ا۔س۔ٹ۔ی۔ب۔ل۔ش۔م۔ن۔ٹ

اتوار 19 نومبر 2017

Ammar Masood

عمار مسعود

بہادری جب حد سے بڑھ جائے تو بے وقوفی کی حد کو چھو نے لگتی ہے۔احساس کمتری بڑھ جائے تو احساس برتری میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ہر شجاعت کے پس منظر میں خوف کارفرما ہوتا ہے اور کامیاب لوگوں کا سب سے بڑا خوف ناکامی ہوتی ہے۔ وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ کبھی دلیری ،حماقت کہلاتی ہے اور کبھی حماقت ، بہادری بن جاتی ہے۔یہ اسی طرح کی بات ہے جیسے کبھی تاریخ کے اوراق میں انقلاب کو بغاوت لکھا جاتا ہے اور کبھی بغاوت، انقلاب کے مفاہیم میں تحریر کی جاتی ہے۔


مصطفی کمال نے جو کچھ کہا وہ بظاہر بہادری بن گیا مگر اسے دانشمندی ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے اس نام کو سات پردوں میں سے وا کر دیا جس نام کے بار ے میں بات کرتے بڑے بڑوں کے پر جلتے ہیں۔ جو ملکی تاریخ و سیاست کا شجر ممنوع ہے۔

(جاری ہے)

نہ اس پر کوئی بات کرنے کی استطاعت رکھتا ہے نہ کسی کو یہ حوصلہ میسر ہے اس نام سے منسوب چیرہ دستیوں کو بیان کرے۔

نہ پہلے کسی نے یہ جرات کی ہے نہ آنے والے وقتوں میں یہ عیاشی کسی کو میسر ہونے کا کوئی امکان ہے۔ اسٹیبلشمنٹ پر اتنی کھلی تہمت نہ پہلے کسی نے لگائی ہے اور نہ مستقبل میں ایسا کوئی امکان ہے۔
یہ وہ نام ہے جو مبصروں کے تبصروں میں خفیہ ہاتھ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ وہ نام ہے جو سیاستدانوں کی چلتی زبانوں کو لگام دیتا ہے۔ یہ وہ نام ہے جو اینکروں کے تعارفوں میں نامعلوم افراد کہلاتا ہے۔

یہ وہ نام ہے جو کالم نگاروں کی تحریروں سے حذف ہو جاتا ہے۔ یہ وہ نام ہے جس کا ذکر لبوں پر آئے تو بد زبان ، تہذیب یافتہ ہوجاتے ہیں۔ کملے ، سیانے ہو جاتے ہیں۔ پگلے ، ہوشمند ہو جاتے ہیں۔ گھروں کی دیواروں میں بھی لوگ ادھر ادھر دیکھ کر ا س نام کو زبان پر لاتے ہیں۔ سرکشوں کو انکے احباب انشا ء جی کے مصرعے کی زبان میں سمجھاتے ہیں۔ اجتناب اجتناب ، اجتناب انشاء جی۔


یہ وہی نام ہے جو کبھی فاطمہ جناح کی زبان پر نہیں آیا ۔ ایک ڈکٹیٹر نے بانی پاکستان قائد اعظم کی بہن کو غدار وطن کہلوا دیا مگر انکی زبان بھی اجتناب اجتناب کے زیر اثر رہی۔ ملک بنانے والوں کے سامنے ملک ٹوٹتا رہا مگر انہوں نے کبھی اسٹیبلشمنٹ کالفظ منہ سے نہیں نکالا۔ بھٹو جمہوریت کے المیہ گیت گاتے جان سے گذر گئے۔ سولی چڑھ گئے۔مگر اتنے کھلے الفاظ میں کبھی اسٹیبلشمنٹ کا لفظ کہنے سے پرہیز کیا۔

جونیجو چپ چاپ سندھڑی آموں کی سر زمین پر واپس چلے گئے لیکن لب کشا نہیں ہوئے۔ بے نظیر اور نواز شریف دو، دو دفعہ اقدار کے سنگھاسن پر بٹھائے گئے پھر اسی مسند سے گرائے گئے مگر دونوں اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی ہی چاہتے رہے۔ کسی میں اختلاف کی جرات نہیں ہوئی۔ زرداری اسی وجہ سے پانچ سال گذار گئے کہ انہوں نے عدم اختلاف کی پالیسی اپنائی۔ جس نے منہ پر طمانچہ مارا انہوں نے خوشی سے دوسرا گال پیش کر دیا۔

نواز شریف بھی تیسری دفعہ حکمران بنے تو نگاہ نیچی رکھنے کا وعدہ کیا۔ آواز بلند نہ کرنے کا اعادہ کیا۔ لیکن پھر بھی دھواں اٹھتا نظر آگیا ۔مریم نواز کا سوشل میڈیا وجہ عناد بن گیا۔کیا ہوا؟ حکومت سے گئے۔ کرپشن کے کیس بنے۔ عدالتوں میں پیشیاں ہوئیں۔ بچوں کو پیش کیا۔ بیمار بیوی کو لندن چھوڑ کر عدالتوں کے چکر لگاتے رہے۔ جی روڈ کا اتنا جم غفیر جمع کیا۔

سارا راستہ لوگوں کو دلاسے دیتے رہے۔ کہتے رہے بتاتا ہوں ، بتاتا ہوں کہ یہ کس کی کارستانی ہے۔ کون ہے جسے خفیہ ہاتھ کہتے ہیں۔ لیکن لاہور پہنچ کر جانے کیوں ہمت جواب دے گئی۔ مصطفی کمال جیسی بہادری نہ دکھا پائے۔اب بھلے لوگوں کو کہتے رہیں کہ احتساب کہیں اور سے کنٹرول ہو رہا ہے ۔بلاشبہ نعرے لگائیں سزا دی نہیں جا رہی ،دلوائی جا رہی ہے۔ بے شک اپنی مظلومیت میں ہزار بار استفسار کر یں کہ مجھے کیوں نکالا ؟مجھے کیوں نکالا؟اب وار کارگر ہو چکا ہے۔

اب سچ کی ٹرین لاہور سٹیشن سے گذر چکی ہے۔
نواز شریف لوگوں کو نہ بھی بتائیں تو بھی لوگ جانتے ہیں۔ سب کو پتہ ہے کیا ہو رہا ہے۔ کیوں ہو رہا ہے۔ یہ قصہ آج کا تو نہیں ہے۔ جب سے یہ ملک بنا ہے یہاں پر یہی دستور چلا ہے۔ اگر چہ اسٹیبلشمنٹ کا لفظ نہ کسی قانون کی کتاب میں ہے، نہ آئین اس کے بارے میں کوئی وضاحت دیتا ہے ، نہ دستور کی صندوقچی میں اس بارے میں کوئی اشارہ ہے۔

نہ پولیس کے قوائد اسکی حد متعین کرتے ہیں نہ سول سوسائٹی اس بارے میں کچھ بتانے کی کوشش کرتی ہے نہ اسمبلی کی کارروائی میں کبھی اسکا ذکر ہوا ہے۔ نہ سینیٹ کے کسی اجلاس میں اسکا کبھی تذکرہ ہوا ہے نہ کسی سٹینڈنگ کمیٹی میں کبھی اسکی طلبی ہوئی ہے۔نہ کسی ایم این اے یا ایم پی اے کو اس بارے میں کوئی استحقاق حاصل ہے اور تماشہ یہ ہے کہ نہ عوام کو اس بارے میں درست ادراک ہے۔

اس کے باوجودسب جانتے ہیں، سب مانتے ہیں کہ اس ملک میں دستور یہی ہے۔ قانون یہی ہے۔ قائدہ یہی ہے۔ اصول یہی ہے۔ ضابطہ یہی ہے۔آئین یہی ہے۔ عقیدہ یہی ہے۔
اس سب کے باوجود کوئی بھی اسٹیبلشمنٹ کی درست شکل نہیں جانتا نہ کسی نے اسکو دیکھا ہے نہ اس کا کوئی شناختی نشان کسی کارڈ پر لکھا ہے ۔ البتہ اس کو مثالوں سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا مالی ہے جو بڑی توجہ سے کوئی پودا لگاتا ہے۔

جلدی جڑ پکڑنے کے لئے زیادہ پانی اور زیادہ خوراک اس نازک سے پودے کو دیتا ہے۔ دن رات اپنی نگرانی میں اسکو پروان چڑھاتا ہے ۔ آندھی طوفان میں چھاتہ فراہم کرتا ہے، چلچلاتی دھوپ سے بچاتا ہے ۔ پھر پودا تناور درخت بننے لگتا ہے ۔ سائے میں لوگ بیٹھنے لگتے ہیں تو مالی اس کا تنا کاٹ دیتا ہے ۔ اس کو جڑ سے اکھاڑ دیتا ہے۔ ایک او ر مثال اس پرندے کی بھی دی جا سکتی ہے کہ جب اسکو بھوک لگتی ہے تو وہ اپنے ہی بچوں کو کھا جا تا ہے۔

لیکن پرندہ تو جاہلوں کی طرح چپڑ چپڑ کر کے کھاتا ہے یہاں پہلے میز سجتی ہے، چھری کانٹا لگا یا جاتا ہے، نیپکن سجایا جاتا ہے اور پھر اپنی ہی اولاد پر ٹماٹو کیچپ لگایا جاتا ہے، پھر کھایا جاتا ہے۔ یا پھر اسے اس کسان سے موسوم کیا جا سکتا ہے جو دن رات ہل چلاتا ہے ۔فصل کا بیج ڈالتا ہے ۔ بارش کی دعا کرتا ہے۔ ایک ایک پودے کو سنوارتا ہے۔ نہری پانی دیتا ہے ۔

پھر جب فصل سنہری ہو جاتی ہے، دانہ پک جاتا ہے۔ پودوں کی جڑیں مضبوط ہہو جاتیں ہیں تو ایسے میں کسان ساری فصل کو آگ لگا دیتا ہے۔سموگ اور سموک کی کسان کو پرواہ نہیں ہوتی ۔ وہ اپنی تخلیق کو تخریب میں بدل کر مسکراتا ہے ۔ اپنی محنت کو پھل پاتا ہے۔
اس شاہین کی خواہش محض اختیار کی ہوتی ہے ۔اس کی نظر صرف قبضہ پر ہوتی ہے۔ قبضہ بھی ،ویرانوں پر، ایوانوں پر ، جسموں پر ، ذہنوں پر ، زمینوں پر، سکرینوں پر ،چٹانوں پر، زمانوں پر۔


یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جن کے پاس لٹانے کو کچھ ہوتا ہے وہ چپ ہو جاتے ہیں۔ مصلحت کو اپناتے ہیں اور جو سب کچھ داو پر لگا چکے ہوتے ہیں وہ زاد راہ بن جاتے ہیں۔وقتی طور پر جری کہلاتے ہیں۔ استعمال کے بعدتاریخ کے ڈسٹ بن میں پھینک دیئے جاتے ہیں۔ یہ بات نہ مصطفی کمال کو سمجھ آئی ہے، نہ عمران خان کو اس کا ہوش ہے، نہ چند ٹی وی اینکرز اس کو سمجھ پائے ہیں۔

انصاف کی اس سماج میں حد
مقرر ہے۔ گفتار کی اس ملک میں ایک حدمقرر ہے۔ اختلاف کی اس معاشرے میں ایک حد مقرر ہے۔ ڈریں اس وقت سے جب کسان فصل کو آگ لگا دے، جب مالی اپنی ہی تخلیق کو جڑ سے اکھاڑ دے۔
یاد رکھیں ۔بہادری جب حد سے بڑھ جائے تو بے وقوفی کی حد کو چھو نے لگتی ہے۔احساس کمتری بڑھ جائے تو احساس برتری میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ہر شجاعت کے پس منظر میں خوف کارفرما ہوتا ہے۔ کامیاب لوگوں کا سب سے بڑا خوف ناکامی ہوتی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :