بچپن کے کھیل اور یادیں

منگل 21 نومبر 2017

Hussain Jan

حُسین جان

بچپن کی یادیں سب کے لیے سہانے سپنے لیے ہوتی ہیں ۔ ہر انسان اپنے ماضی خاص کر بچپن کو یاد کر کے بہت خوش ہوتا ہے۔ وہ دور کسی بھی انسان کی زندگی کا سنہرہ ترین دور ہوتا ہے۔ جس میں امارت اور غریبی کی پروا نہیں ہوتی۔ پرواہ ہوتی ہے تو اپنے دوستوں اور اُن کے ساتھ کھیلی جانے والی گیمز کی۔ سکول میں وقت صرف اسی آس پر گزر جاتا ہے کہ گھر واپس جا کر محلے کی فلاں جگہ پر فلاں گیم کھیلنی ہے۔

آج فلاں کو ساتھ نہیں کھیلانا اور فلاں کے ساتھ کھیلنا ہے۔ یہی بچپن ہے اسی کا نام یادیں ہیں بڑھاپے اور جوانی میں اکثر و اوقات یہ یادیں انسان کو سونے نہیں دیتی۔ ماضی یاد رکھنے کو کچھ لوگ اچھا نہیں سمجھتے جب کہ کچھ لوگ کہتے ہیں ماضی کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔ کیونکہ مستقبل کے بارئے میں کسی کو کچھ پتا نہیں ہوتا جبکہ بیتے دنوں کے کوئی بھی لمحے کبھی بھی یاد آسکتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ لمحے انسان کی زندگی کو وقتی خوشیوں سے بھر دیتے ہیں۔ انسان اپنے موجودہ اسٹیٹس کو بھول کر بچپن کی یادوں میں کھو جاتا ہے تو تمنا کرتا ہے کہ کاش وہ دن لوٹ آئیں لیکن یہ ممکن نہیں۔ جو بیت گیا سو بیت گیا۔ ہاں ان یادوں کو یادوں کو ضرور کرنا چاہیے اس سے انسان کو راحت میسر ہوتی ہے۔ بچپن کی یادوں میں سب سے حسین یادیں کھیلوں کے ساتھ جڑی ہوتی ہے ۔


ہمارا گھر لاہور کے علاقے غالب مارکیٹ میں تھا۔ اس علاقے کو گورومانگٹ بھی کہا جاتا ہے۔ ابا بتاتے ہیں کسی زمانے میں یہاں بہت مشہور گوردوارہ ہوا کرتا تھا۔ یہاں سے تمام مسلم اور دوسرے مذاہب کے بچے پرساد لینے جایا کرتے تھے۔ ہمیں یہ فکر نہیں ہوتی تھی کہ پرساد ہے یا تبرک ہمیں صرف کھانے سے مطلب ہوا کرتا تھا۔ تمام مذاہب کے بچے مل جل کر کھیلا کرتے تھے۔

خیر ابا کا زمانہ تو کافی پرانہ ہے ہمیں اپنے بچپن کی یادیں بھی تنگ کر رہی ہیں سوچا کیوں نہ ان کو یاد کیا جائے اور ساتھ ساتھ وہ کھیل جو اب ہمارے بچوں کی زندگیوں سے نکل چکے ہیں اُن کا رونا بھی رو لیا جائے۔ ہمارے گھر کے ساتھ ایک دربار بھی تھا جو ابھی بھی موجود ہے۔ بابا کاہنے شاہ کا دربار پورئے محلے کا سوشل ٹھکانہ ہوا کرتا تھا۔ بوڑھے بچے اسی دربار کے احاتے میں بیٹھ کر اپنے اپنے مشاغل میں مصروف رہا کرتے تھے۔

مزئے کی بات ہے ہر گیم کا موسم ہوتا تھا۔ کبھی لٹو کھیلنے کا تو کبھی بنٹے کھیلنے کا۔ کبھی پتنگ بازی تو کبھی اخروت کھیلنے کا ۔ کبھی باندر کلا کھیلنے کا تو کبھی بیٹ بال کھیلنے کا۔ تمام کھیل ہم بچوں میں یکساں مقبول تھے۔ بوڑھے لوگ احاتے میں بیٹھ کر تاش یا بارہ ٹہنی کھیلا کرتے تھے۔ میلے کے دنوں میں باند ر کلا بہت مشہور تھا۔ ہر کسی کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ باندر نہ بنے کیونکہ جو باندر بن جاتا اُس کی خیر نہیں ہوتی تھی۔

اتنی جوتیاں پڑتی تھی جتنی کسی لڑکی کو چھیڑنے پر بھی نہیں پڑتی۔ لٹو گھومانا بھی ہمارا پسندیدہ کھیل ہوا کرتا تھا۔ سب کے پاس کئی کئی لٹو ہوتے تھے جو ایک دوسرئے سے چھپا کر رکھے جاتے۔ اسی طرح بنٹوں کی بھی شان الگ ہوتی تھی۔ ہم لوگ سارا سارا دن ان کھیلوں میں گزار دیتے تھے۔ اُس زمانے میں قرآن پاک پڑھنے کا وقت صبح کا ہوتا تھا۔ فجر کی نماز کے بعد امام مسجد بچوں کو قرآن پڑھایا کرتے تھے۔

سکول سے آنے کے بعد ہمیں کہیں اور نہیں جانا پڑتا تھا۔ ٹیوشن کا رواج بہت کم تھا۔ شام کو جب تھکے ہارے واپس آتے تو سکول کا کام کرنے بیٹھ جاتے اور رات کو پھر گھر کے باہر محفل جما لیا کرتے۔ پل بھر میں ہم دکھی ہو جاتے اور پھر خوشی سے سرشار ہوجاتے۔ صبح پھر سکول جانے کی فکر کھائے جاتی اور واپسی پر وہی زندگی شروع ہو جاتی جس میں غم کھیل کے سوا کوئی غم نہیں ہوا کرتا تھا۔


اب تو خیر سے ہم خود بچوں والے ہو گئے ہیں۔ ایسے بچوں کے باپ بن گئے ہیں جن کی زندگی عجیب و غریب پریشانیوں سے گھری ہوئی ہے۔ صبح سکول جاؤ واپسی پر کھانا کھا کر قرآن پاک پڑھنے چلے جاؤ ۔ وہاں سے واپسی پر ٹیوشن چلے جاؤ اور پھر رات کو گھر پہنچو۔ جو ٹھوڑا بہت وقت بچتا ہے وہ موبائل یا ٹیبلٹ پر گزار دو۔ آپسی رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بچے ذہنی طور پر پسماندہ ہوتے جا رہے ہیں۔

تعلیم و تربیت اتنی مشکل ہوچکی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں یاد ہے کہ ہر محلے میں پارک یا بہت سارے خالی پلاٹ ہوا کرتے تھے جس میں ہم کھیلا کرتے ۔ مگر اب تو بچوں کے لیے پارک بھی موجود نہیں۔ حکومت نے جو تھوڑے بہت پارک بچا رکھے ہیں وہ بھی گھروں سے بہت دور جہاں سوائے چھٹی والے دن جانا محال ہے۔
اگر یہی حال رہا تو وہ وقت دور نہیں جب گاؤں کے بچے بھی ان کھیلوں سے دور ہوجائیں گے۔

حکومت اور والدیں کو اس طرف توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے۔ بچوں کے لیے ایسے کھیل بہت ضروری ہیں۔ اس سے بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشونماء میں خاطر خواہ فرق پڑتا ہے۔ ایک صحت مند معاشرہ انہیں کھیلوں کی وجہ سے پروان چڑھ سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال بھی بہت ضروری ہے لیکن اُس کے لیے وقت مخصوص ہونا چاہیے۔ اسی میں ملک و قوم کی بقا ء ہے۔ یہ وہ کام ہے جو سیاستدانوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا کیونکہ وہ تو پہلے ہی ملک کے بیڑہ غرق کر چکے ہیں رہتی سہتی کسر ہم لوگ خود پوری کرتے جا رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :