اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی

پیر 27 نومبر 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

آپ قرآن کی دلچسپ صورتحال ملاحظہ کریں ، پورا قرآن تیس پاروں پر مشتمل ہے ، قرآن کریم میں ایک سو چودہ سورتیں ہیں، پانچ سو اٹھاون رکوع ہیں ، چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ آیات ہیں،کلمات کی تعداد ستتر ہزار نو سو تینتیس ہے ،حروف کی تعداد تین لاکھ تئیس ہزار چھ سو اکہتر ہے ، قرآن میں سینکڑوں مضامین بیان ہوئے ہیں ، بیسیوں پیغمبروں کے نام آئے ہیں ، سینکڑوں بلاد و اماکن کی نشاندہی کی گئی ہے اور بیسیوں موضوعات پر اللہ تعالیٰ نے کلام کیا ہے لیکن سب سے پہلا لفظ جو اللہ نے نازل فرمایا وہ ”اقراء“کا لفظ تھا یعنی پڑھیئے ۔

قرآن کی ساڑھے چھ ہزار آیات میں سے جو پہلی پانچ آیات نازل ہوئیں ان میں بھی علم اور قلم کا ذکر ہے ۔گویا قرآن کا نزول ہی علم اور قلم کے نام سے ہوا جس سے اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ علم اس دنیا کی سب سے بڑی نعمت اور سب سے بڑا خزانہ ہے اور اسے حاصل کیئے بنا کوئی انسان انسان نہیں کہلا سکتا۔

(جاری ہے)

پھر قرآن نے صرف انہی پانچ آیات پر بس نہیں کیا بلکہ پورے قرآن میں جا بجا علم اور اہل علم کی شان اور فضیلت بیان کی ہے۔

ایک آیت میں فرمایا”اللہ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“اس آت میں اللہ تعالی نے اپنے ساتھ فرشتوں اور اہل علم کاذکرکیا ہے ،امام قرطبی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں علم کی فضیلت اور علماء کی عظمت بیان کی گئی ہے ۔ اگر علماء سے زیادہ کوئی معزز ہوتا توعلماء کی بجائے اس کانام فرشتوں کے ساتھ لیا جاتا۔

اسی طرح سورہ طٰہ میں حکم دیا”اپنے رب سے علم میں اضافہ کی دعا کرو“گویاعلم اتنی اہمیت والی چیز ہے کہ جس میں اضافہ کیلئے نبی جیسی ہستی کو بھی مانگنے کاحکم دیاگیاہے۔اگر علم سے زیادہ اہمیت والی کوئی چیز ہوتی تو علم کی بجائے اسے مانگنے کا حکم دیا جاتا۔سورہ فاطر میں فرمایا” بے شک علماء ہی اللہ سے ڈرنے والے ہیں“ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت علماء کی شان بیان کرتی ہے اور یہ علماء کے لیے نازل ہوئی۔

سینکڑوں ایسی احادیث ہیں جن میں علماء کی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔ ایک حدیث میں کہا گیا کہ قرب قیامت علماء کو اٹھا لیا جائے گا۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا ئے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے بلکہ وہ علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔

اس لیے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
ایسے ہی علماء میں سے ایک مولانا یعقوب خان پچھلے ہفتے انتقال کر گئے ۔میں بات آگے بڑھانے سے پہلے ان کا مختصر تعارف کر وا دیتا ہوں ۔ مولانا یعقوب خان  سوات کے علاقے سیدو شریف سے چند کلو میٹر دور بستی سلام پور میں1930میں پیدا ہوئے ، والد مولانا یوسف خان بھی عالم دین تھے اور گھر میں ابتداء ہی سے دینی ماحو ل قائم تھا ،حیا خیل قوم سے تعلق تھا اور والد محترم کا شمار علاقے کے معتبر علماء میں ہوتا تھا ۔

ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی ،کافیہ تک کے اسباق اپنے والد سے پڑھنے کے بعد لاہور تشریف لے آئے اور نیلا گنبد میں قائم جامعہ اشرفیہ میں داخلہ لے لیا ۔داخلے کے لیے ٹیسٹ مولانا عبید اللہ اشرفی  نے لیا اور یوں باقاعدہ جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد میں تحصیل علم کے مسافر بن گئے ۔ آپ کے اساتذہ میں مفتی محمد شفیع  ، مولانا ضیا ء الحق ، مفتی محمد حسن ، مولانا رسول خان  اور مولانا ادریس کاندھلوی  شامل ہیں ۔

1952میں دورہ حدیث شریف کے بعد جامعہ اشرفیہ سے ہی تدریس کا آغاز کیا ، منطق و فلسفہ کے امام سمجھے جاتے تھے ۔ عموما دیکھا گیا ہے کہ کلامی مباحث میں الجھنے والے اہل علم روحانیت سے بہت دور چلے جاتے ہیں لیکن مولانا یعقوب خان  اس الزام سے بری تھے ۔وہ ایک گمنا م عالم دین تھے ، ساری زندگی درس و تدریس کو اوڑھنا اور بچھونا بنائے رکھا، جامعہ اشرفیہ میں تقریبا ساٹھ سال تدریس کی ، نہ صلہ کی تمنا نہ ستائش کی پرواہ ، اپنے کام سے مخلص اور وقت کے پابند۔

آخری عمر میں بہت ضعیف ہو چکے تھے ، تقریب دس بار ہ سال سے انتہائی ضعیف تھے ، کمر میں خم آ چکا تھا اور کمر آگے کو جھک گئی تھی لیکن اس کے باوجود کبھی سبق سے ناغہ نہیں کیا ،بات بھی بہت مشکل سے سمجھ آتی تھی لیکن پڑھانے سے باز نہیں آتے تھے ۔ گزشتہ کافی عرصے سے جلالین اور نسائی شریف پڑھا رہے تھے ، ضعف کی وجہ سے بات سمجھنے میں دشواری ہوتی تھی بلکہ جو طلباء نزدیک بیٹھتے تھے صرف انہیں ہی سمجھ آتی تھی لیکن اس کے باوجود کبھی سبق کا ناغہ نہیں کیا ۔

خود دار اتنے کہ چلنے میں انتہائی دشواری کے باوجود کبھی کسی کا سہارا نہیں لیا ، اگر طلباء یا کوئی اور آگے بڑھ کر سہارا دینا چاہتا تو اسے ٹوک دیتے، اپنے جوتو ں کو کسی کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے تھے ۔ دوران سبق اگر طلباء شور مچاتے تو کبھی کبھار غصے میں آ کر ڈانٹ دیتے تھے ، ڈانٹ ایسی جیسے رعد فرشتے کی کڑک ہو ۔ استغناء کا یہ عالم تھا کہ فراغت کے بعد سوات میں قاضی کے عہدے کی پیشکش ہوئی تو یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ میں اپنی زندگی قا ل اللہ و قال الرسول کے لیے وقف کر چکا ہوں ۔

اساتذہ کا اتنا اعتماد حاصل تھا کہ وفات سے قبل مولانا ادریس کاندھلوی  نے مولانا عبیداللہ  کو بلا کر فرمایا ” میرے بعد بخاری خود پڑھائیو اور اگر یہ منظور نہ ہو تو مولوی یعقوب  کو دیجیو۔“ مفتی حسن صاحب  فرمایا کرتے تھے ” مولوی یعقوب لاہور شہر کا قطب ہے “ مولنا ادریس کاندھلوی  کہا کرتے تھے ” مولوی یعقوب چلتا پھرتا کتب خانہ ہے “ مفتی محمد شفیع  فرمایا کرتے تھے ” مولوی یعقوب آپ کے علمی کمالات کو دیکھتے ہوئے میں تو آپ کا معتقد ہو گیا ہوں۔


آپ نے ساری زندگی جامعہ اشرفیہ میں درس و تدریس کرتے گزار دی، تقریبا ساٹھ سال تک حدیث پڑھائی ، آپ کے شاگرد دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اورآج کے نامور اہل علم کا شمار آپ کے شاگردوں میں ہوتا ہے ۔ گزشتہ ہفتے ان کا انتقال ہوا اور جامعہ اشرفیہ میں مغرب کی نماز کے بعد نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ آپ کے سینکڑوں شاگردوں سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔

اہل علم اور دینی حلقوں کے لئے مولانا یعقوب خان  کی وفات بہت بڑا صدمہ ہے اور ان کا خلا صدیوں پرنہیں ہو گا ۔ علم کی گود خالی ہوتی جا رہی ہے، اہل علم اٹھتے جا رہے ہیں ، علماء حق کا وجود مٹتا جا رہا ہے ، رسوخ فی العلم کی روایت ختم ہو تی جا رہی ہے اورہم تیزی سے اس دور کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کے بارے میں ہادی عالم نے فرمایا تھا کہ قرب قیامت علم کو اٹھا لیا جائے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :