عدم برداشت کا کلچر:معاشرے کے لئے زہر قاتل

پیر 4 دسمبر 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

عدم برادشت کا کلچر بڑی تیزی سے ہمارے معاشرے میں سرایت کر تا جا رہا ہے اور جس کی وجہ سے آئے روز ایسے سانحات رونما ہوتے ہیں کہ جنہیں دیکھنے اور سننے کے بعد روح کانپ اٹھتی ہے۔معاشروں کو تباہی کے رستے پر گامزن کر دینے والی بیماری نے پچھلے کچھ سالوں میں اس قدر نشونما پائی ہے کہ جس کی بدولت اس کی جڑیں اس قدت تن آور ہو چکی ہیں کہ اگر اب بھی ہم نے بطور قوم اس بارے سنجیدگی سے غور نہ کیا تو اس کی شدت کا اندازہ لگاتے ہوئے یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں یہ بڑی تباہی کا باعث بن سکتی ہے ۔


ایسے خوفناک حالات میں جہاں یہ ضرورت سمجھی جارہی تھی کہ بالخصوص مسجدوں کے منبروں سے اس بیماری کے خلاف آواز حق بلند ہوتی، اس سے نبٹنے کے لئے طریقہ کار وضع کیا جاتااورلوگوں میں ایک دوسرے کے بارے میں برداشت پیدا کر نے کی تحریک پیدا کی جاتی وہاں عدم برداشت کے ا س ناسور کے حوالے سے کوئی سنجیدہ اقدام نہ اٹھایا جا سکا ۔

(جاری ہے)

حالیہ دنوں میں مذہبی جماعتوں کے دھر نے کے دوران عام لوگوں کا رستہ روکنے، ایمبولینس کو رستہ نہ دینے اور انہی وجوہات پر لوگوں کے ساتھ دست و گریباں ہونے کے کئی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ مذہبی حلقوں میں بھی عدم برداشت کا عنصر بڑی تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے اور ظلم تو یہ ہے کہ کئی لوگ لا علمی میں اور کچھ جان بوجھ کر اپنی گفتگو کے ذریعے اس سلگتے لاوے کو مزید تقویت پہنچانے میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔


قارئین کرام !افسوس کی بات تو یہ ہے کہ حکمرانوں ، دانشوروں ، علما، اساتذہ اور اہل فکر سمیت تما م لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے ، عدم برداشت کے نتیجے میں وقوع ہونے والی تباہیوں کو دیکھتے ہوئے بھی کوئی لائحہ عمل تشکیل نہیں دے پارہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کلچر معاشرے کے عام لوگوں کو بڑی تیزی کے ساتھ اپنے زیر اثر کر رہا ہے اور تباہی و بر بادی کی ایسی ایسی داستانیں رقم کر ہا ہے جو ہمارے معاشرے کو پتھر کے زمانے کی جانب دھکیلنے میں پوری قوت کے ساتھ کا ر فر ما ہیں ۔

ولی خان یو نیورسٹی کے مشعال خان کا لرزہ خیز قتل کسے یاد نہیں؟ چند لوگ جمع ہوتے ہیں ، ایک نوجوان پر گستاخی کا الزام لگایا جا تا ہے اور یوں کچھ ہی لمحوں میں بغیر تصدیق کئے ، لوگوں کا ہجوم اسے اپنے غیظ و غضب کا نشانہ بنانا شروع ہو جا تا ہے ۔ ایک ماں سے اس کا لخت جگر ، باپ سے اس کی مستقبل کی آس اور بہن سے اس کا بھائی چھیننے کے بعد تصدیق ہوتی ہے کہ وہ تو ایسے کس عمل کا حصہ تو دور کی بات ،اسفل سافلین جن کا مقدر لکھ دی گئی ہے ایسے بد کار لوگوں سے وہ سخت نفرت کا اظہار کیا کرتا تھا۔


قارئین کرام !حالیہ دودنوں میں رونما ہونے والے دو ایسے ہی واقعات ہمارے معاشرے کی تباہی کا منظر پیش کر رہے ہیں کہ کس طرح اس غلیظ کلچر نے ہمارے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے ۔ دنیا میں ماں کی ممتا کو یہ مقام حاصل ہے کہ جب بھی محبت کی کوئی مثال دینی ہو تو وہ ماں کی اپنے بچوں کے ساتھ محبت کی دی جاتی ہے۔ لیکن حافظ آباد میں شوہر سے معمولی جھگڑے کی وجہ سے ماں کی ممتا بھی عدم برداشت کے ناسور کے ہاتھوں یر غمال بن کر مر گئی اور یوں اس نے اپنے تین کمسن بچوں6، سالہ زہرہ 4،سالہ فیضان اور 2، سالہ احمد کو تیز دھار آلے سے قتل کر کے ان کے معصوم لاشوں کو پانی کی بے رحم لہروں کے سپرد کر دیا۔

دوسرا واقعہ لاہور کے علاقے نواب ٹاؤن میں پیش آیا جہاں کچھ ہزار کے معمولی سے موبائل فون پر تنازع پیدا ہوا اور جس کے نتیجے میں دو بھائیوں نے 19سالہ نوجوان پر پٹرول چھڑک کر آگ لگادی ۔
قارئین محترم! یہ دونوں واقعات چیخ چیخ کر ہمیں اپنی جانب متوجہ کر رہے ہیں کہ اگر ہم نے معاشرے کو عدم برداشت کی جانب لے جانے والے عوامل کے آگے بند نہ باندھا تو کچھ بعید نہیں کہ معاشروں کو تباہی و بر بادی کی بے رحم موجوں کے سپرد کر دینے والا سیلاب ، ہمارے شہروں، محلوں اور گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور پھر ہمارے حکمرانوں ، دانشوروں اور علماؤں کے پاس وقت نہ رہے اور وہ قوم کو تباہ ہوتے ہوئے ، اس بات پر پشیماں ہوتے دکھائی دیں کہ کاش! ہم نے عدم برداشت کے خاتمے کے لئے اپنا کوئی کردار اداء کیا ہوتا ۔

لیکن اس دن انکے پاس صرف پچھتاوے کے اور کئی شے باقی نہ رہے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :