کس طرح معاشرہ ایک دوسرئے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ مگر یہ تمام معاملات اپنے اپنے مفاد سے وابستہ ہیں۔ مخلصی ناپید ہے اور ہمارئے دیس میں تو یہ کسی حد تک اجنبی بھی۔

بہن بھائی تب تک ہی ساتھ رہتے ہیں جب تک شادیاں نہ ہو جائیں۔ جیسے ہی شادیاں ہونا شروع ہوتی ہیں تو وہی بہن بھائی اور ماں باپ جن کے ساتھ آپ نے زندگی کا خواشگوار ترین حصہ گزارا ہوتا ہے آپ کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں۔ آپ کو بات بات میں پرائیوسی کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب آپ کنوارئے ہوتے ہیں تو اپنی گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ سے بات کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی وقت نکال لیتے ہیں۔

بھرئے پڑے گھر میں بھی داؤ ممکن ہوتا ہے۔ لیکن جیسے ہی زوجہ محترمہ آتی ہے آپ کو تنہائی کی مزید ضرورت پڑتی ہے۔ زیادہ تر لوگ پرائیوسی کا رونا ہی روتے ہیں جبکہ اس پرائیوسی کے لیے فطرتی تور پر رات کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ پھر بھی وہی گھر جو کبھی آپ کو بہت بڑ ا دیکھائی دیتا ہے آپ کو چوٹا لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ بہن بھائی آپ کے لیے بوجھ بن جاتے ہیں۔

پھر آپ کو گھر والوں کی باتیں شور لگتی ہیں۔ جب ماں بہن ، ماسی، پھوپھی کے خلاف باتیں کرتی تھیں آپ ان باتوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ جب یہی باتیں آپ کی بیگم اور اُس کے گھر والوں کی طرف رُخ موڑتی ہیں تو آپ کے لیے بے سکونی شروع ہو جاتی ہے۔ پھر آپ ان رشتے ناتوں سے جان چھڑانے کی سو تاویلیں ڈھونڈتے ہیں ۔ اور جب بچے ہوجاتے ہیں تو ، آپ کو امی، ابو، اور بہن بھائیوں کے ساتھ رہتے ہوئے اپنے بچوں کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔

پھر ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ جسے آپ بکھرتے معاشرئے کا نام بھی دے سکتے ہیں۔
پھر یہ عمل گھر سے باہر نکلتا ہے آپ دُکاندار سے جب کوئی چیز خریدتے ہیں آپ اُس میں سو کیڑے نکالتے ہیں۔کبھی آپ قیمت پر بحث و تکرار کرتے ہیں تو کبھی مٹیریل ناقص ہونے کا رونا روتے ہیں۔ ملازم کہتا ہے مالکان تنخواہ نہ تو وقت پر دیتے ہیں اور نہ ہی پوری دیتے ہیں۔

وہ ہر وقت اُن کے خلاف کسی نہ کسی سازش میں شریک رہتا ہے۔ مالکان ملازموں سے اس وجہ سے تنگ رہتے ہیں کہ وہ کام زیادہ اور ٹھیک نہیں کرتے دوسرا بہت زیادہ تنخواہوں کا تقاضہ کرتے ہیں۔ مالکان کے بس میں ہو تو تنخوان دینے کا مہینہ چالیس دن کا مقرر کردیں۔
پھر سبزی والا اور ماسی کے رشتے کی بات آتی ہے۔ ان میں بعض اوقات بحث اتنی طویل ہوجاتی ہے کہ دوپہر کے کھانے کا وقت گزر جاتا ہے۔

ماسی کہ کہنا ہوتا ہے تم کم تولتے ہو اُوپر سے گلی سڑی سبزیاں دے جاتے ہوں ۔ دھنیا کبھی مفت نہیں دیتے۔ سبزی والا اپنا فلسفہ جھاڑتا ہے کہ دھنیا بہت مہنگا ہو گیا ہے۔ سبزی تو میری اعلیٰ درجے کی ہے آپ کی آنکھوں میں نقص ہے۔
اُستاد اور طلباء کا رشتہ روحانیت کی میراج پر ہوتا ہے۔ لیکن اس میں بھی بکھراؤ کا عنصر شامل ہو چکا ہے۔ آجکل کے اُستاد کلاس میں پڑھانے نہیں وقت گزارنے آتے ہیں۔

اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ جلد از جلد اپنے پیریڈ کا وقت ختم ہو اور وہ دوسرئے اساتذہ کے ساتھ گپ شپ کر سکے۔ طلباء سوا سیر ہیں اُن کی کوشش ہوتی ہے اللہ آج کسی نہ کسی اُستاد کو اپنے پاس بلا لے تاکہ سکول سے چھٹی ہوسکے۔ آج ابو کی گاڑی یا بائیک پنکچر ہو جائے ، بارش آجائے طوفان آجاے۔ بس چھٹی ہونی چاہیے۔ ان کے نزدیک اُستاد وہی اچھا جو باتوں میں وقت ضیاع کرئے۔


مکینک او ر چھوٹو کے اپنے اپنے رونے ہیں چھوٹو کہتا ہے میں سارا سارا دن بس جائے لانے میں ہی گزار دیتا ہوں ، مکینک کہتا ہے اس کا کام میں دل نہیں لگتا یہ سیکھنا ہی نہیں چاہتا ہر وقت کھیل کود میں مگن رہتا ہے۔ پکنچر لگانے والوں کو گاڑی والا حقات سے ٹائرپکڑاتا ہے اور خود ایک طرف ہوکر بیٹھ جاتا ہے۔ مالی ،خانساماں چوکیدار اپنے اپنے چکر میں رہتے ہیں۔

سودا سلف لانے کے لیے جو رقم دی جاتی ہے اُس میں خوردبرد کرنا اپنی فرض سمجھتے ہیں۔
حکمرانوں کی تو کیا ہی بات ۔ یہ عوام کے لیے کبھی کچھ نہیں کرتے بس اپنے اپنے گھر اور بال بچوں کو بھرتے ہیں۔ دوسری طرف عوام سارا سارا دن اپنے حکمرانوں کو کوستی رہتی ہے۔ گھر کا گٹر بھی بند ہو جائے تو کونسلر کی ماں بہن ایک کر دیتے ہیں۔
آخر میں بات آگی رشتہ داری پر ۔

وہ جو بھائی تھے اب شریک ٹھہرائے جاتے ہیں۔ ماسی، پھوپھی، چاچی، تائی ، مامی ، بہنوئی ، سالا، بھانجا، بھانجی، بھتیجا غرض سب کا ایک دوسرئے سے عجیب رویہ ہوتا ہے۔ بڑئے چھوٹوں کو محبت دینے کو تیار نہیں ۔ چھوٹے بڑوں کی عزت کرنے پر راضی نہیں۔ ایک عجیب طرح کا بکھراؤ آچکا ہے ہمارئے معاشرئے میں۔ زندگی کو اتنا محدود کر دیا گیا ہے کہ گھر کی دہلیز سے شروع ہوتی ہے اور گھر کی دہلیز پر ہی ختم ہوجاتی ہے۔

افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ ہمیں اس بکھراؤ کا ادراک نہیں ہم انجانے میں اپنوں کو دور کرتے چلے جارہے ہیں۔ مصروفیت اتنی کہ کسی سے ملنے کا وقت نہیں۔ کسی کی خوشی غمی میں شریک ہونے کے لیے بھی وقت نہیں۔ ہم نے کتابوں میں تو اس معاشرئے کے بارئے میں نہیں پڑھا تھا۔ شائد ہماری قسمت میں یہی معاشرہ دیکھنا لکھا تھا۔ پتا نہیں مزید کتنی دوریا ں پیدا ہونا باقی ہیں ابھی اس معاشرئے کے افراد میں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :