رائیونڈ میں !

منگل 21 نومبر 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

ہم دہلی سے جنوب کی طرف جائیں تو تھوڑے فاصلے پر بستی نظام الدین آتی ہے ، یہ بستی حضرت نظام الدین اولیاء کی وجہ سے مشہور ہے ، انیسویں صدی میں یہاں ایک بزرگ رہا کرتے تھے جن کا نام مولوی محمد اسماعیل تھا ، ان کا معمول تھا کہ جب کو ئی شخص اس علاقے میں آتا یہ آگے بڑھ کر اس کا سامان اٹھا لیتے ، سامان سر پر رکھتے اوراسے منزل تک پہنچانے کے ساتھ اپنے ہاتھ سے ڈول کھینچ کر پانی پلاتے، بعدمیں دو رکعت نفل پڑھ کر شکرادا کرتے کہ اللہ نے انہیں اس خدمت کی توفیق دی ۔

1303ھ میں ان کے ہاں ایک بچے کی پیدائش ہو ئی ،والدین نے بغیر سوچے سمجھے الیاس نام رکھ دیا، بچھے کی تعلیم و تربیت کا اہتمام گھر میں ہی کیا گیا ، گھر کی تمام خواتین صاحب نسبت تھیں ، بچوں کو طوطا مینا اور جنوں پریوں کی کہانیاں سنانے کی بجائے بزرگوں کے قصے سنایا کرتی تھیں۔

(جاری ہے)

گھر میں ہر طرف نماز روزہ اور تلاوت قرآن کی محفلیں ہوا کرتے تھیں ، گھر کے بزرگ اگر کسی کو دعا دیتے تو یہ نہیں کہتے تھے کہ اللہ تجھے ڈاکٹر ، انجینئر یا وکیل بنائے بلکہ کہا جاتا تھا اللہ تجھے اپنے دین کی خدمت کے لیے قبول کرے ۔

مولوی اسماعیل صاحب نے اس علاقے میں ایک چھوٹا سا مدرسہ بھی قائم کیا ہوا تھا جہاں محلے کے غریب بچے پڑھنے آیا کرتے تھے ۔ مولوی اسماعیل صاحب کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے مولوی محمد نے اس مدرسے کی ذمہ داری سنبھالی ،1336ھ میں ان کی بھی وفات ہو گئی ،چھوٹا بیٹامحمد الیاس ان دنوں مظاہر العلوم سہارنپور میں مدرس تھا ،بھائی کی وفات ہوئی تو اسے سہارنپور چھوڑ کر بستی نظام الدین آنا پڑا اور یہاں سے اس کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ۔

یہی محمد الیاس بعد میں مولانا محمد الیاس تبلیغی جماعت کے بانی کہلائے۔
بستی نظام الدین صوبہ ہریانہ کے شہر میوات کے دہانے پر واقع تھی ، میوات کے اکثر لوگ بستی نظام الدین آتے جاتے تھے اور ان کے کچھ بچے بھی اس مدرسے میں زیر تعلیم تھے۔ میوات قوم کی حالت کچھ اچھی نہیں تھی ، یہ لوگ حضر ت نظام الدین اولیاء کی کوششوں سے مسلمان تو ہو گئے تھے لیکن یہ صرف نام کے مسلمان تھے ۔

یہ ہندووٴں اور سکھوں کی طرح نام رکھتے تھے ،ان کے سروں پر چوٹیاں بھی ہوتی تھیں اور یہ اپنے گھروں میں مورتیاں بھی سجاتے تھے ، یہ ہندووٴں کی طرح ہولی اور دیوالی بھی مناتے تھے اور یہ بابا گرونانک کے بھی پجاری تھے ۔ کلمہ ، نماز اور روزے کا تو انہیں پتا ہی نہیں تھا ، اتفاق سے اگر کوئی شخص اس علاقے میں آ کر نماز پڑھنا شروع کر دیتا تو سب اس کے ارد گرد اکھٹے ہو جاتے کہ اس بندے کو کیا ہوا ، کیا اس کے پیٹ میں تکلیف ہے یا کوئی اور مسئلہ ہے ۔

1921میں صورتحا ل اس وقت مزید بگڑ گئی جب ہندووٴں نے آریہ سماج کی تحریک شروع کی اور لوگوں کو ہندو بنانا شرو ع کر دیا ،میوات کے علاقے سے ہندووٴں کی کامیابی کی خبریں آنا شروع ہو گئیں ، مولانا الیاس کے لیے یہ صورتحال بہت تکلیف دہ تھی ، میواتیوں کے کچھ بچے ان کے مدرسے میں زیر تعلیم تھے لیکن اس سے صورتحال بہتر ہونے والی نہیں تھی ۔ مولانا الیاس نے میوات کے علاقے میں بھی مدارس اور مکاتب قائم کرنے شروع کیئے لیکن میواتی اپنے بچوں کو ان مدرسوں میں بھیجنے کے لیے تیار نہیں تھے ، ان کے لیے تعلیم کی بجائے مویشیوں کی دیکھ بھال اور کھیتی باڑی اہم تھی لیکن اس سب کے باوجود مولاناالیاس اپنی محنت میں لگے رہے ۔

ایک دفعہ آپ میوات کے سفر پر گئے ، آپ کے سامنے ایک طالبعلم پیش کیا گیاکہ یہ فلاں مدرسے سے پڑھ کر فارغ ہوا ہے اور اس کی خوب تعریف کی گئی ، مولانا نے دیکھا تو داڑھی نہیں تھی اور وہ کسی طور مدرسے کا طالبعلم دکھائی نہیں دیتا تھا ،اس واقعے نے مولانا کی سوچ بدل ڈالی کہ جب تک ان میواتیوں کو ان کے ماحول سے نہیں نکالا جاتا تب تک محنت رائیگاں جائے گی ۔

اس کے بعد مولانا نے میواتیوں کو جماعت کی صورت میں ان کے ماحول سے نکالااور انہیں مساجد ،مدارس اور خانقاہوں میں ٹھہرانا شروع کیا ، ابتداء میں یہ کام بہت مشکل تھا لیکن مسلسل محنت سے راستے بنتے گئے ۔
ایک دفعہ آپ ایک میواتی کو دعوت دے رہے تھے وہ بگڑ گیا اور آپ کو مکا مار دیا ، آپ کمزور آدمی تھی زمین پر گر پڑے ، اگلے ہی لمحے اٹھے اور اس کا دامن پکڑ کرکہا ” تم اپنا کام کر چکے اب میری سنو ۔

“ یہ اخلاص اور محنت تھی کہ میوات کے علاقے میں تبدیلی آنا شروع ہوئی ، لوگ اسلام کی طرف واپس آنے لگے اور میواتی جو آدھے ہندو بن چکے تھے دوسروں کو دعوت دینے کے لیے اپنے گھروں سے نکلنے لگے ۔
مولانا الیاس ہر لمحہ امت کی فکر میں لگے رہتے ، ان کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ جب میری شادی ہوئی تو میں نے دیکھا کہ مولانا راتوں کو بہت کم سوتے ہیں ، ان کی ساری رات بستر پر آہیں بھرتے اور کروٹیں بدلتے ہی گزر جاتی تھی ، ایک دفعہ میں نے پوچھا آپ کو رات کو نیند کیوں نہیں آتی تو فرمایا اگر وہ بات تمہیں معلوم ہو جائے تو جاگنے والے دو ہو جائیں ۔

تبلیغ کے لیے کئی کئی دن تک کھانا نہیں کھاتے تھے ، میلوں پیدل سفر کرتے اور جب دیکھتے کہ جماعت کے ساتھی تھک گئی ہیں تو کہتے ”جبل جہد کی دوسری طرف خدا ہے جس کا جی چاہے مل لے ۔“ایک صاحب نے خیریت طلب کی تو فرمایا ” خیریت تو تب ہے کہ جس کام میں لگے ہو وہ پورا ہو جائے۔ “ایک صاحب نے خط لکھ کر خیریت طلب کی تو جواب لکھا ” طبیعت میں سوائے تبلیغی درد کے اور خیریت ہے ۔

“ جب آپ دیکھتے کہ تبلیغ کے کام میں جڑنے والے اکثر لوگ ان پڑھ اور سادہ قسم کے دیہاتی ہی تو بڑے افسوس سے کہتے ” کاش علماء اس کام کو سنبھال لیتے اور پھر ہم چلے جاتے ۔“ایک مرتبہ ایک مخاطب سے کہا ” یہ کام قرن اول کا ہیرا ہے اس کے لیے اپنی جانیں قربان کر دو اور اپنا سب کچھ لٹا دو ، اللہ کے لیے جتنا زیادہ قربان کرو گے اتنا زیادہ پاوٴ گے ۔

“ایک خط کا جواب دیتے ہو ئے لکھا ” دنیا فانی کے کام کے لیے تو گھر کے سارے فرد ہوں لیکن اللہ کے کام کے لیے ایک فرد بھی نہ نکلے۔ “ایک مرتبہ لکھنو کے تبلیغی جلسے میں لوگوں کو تبلیغ میں نکلنے کے لیے تیار کر رہے تھے ، تبلیغ کے ایک ساتھی حاجی ولی محمد کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا :تم کیوں نہیں جاتے ، اس نے کہا” حضرت میری طبیعت خراب ہے میں تو مر رہا ہوں ، فرمایا : مرنا ہی ہے تو تبلیغ میں جا کر مرو۔

“ یہ مولانا الیاس کی محنت کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ میوات جو آدھا ہندو ہو چکا تھا 1941میں جب وہاں پہلا تبلیغی اجتماع ہوا تو اس میں پچیس ہزار لوگ شریک ہوئے جو کئی کئی میل سے پیدل سفر کر کے وہاں پہنچے تھے ۔
شعوری عمر میں گزشتہ اتوار پہلی بار رائیونڈ کے تبلیغی اجتماع میں شرکت کا موقعہ ملا ، یہ مولانا الیاس کی محنت اور اخلاص کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر سے لاکھوں افراد بیک وقت ایک چھت تلے جمع ہوتے ہیں ، ہر طرح کی مسلکی تفریق سے ہٹ کر سب اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے آتے ہیں ، ممکنہ طور پر حج کے بعد یہ مسلمانوں کا سب سے بڑاا جتماع ہوتا ہے اور اس بار بھی سینکڑوں جماعتیں اندرون اور بیرون ملک تبلیغ دین کے لیے نکلی ہیں ۔

اگر اللہ توفیق دے تو زندگی کے چند ایام اس جماعت کے ساتھ ضرور گزاریں ،ہو سکتا ہے تبلیغ دین کے لے دیئے ہوئے یہی چند ایام ہماری بخشش کا سبب بن جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :