پی پی پی گولڈن جوبلی :نظریاتی انحطاط کے 50سال

جمعہ 1 دسمبر 2017

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

پاکستان پیپلزپارٹی بنے ہوئے پچاس سال مکمل ہورہے ہیں۔ اسی مناسبت سے پارٹی قیادت گولڈن جوبلی تاسیسی جشن منارہی ہے۔ پارٹی قیادت نے اپنے کارکنوں کو 30نومبرکوپارٹی پرچم لہرانے کی ہدائت کرتے ہوئے تلقین کی ہے کہ وہ اس دن کی افادیت اور اہمیت کو پورے جوش وجذبے سے محسوس کریں۔پیغام میں کہا گیا ہے کہ تمام صوبوں،کشمیر،گلگت و بلتستان کے تمام ضلعی ہیڈکوارٹرز پرپارٹی پروگرام کئے جائیں ‘جہاں پارٹی کے مشن کو عزم،اعتماداور وفاداری کے ساتھ فروغ دینے کیلئے تجدید عہد کریں۔

اگر کوئی شخص ایک ٹکٹ پر کئی مزے لینے میں دلچسپی رکھتا ہے توالگ بات ہے مگر ہلکی سی سوچ بچار کاحامل سیاسی کارکن سوچ سکتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے موجودہ قیادت کی لفظ ’مشن ‘ سے دراصل مراد ہے کیا؟ اگر زیادہ باریک بینی سے نا بھی دیکھا جائے تو پھر بھی پاکستان پیپلز پارٹی بنانے والی قیادت کا مشن بالکل واضع تھا ۔

(جاری ہے)

اس مشن کو انہوں نے تاسیسی میٹنگ میں تحریری شکل میں پیش کرکے اسکی منظوری حاصل کی تھی، پھر اسی پروگرام کی بنیاد پر انہوں نے پارٹی کی بنیاد رکھ کر پاکستان کے کروڑوں محنت کشوں، مزدوروں اور کسانوں کو پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔

اس تاسیسی پروگرام پر ایک ہی وقت میں د وردعمل پیدا ہوئے تھے۔ایک ردعمل اس وقت کے حکمران طبقے ،سرمایہ داروں،جاگیرداروں اور برسراقتدار جرنیلوں اور انکے حلیفوں کاتھا ،جنہوں نے پی پی کے پروگرام کو تمسخرکا نشانہ بنا کر مسترد کردیا تھا۔ دوسرا ردعمل بہت ہی معنی خیز اور تاریخ میں بہت ہی دوررس نتائج مرتب کرنے والا تھا،یہ محنت کش طبقے کی مختلف پرتوں کی طرف سے پاکستان پیپلز پارٹی کے تاسیسی پروگرام پر اسمیں شمولیت کی صورت میں تھا۔

پی پی کا تاسیسی پروگرام بلاشبہ اس وقت ایک انقلابی اور طبقاتی پروگرام تھا جس کے مقاصد غیرمبہم طور پر سرمایہ داری کاخاتمہ اور سوشلزم کے ذریعے غیر طبقاتی معاشرے کی تشکیل تھی۔اس
تاسیسی پروگرام میں روٹی کپڑااورمکان کے نعرے کی عملی تعبیرکیلئے ایک مکمل لائحہ عمل دیا گیا تھا۔ صنعتوں کوقومی تحویل ،جاگیروں کی ضبطی کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ معیشت کی جگہ پر سوشلسٹ معیشت کا قیام ،سامراجی اطاعت گزاری کی جگہ پر غیرجانبدارانہ پالیسی، اسی طرح فوج کی جگہ پر عوامی ملیشاکاقیام ۔

ان نکات کو اس تاسیسی پروگرام کے‘ جو پچاس سال پہلے لاہور کے گلبرگ کے علاقے مین بلیوارڈ میں ڈاکٹر مبشرحسن خاں کے گھر ہونے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے اس اجلاس میں مندوبین نے متفقہ طور پر پاس کیا تھا ،جن کی گولڈن جوبلی منائی جارہی ہے۔ اگر پاکستان پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت ‘اسی پارٹی اور اسکے تاسیسی پروگرام کی گولڈن جوبلی منارہی ہے تو سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا تاسیسی پروگرام کی سالگرہ منائی جارہی ہے یا برسی منعقد کی جارہی ہے؟ اس سوال کی پیدائش کے پیچھے پیپلزپارٹی اوراسکی قیادت کی سنتالیس سال کی زوال پزیری اور نظریاتی انحطاط کی تاریخ ہے۔

پارٹیاں عہد سے مطابقت رکھنے والے مسائل اور کرنٹ ایشوز کے مطابق اپنا انتخابی منشور کی تو ہر الیکشن سے قبل تجدید کرسکتیں ہیں مگر کوئی بھی پارٹی اپنے بننے کے مقاصدکو بعدازاں تبدیل نہیں کرسکتی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے موجودہ نظریات،فلسفے اور سیاست کے مقاصد اور اور اسکوبنانے کے مقاصد میں کسی طورتال میل موجود نہیں ہے۔ تب پارٹی بنانے کا مقصد مزدوروں،کسانوں اور محنت کشوں کے مفادات کا تحفظ طے کیاگیا تھا مگر اب پارٹی کے اول تا آخر مقاصدسرمایہ داروں،جاگیرداروں،ٹھیکے داروں اور طبقہ امراء کے مقاصد کاحصول ہے اور محنت کش طبقے کے مفادات کو خال خال صرف نعرہ بازی کی حد تک محدود کردیا گیا ہے عملاََ محنت کش طبقے کے خلاف ہروہ قدم اٹھایا جاتا ہے جو عالمی سامراجی ادارے پیپلز پارٹی کی قیادت کو تفویض کرتے ہیں۔

تب پیپلز پارٹی بنانے کا مقصد طبقات سے پاک کی تشکیل قراردیا گیا تھا جوپارٹی کی اجتماعی قیادت کے مطابق صرف سوشلزم کے تحت ہی ممکن تھا۔ اب پیپلز پارٹی نا صرف سماج کو طبقات سے پاک کرنے سے منحرف ہوچکی ہے بلکہ وہ پیپلز پارٹی کوبھی ایک طبقے کی نمائندہ پارٹی کی بجائے ملٹی کلاس پارٹی کہتے ہوئے‘ طبقہ امراء کو قیادت کے مرتبے پر فائزکرنے کیلئے استعمال کرتی ہے۔

تب تمام کلیدی صنعتی اداروں،بنکوں،انشورنس کمپنیوں اوردیگراداروں کوقومیانے کی بات کی جاتی تھی۔ اب نجکاری اور اسکی مختلف شکلوں کو پیپلز پارٹی متعارف کرانے کا سہرا اپنے سرباندھتی نظر آتی ہے۔تب جاگیروں کی ضبطی اورمشترکہ فارمنگ کاعہد کیا گیا تھامگربعدازں جعلی قسم کی زرعی اصلاحات کرکے دیہی اشرافیہ کو اورزیادہ مضبوط بنادیاگیا۔

تب علاج معالجے اورتعلیم کی تجارت ممنوع قراردی گئی تھی اور ان بنیادی سہولیات پر ہر شہری کابرابر،ایک جیسا اور مفت حق قراردیا گیاتھا۔ اب تعلیم کی مفت،ایک جیسی اور لازمی فراہمی کی اولین پیپلز پارٹی کی پالیسی کو ایک سنگین غلطی قراردے دیا گیا ہے، اسی طرح غریبوں کے مفت علاج معالجے کے سرکاری اداروں کو نجی تحویل میں دیا جانا موجودہ پالیسی ہے اور اس پر پورے جوش وجذبے سے عمل درآمد کیا جارہا ہے۔

تب روزگار کی فراہمی ریاست کا بنیادی فریضہ قراردیا گیا تھا ۔اب روزگار پر موجود لوگوں کو کنٹریکٹ ، ٹھیکے داری، دیہاڑی داری،عارضی ملازمتوں کی عالمی سامراجی پالیسی کوپارٹی پالیسی بنا لیا گیا ہے۔ تب تاسیسی پروگرام میں چند خاندانوں میں مرتکز شدہ دولت کی ضبطی اور اس ضبط دولت کوعوامی دھارے میں پھیلانے کاعہد کیا گیا تھا ۔اب دولت کے ارتکازکی مالیاتی پالیسی کی پاسداری پیپلزپارٹی کی قیادت اور پارٹی پالیسی کانصب العین بن چکی ہے۔

تب تاسیسی پروگرام میں جگہ جگہ اوربارہا سامراجی جھکڑبندی کے خلاف شدیدجذبات کااظہار کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ جبرکے خلاف مذاحمت کو پارٹی کاکلیدی نکتہ بنایا گیاتھا۔ مگراب پارٹی سامراجی پالیسیوں کاڈاک خانہ بن چکی ہے ،اقتدارکے حصول کیلئے حاوی سامراجی طاقتوں پرتکیہ کیاجاتاہے اور پھر اقتدار میں آکر انکے طے کردہ فارمولوں،قوانین،جبراور استحصال کے ضابطوں کو لاگو کیا جاتا ہے، سامراجی پراکسیوں کیلئے ایندھن فراہم کیا جاتا ہے، سامراج کے حکم پر طالبان تشکیل دیئے جاتے ہیں اور سامراجی جنگوں کو اپنی جنگ قراردیا جاتا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی بناتے ہوئے اقوام عالم کی مظلوم قوموں کے ساتھ ملک کر استعمار کاراستہ روکنا طے کیا گیا تھا ۔ مگراب استعمار ی جارحیت کی تائید پارٹی کی حکمت عملی کا کلیدی قانون بن چکا ہے۔پیپلز پارٹی جن خطوط پر تشکیل دی گئی تھی ،ان سے بوکھلا کر ملائیت نے اس کوکافروں کی جماعت قراردے دیا تھا،لوگوں کوپیپلزپارٹی میں جانے سے روکنے کیلئے اسکا رکن بننے والے کو کافر کہہ کر اسکے نکاح کو بھی فسخ قراردے دیاگیا تھا،مگرلوگوں نے 1332ملاؤں کے مشترکہ اورمتفقہ فتووں کو مسترد کرکے فتوے کے مطابق’کفر‘ کاراستہ اختیار کیا۔

مگربعدازاں پارٹی نے ترقی پسندی اور جدت کاراستہ ترک کرکے ملاؤں کی راہ پر چلنا شروع کردیا،ملک کاآئین عوامی، انقلابی بنانے کی بجائے ملاؤں کی تراکیب اور تجاویز پر دقیانوسی بنیادوں پر استوار کرنے سے بھی گریز نا کیا گیا حتہ کہ ملک کے نام پر بھی غیر موجود مذہبی لاحقے کو لاگو کردیا گیا،بعدازاں درجنوں اقدامات سے ملائیت کوگہرا کرنے کے راستے استوار کئے گئے ،اور اب تو یہ عالم ہے کہ پارٹی کی مختلف شاخیں لبیک یارسول اللہ نامی مشکوک تنظیم کے ہاتھوں بیعت کرتی،اسکے قائدین کے تصاویر والے بل بورڈز پارٹی پرچموں اور ناموں سے لگواتے پائے جارہے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی 30نومبر اوریکم دسمبرکو سوشلسٹ فلسفے،اشتراکی معاشی پروگرام اور انقلابی سیاسی پروگرام پر تشکیل دی گئی تھی، جس کا مقصد پاکستان سے سرمایہ داری ،جاگیر داری،ملائیت،جرنیل شاہی،امیراورغریب کے تفریق پر مبنی غیر ہموار سماج کو بد ل کر ایک سوشلسٹ پاکستان کی بنیاد رکھنا تھا۔ جس میں ذاتی ملکیت کاخاتمہ کرتے ہوئے ایک اشتراکی بنیادوں پر پیداواراورتقسیم دولت کے نظام وضع کرنا تھا۔

سینکڑوں سالوں کے ظلم وستم،جبرواستعبداد اوراستحصال کا خاتمہ پارٹی کا مطمع نظرتھا۔تب تاسیسی نظریات اور پروگرام پر پاکستان پیپلز پارٹی اس ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی تھی اور محنت کشوں نے اپنی ساری طاقت پارٹی کے ساتھ منسلک کردی تھی،مگراب والے تمام اقدامات نے ساری کامیابیوں کو ناکامیوں میں بدل کر پیپلزپارٹی کومحدود سے محدود ترکرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے،محنت کش طبقہ پارٹی سے ناطہ توڑے جارہا ہے اور قربانیاں دینے والے کارکنوں کی جگہ پر عہدے اور ٹکٹوں کے متلاشیوں کے مطلبی چہرے دکھائی دیتے ہیں۔

اب والی پارٹی میں ایسی کوئی بھی خصوصیت ہے اور نا ہی اسکا کوئی پروگرام ہے کہ وہ ’تاسیسی عزائم‘ کو خود پر لاگو کرسکے،پھر سوال پیدا ہوتاہے کہ یہ تاسیسی پروگرام کی گولڈن جوبلی کیوں کرمنائی جارہی ہے اورتجدید عہد کس پروگرام کاکرایا جارہا ہے ؟تاسیسی پروگرام پر تجدید عہد کی ضروت کارکنان اور نچلے درجے کے عہدے داران کو نہیں ہے۔ اگر تجدید عہد کرنا ہی ہے تو پھر’یوم تاسیس کی گولڈن جوبلی‘ کے 5دسمبر کے پریڈ گراؤنڈ میں ہونے والے مرکزی پروگرام میں موجود مرکزی قیادت کو سب سے پہلے اپنے موجودہ سرمایہ دارانہ ،سامراجی اطاعت پر مبنی نظریات سے توبہ تائب ہونا پڑے گا، منڈی کی معیشت پر ایمان سے منحرف ہونے کا اعلان کرنا پڑے گا۔

عوام اور پارٹی کے خلاف اپنی غلطیوں اورجرائم کااعتراف کرکے معافی مانگنا ہوگی۔منافع اور شرح منافع اور ذاتی ملکیت کے نظام سے ترک تعلق کرتے ہوئے تاسیسی پروگرام میں بتائی ہوئی سوشلسٹ معیشت کو اختیار کرنے کی تجدید کرنا ہوگی۔پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے اگر پچاس سال پہلے والے انقلابی،اشتراکی اورسوشلسٹ نظریات پر مبنی تاسیسی پروگرام کی گولڈن جوبلی منانا ہے تو پھر اسکو سرمایہ داری کی ہر شکل کے خلاف جنگ کا اعلان کرناہوگااورعوام کی نجات کیلئے پارٹی کو ملٹی کلاس کی بجائے ‘محنت کش طبقے کے مفادات کی پاسدار قراردینا ہوگا اوراسکاعملی ثبوت دینے کیلئے پارٹی قیادت میں موجود مزدوراورکسان دشمن عناصر کونکال انکی جگہ پر محنت کش طبقے کے نمائندگان کولانا ہوگا۔

اگر ایسا نہیں کیا جاتاتوپاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کو‘ تاسیسی پروگرام‘ کی گولڈن جوبلی کے عنوان کی بجائے ،نظریات سے انحراف وغداری اور عملیت پسندی کی تجدیدنو جیسے عنوانات اور موضوعات پر عزم،اعتماد اوروفاداری کا تقاضا کرنا چاہئے۔بہت ہوچکاہے‘ پارٹی قیادت کو ایک ٹکٹ میں دوشوچلانے کامذاق اب بند کرنا چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :