ترکش کا آخری تیر

پیر 11 دسمبر 2017

Ammar Masood

عمار مسعود

چند ماہ پہلے کی بات ہے موٹر وے پر ایک آئل ٹینکر الٹ گیا تھا۔ بہت سے لوگ تماشا دیکھنے کے لئے جمع ہو گئے۔ کچھ لوٹ مار میں لگ گئے۔ سینکڑوں اس منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اچانک کسی نے دیا سلائی سلگائی۔ آنا فانا آگ بھڑک گئی اورپھر نہ کوئی تماشہ دیکھنے والازندہ بچا نہ کوئی لوٹنے والا۔ لمحوں میں سب کچھ راکھ ہو گیا، خاک ہو گیا۔
اس بات کو ماننے میں کوئی باک نہیں ہے کہ خادم رضوی نے جڑواں شہروں میں تن تنہا ریاست، حکومت ، سیاست اور جمہوریت کو شکست دی۔

اس کے لئے انہیں کچھ خاص تردد بھی نہیں کرنا پڑا ۔چند سو لوگ اکھٹے کیئے ۔ جڑواں شہروں کی شہ رگ والی شاہراہ پر قیام کیا اور سارا نظام مفلوج کر دیا۔ان بیس دنوں میں اس مفلوج نظام سے مخاطب ہوتے ہوئے انکی گفتار سے بہت سے لوگ گھائل ہوئے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کبھی نواز شریف کو مرتد قرار دیا کبھی عمران خان کو فرنگی ایجنٹ بنا دیا،کبھی پولیس کو کافر کہا ،کبھی احتجاج نہ کرنے والوں کو مرتد ہونے کا طعنہ دیا۔

دشنام کے ایسے باریک باریک نقطوں کامذہب سے اختلاط پہلے کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ ۔ آٹھ لاکھ لوگ بیس دن تک اذیت میں رہے۔لیکن کسی کی جرات نہیں ہوئی کہ وہ اس دھرنے کے خلاف کوئی بات بھی کر سکے۔ کسی متوقع سانحے کے انتظار میں سارا پاکستان ساکت ،جامد رہا۔ لوگ بھی خاموش تھے سوچ بھی مفلوج تھی۔ دھرنا ختم ہونے سے پہلے ایک پھسپھسا سایکشن ہوا جس میں آٹھ ہزار پولیس والوں کے ساتھ عبرت ناک سلوک ہوا۔

اس ایکشن کے دواران کسی کوکچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کمان کہاں ہے اور محاذ کہاں ہے؟اینٹ کس کو پڑ رہی ہے؟شیلنگ کون کر رہا ہے؟آکسیجن ماسک کس کے پاس ہیں ؟ پتھر کون پھینک رہا ہے ؟ ڈنڈے کون برسا رہا ہے، گالیاں کون کھا رہا ہے؟باقی ماندہ نفری کہاں ہے؟ کمک کے لئے تازہ دستے کہاں ہیں؟ حکم کہاں سے آ رہا ہے؟تعمیل کون کر رہا ہے؟ظالم کون بن رہا ہے ؟ مظلومیت کا قرعہ کس کے نام نکل رہا ہے۔

وزیر داخلہ احسن اقبال نے اس ایکشن کی ذمہ داری نہیں لی ۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے ایکشن کس کے کہنے پر ہوا؟ پسپائی کس کے کہنے پر ہوئی؟مغلوب کون قرار پایا اور فتح کس کی ہوئی؟
اس سارے منظر نامے میں سب بے بس نظر آئے۔ حکومت یر غمال رہی۔ شہری عذاب میں مبتلا رہے۔ پولیس مار کھاتی رہی۔ ریاست کا تماشا اڑتا رہا۔جس دن ایکشن ہوا اس دن پیمرا کی بے بسی پر بہت رونا آیا۔

ٹی وی چینلوں نے اس معرکے کو معرکہ خیر و شر بنا کر پیش کیا۔ کفار اور مومنین کی جنگ بنا کر پیش کیا ، حق و باطل کے محاذکی صورت میں دکھایا۔ چینل جب ریٹنگ کے لئے مذہب کی فروخت شروع کر دیں تو پھر کچھ بھی بعید نہیں رہتا۔ ایک نجی ٹی وی چینل، جس نے اس معرکہ خیر وشر کی کوریج میں ہر حد پار کر لی تو اس کی نشریات کو پیمرا نے روکنے کی گستاخی کر لی۔

پھرفرشتوں کا حکم آیا کہ اس چینل کو فوری کھولیں ورنہ سب چینل بند کر دیں ۔ اس چینل کو کھولنے سے فساد بپا ہونا تھا۔ نفرت بڑھنی تھی۔ آگ لگنی تھی۔ اس لئے سب چینل بند کر دیئے گئے۔ سوشل میڈیا پر پابندی لگ گئی۔ افواہیں ، خبریں بننے لگیں۔ملک بھر میں ہنگامے شروع ہوئے۔ سیاسی قائدین کے گھروں پر ہلہ بولا گیا۔ سرعام مارپیٹ کی گئی۔ سامان لوٹا گیا۔

سڑکوں پر ٹریفک روک لی گئیں۔ ٹائر جلائے گئے،آگ لگا دی گئی۔ ہجوم کو مشتعل کیا گیا۔ایسے میں کچھ ہو جانے کا سہم ساری قوم پر طاری ہونے لگا۔فوج کو طلب کیا گیا مگر انہوں نے معذرت کر لی کہ ہم اپنے لوگوں پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتے۔ پھر ایک معاہدہ ہوا۔ جس میں ثالث اور گواہان سقوط اسلام آباد کی تاریخ کا حصہ ہوگئے۔
اس ہنگامے کے موقوف ہونے کے بعد ہمیں احساس تک نہ ہوا کہ یہ پاکستان اب وہ نہیں رہا جو دھرنے سے پہلے تھا۔

یہ لوگ وہ نہیں رہے۔
یہ دھرتی وہ نہیں رہی۔ یہ سماج بدل گیا ہے ۔ اس ایک دھرنے سے ہماری اقدار بدل گئی ہیں۔ سوچ بدل گئی ہے۔ ذہن بدل گیا ہے۔اب ستانوے فیصد مسلم آبادی والے ملک میں ہر شخص کفر کے فتوے سے خوفزدہ ہے۔اقلیتوں کے تحفظ کا معاملہ تو بہت دور ہے، اب مسلمان مسلمان کی آزمائش کر رہاہے۔اب کچھ بعید نہیں ہر چوک پر آپ سے کلمہ سننے کی فرمائش ہو۔

اب کچھ بعید نہیں ہر جگہ آپ کے ایمان کا امتحان لیاجائے۔ اب کچھ بعید نہیں ہر جگہ آپ کے مسلمان ہونے کی تصدیق کروائی جائے۔ اب دین کا معاملہ بندے اور خدا کے درمیاں نہیں رہا۔ اب اس میں ایک خادم کا چہرہ بھی ابھر رہا ہے۔ جو کفر کے فتوے کا چابک ہاتھ میں لئے گھوم رہا ہے۔ ذرا کسی نے نگاہ اٹھائی تو مرتد ہونے کا فتوی پیٹھ میں ٹھونک دیا گیا۔
اب مجھے آج کا سماج ، آج کی ثقافت ، آج کی سیاست اور آج کی جمہوریت خادم رضوی کے رنگ میں رنگی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

مجھے احسن اقبال کی بے بسی میں خادم حسین مسکراتا نظر آتا ہے۔ مجھے اعتزاز احسن کی خاموشی میں خادم حسین نظر آتا ہے۔ مجھے رانا ثنا اللہ سے دوبارہ کلمہ سننے کی فرمائش میں خادم حسین نظرآتا ہے۔مجھے اسمبلی اور پارلیمنٹ کا ایک متفقہ قانون پاس کرنے کے بعد مکر جانیکی سازش میں خادم حسین نظر آتا ہے۔ مجھے زاہد حامد کے استعفی کی عبارت کے ایک ایک لفظ میں خادم حسین نظرآتا ہے۔

مجھے شہباز شریف کی وزیر قانون کو سزا دینے والی تقریر میں خادم حسین نظر آتا ہے۔۔ مجھے ڈاکٹر اشرف آصف علی جلالی کے جواب الدعوی میں خادم حسین ہی نظر آتا ہے۔مجھے ضعیم قادری والی وڈیو میں خادم حسین پیر صاحب کے سرہانے مور چھل جھلتا دکھائی دیتا ہے۔مجھے جاوید لطیف کے کان سے بہتے خون میں خادم حسین کی بربریت دکھائی دیتی ہے۔مجھے پولیس والوں پر برستے ڈنڈوں میں خادم حسین کی قوت ایمانی دکھائی دیتی ہے۔

مجھے مظاہرین میں ایک ایک ہزار کے نوٹ تقسیم کرنے میں خادم حسین کی دانش دکھائی دیتی ہے۔یہی نہیں برسوں سے پنپنے والی اس سوچ کے نتیجے میں اب تومجھے عمران خان کے ہذیان میں خادم حسین نظر آتا ہے۔مجھے نواز شریف کی برطرفی میں خادم حسین نظر آتا ہے۔مجھے جے آئی ٹی میں خادم حسین کا تکبر نظر آتا ہے۔مجھے وٹس ایپ کالز میں خادم حسین کی چاپلوسی نظرآتی ہے ۔

مجھے رینٹ اے انقلاب والے طاہر القادری کی ہر دلیل میں خادم حسین نظر آتا ہے۔ مجھے جماعت اسلامی کی امریکہ کو للکار میں خادم حسین نطر آتا ہے۔ مجھے جاں بحق ، ہلاک اور شہید کی بحث میں خادم حسین نظر آتا ہے۔مجھے حج اور عمرے کے موقعے پر حرم شریف میں کھینچی گئی سیلفیوں میں خادم حسین نظرآتا ہے۔ مجھے فیس بک کے سٹیٹس ، ٹوئیٹر کے ٹوئیٹس ، ٹاک شوز کی گفتار اور اسمبلی کے ہر اجلاس میں خادم حسین نظر آتا ہے۔


گذشتہ چار سالوں میں جمہوریت پر تین دھرنے مسلط کیئے گئے۔ تین حملے کیئے گئے۔ ہر دھرنے کے منظر اور پس منظر میں لوگ اور مقاصد مختلف تھے۔ تیسرا اور آخری حملہ خادم حسین کا تھا۔ یہ خود کش نسل کا حملہ تھا۔ اس میں حملہ کروانے والے بھی راکھ ہو جاتے ہیں۔جس نے بھی یہ مذہبی منافرت کی آگ لگائی ہے اب اس کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ اب نواز شریف کو شکست دینے کے لئے ترپ کا پتہ تو چل دیا گیا ۔

مسئلہ یہ ہے کہ اب کوئی اور چال باقی نہیں ہے۔ترکش میں موجود آخری تیر اب کمان سے نکل چکا ہے۔اب جمہوریت کے ساتھ ریاست کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا۔ اب اس آگ میں کوئی بھی جل سکتا ہے۔اب نہ کوئی دفتر محفوظ ہے نہ کوئی گھر محفوظ ہے ۔نہ کوئی صاحب علم محفوظ ہے نہ کوئی صاحب خرد محفوظ ہے۔سب سے زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ اب نہ کوئی منظر محفوظ ہے نہ کوئی پس منظر محفوظ ہے۔


یہ اسی طرح کی صورت حال ہے جیسے چند ماہ پہلے کی بات ہے موٹر وے پر ایک آئل ٹینکر الٹ گیا تھا۔ بہت سے لوگ تماشا دیکھنے کے لئے جمع ہو گئے۔ کچھ لوٹ مار میں لگ گئے۔ سینکڑوں لوگ اس منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اچانک کسی نے دیا سلائی سلگائی۔ آنا فانا آگ بھڑک اٹھی تھی اور پھرنہ کوئی تماشہ دیکھنے والازندہ بچا نہ کوئی لوٹنے والا۔ لمحوں میں سب کچھ راکھ ہو گیا، خاک ہو گیا۔
پاکستان کی اس موجودہ صورت حال پر شعر سنیئے
اب تو بارود کا اک ڈھیر بنی ہے دنیا
اب تو باقی ہے فقط ایک دھماکہ ہونا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :