حکمران، سازشی ٹولے کے چُنگل سے آزاد ہوں

بدھ 29 نومبر 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ان حالات میں جب داخلی اور خارجی سطح پر پاکستان انتہائی مشکل ترین حالات سے گذر رہا ہے ، بے یقینی اور افرا تفری کی فضا ء مزید تباہی کا باعث بن رہی ہے ۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق پاکستان کی معیشت اس وقت شدیدمشکلات و خطرات میں گھری ہوئی ہے جس کی وجہ سے تجارتی خسارے میں روز بروز اضافہ ہو تا جا رہا ہے ۔ موجودہ حکومت کے دور میں تجارتی خسارہ 108ارب ڈالر کی خوفناک حد تک پہنچ چکا ہے اور سب اچھا ہے کی رپورٹ دیتے، اسے مصنوعی طریقے سے پورا کرتے ہوئے بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات سے پورا کیا جا رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ قرضے بے تحا شہ بڑ ھ رہے ہیں اور رواں سال معیشت کی شرح نموکا ہدف بھی حاصل نہ ہو پایا۔جس کے نتیجے میں اس سال پاکستان کے تجارتی خسارے میں اضافہ ہو گا ، مہنگائی بڑھے گی اور روپے کی قدر مزید دباؤ کا شکار رہے گی۔

(جاری ہے)

زرمبادلہ کے ذخائر کا یہ حال ہے کہ صرف ایک سال کے دوران5.4ارب ڈالر گر چکے ہیں جس کی وجہ سے معیشت کو کسی بھی وقت جھٹکا لگ سکتا ہے ۔


جبکہ دوسری جانب بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے ۔ بلوچ لبریشن آرمی نے حال ہی میں ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں انہوں نے اغواء کئے گئے پنجاب کے مختلف علاقوں کے لوگوں کو دکھایا ہے ۔ ذرائع کیجانب سے یہ خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر ان مغویوں کا سراغ نہ ملا تو کچھ روز قبل بے دردی کے ساتھ قتل کئے جانے والے معصوموں اور بے گناہوں کی المناک موت کا مزید ایک اور واقعہ رونما ہو سکتا ہے ۔

کوئٹہ میں سریاب روڈ پر ایف۔سی کمانڈر کی گاڑی پر خود کش حملہ اور اس کے نتیجے میں خاتون سمیت پانچ افراد کی شہادت اور خواتین، بچوں سمیت 26افراد کا شدید زخمی ہونا ، انہی دہشت گردانہ کاروائیوں کا حصہ ہیں ۔ پشاور میں خود کش حملے میں شہید ہونے والے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل محمد اشرف نور کی شہادت بھی دشمن کا ایک ایسا وار ہے جس میں وہ اپنے آپ کوپہلے سے زیادہ طاقتور ثابت کر نا چاہتا ہے ۔


قارئین ! ایسے سنگین حالات میں جب ہمارے حکمرانوں کو معاشی اور معاشرتی دہشت گردی سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت تھی اور فی الفور کوئی ایسی جامع پالسیی تشکیل دے کر دوبارہ سے سر اٹھاتے ان دونوں ناسوروں کے خلاف ایکشن لیا جانا چاہئے تھا وہاں دھرنا مظاہرین کے ہاتھوں یر غمال بن کر پورے 20دن شہر اقتدار کو مفلوج بنا دیا گیا اور پھر بیس دن بعد اچانک بغیر کسی تیاری کے دھرنا مظاہرین پر ہلہ بول دیا گیا ۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سب سے پہلے تو انٹیلی جنس رپورٹ حاصل کرنی چاہئے تھی جس سے یہ معلوم ہوتا کہ اگر آپریشن کے ذریعے مظاہرین کو اٹھایا جائے تو اس کے رد عمل میں پورے ملک کی صورتحال کیسی ہو گی ؟ پھر آہستہ آہستہ پولیس، رینجرز اور ایف۔سی کے دستے تعینات کئے جاتے ،19دن انتظار کر نے کی بجائے پہلے دن ہی فوج کو طلب کر نا چاہئے تھا، دھرنے کے آس پاس کے رستے بند کئے جاتے ، دھرنا قائدین سے مذاکرات کی کو شش کی جاتی لیکن حکمرانوں کو تباہی کی جانب لے جانے والے ان کی صفوں میں موجود سازشی ٹولے نے اپنے مفادات کی خاطر ایسے مشورے دئیے جو حالات کو مزید بگاڑ کی جانب لے گئے اور یوں اس موقع پر بھی انتظامیہ کی جانب سے کئی ایسے معا ملات دیکھنے کو ملے جس کی وجہ سے حالات بہتر ہونے کی بجائے ہاتھ سے نکلنا شروع ہو گئے ۔

افسروں اور ماتحتوں کے درمیان رابطوں کا شدید فقدان نظر آیا اور آئی۔جی اسلام آباد خود کہیں بھی اپنے ملازمین کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آئے جس کی وجہ سے ملازمین کا مورال پست ہوا اور جہاں پہلے ہی بغیر کسی منظم پلاننگ کے ساتھ کاروائی کا آغاز کیا گیا وہاں حالات، حکومت کے بس سے باہر ہوتے چلے گئے اور بالآخر دھرنوں کا سلسلہ پورے ملک میں پھیل گیا۔


قارئین کرام!ان دو دنوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق معیشت کو 50ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ۔پاکستانی میڈیا کی زبان بھی بند کر دی گئی جس کی وجہ سے لوگوں میں خوف وہراس پھیلا اور جسے غیر ملکی میڈیا بالخصوص بھاری میڈیا مرچ مصالحے لگا کر نشر کرتا رہا ۔بالآخر سنگین ہوتے حالات جب حکومت کے ہاتھوں نکل گئے تو آرمی چیف کے مشوروں نے کام دکھایا جس کے نتیجے میں معاملات کنٹرول ہونا شروع ہوئے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق حکومت اور مظاہرین میں معاملات طے پاگئے ہیں۔


قارئین محترم! حکمرانوں کو یہ بات تسلیم کر نا ہو گی کہ وہ چند نا اہل اور بے ضمیر قسم کے سازشی ٹولے کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں اور ان کے مشوروں پر عمل کر کے معاشی اورمعا شرتی دونوں میدانوں میں نقصان اٹھا رہے ہیں ۔ حالیہ واقعہ میں بھی ان کی اسی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کیا ہی اچھا ہو تا کہ 20روز بعد راجہ ظفر الحق کی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کا تعین کر کے انہیں سزا دینے کی بجائے پہلے روز ہی یہ فیصلہ کر دیا جاتا تو کم از کم حکومت کی اس بارے نااہلی تو سامنے نہ آتی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان افراد، سازشی ٹولے کے چُنگل سے آزاد ہو کر آزادانہ طور پر جامع پالیساں تشکیل دیتے ہوئے، پھر سے معاشی اور معاشرتی طور پر کمزور ہوتے پاکستان کو مضبوط بنا نے میں اپنا کردار اداء کریں اور ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے آغاز میں ہی معاملات کی بہتری کے لئے کا وشیں شروع کردیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :