کالے چور

اتوار 19 نومبر 2017

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں” کالے چور“ نامی ایک فلم کی نمائش1991 میں بنائی گئی، ” پردہ سکرین“ پرآنے والی یہ فلم مکمل طور پر ایک مسالا فلم تھی۔اس فلم کا اصل نام “لوہا چور“ تھا تاہم سیاسی ”نزاکتوں“ کے پیش نظر اس کا نام تبدیل کرکے”کالے چور“ رکھا گیا۔ حبیب جالب کی کہانی ایک ایسے ”کہر“ کو د یکھاتی ہے جو بھوک، غربت، ارد گرد کے لوگوں کی جِنسی ہوس، پولیس کے ظلم و ستم اور عدالتی نظام کے” کھوکھلے پن“ سے تنگ آ کر بغاوت پر اْتر آتا ہے۔

فلم کے ہیرو ویسے ہی کسی تعارف کے محتاج نہیں اللہ باری تعالیٰ محروم کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں،فلم کا ہیروسلطان راہی یعنی ” کبیرہ“ کا ایک ڈائیلاگ فلمی دنیا کے ڈائیلاگ میں سدا”شہنشاہ“ ڈائیلاگ تصور کیا جاتا رہے گا۔

(جاری ہے)

کبیرہ کہتا ہے، جج صاحب ! ”ظلم “چوبیس گھنٹے اور”انصاف“ صرف آٹھ گھنٹے، یہ کہاں کا انصاف ہے۔


یاد رہے کہ فلم 1991 میں بنی اور نمائش کیلئے پیش کی گئی، آج ”عام آدمی “ کو بھی عدالتی نظام پر پورا بروسہ ہے تاہم “وکیل“ کا کچھ نہیں کہا جا سکتا،کالے چور یا ”لوہا چور کے حوالے سے قارئین سے آج بات اس لئے کرنے کو دل کیا کہصاحب ! ظلم” چوبیس“ گھنٹے اورانصاف صرف” آٹھ“ گھنٹے اور ”مزدوری“ جب تک سانس چلے اور غربت ایسی کے”شیطان“ کی طرح ہر وقت ساتھ ساتھ!!
ایک رپورٹ نظر سے گزری ہے جو ”غربت“ اور اشرافیہ کی ”نا انصافی“ سے بھر پور ہے۔

رپورٹ کے مطابق دنیا کے ایک فیصد امیر ترین لوگ دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں جبکہ ایک دہائی کے دوران دنیا کی دولت میں 27 فیصد اضافہ ہوا ہے۔مالیاتی اعدادوشمار فراہم کرنے والے ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 0.7 فیصد آبادی کے پاس 280 ٹریلین ڈالرز کی رقم ہے۔حال ہی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں امیر اور ایک عام آدمی کے فرق کو بتایا گیاہے۔

گزشتہ روز جاری ہونیوالی گلوبل ویلتھ رپورٹ کے مطابق 2008 میں 42.5 فیصد سے بڑھ کر مالی بحران 2017 میں 50.1 فیصد تک ہوگیا ہے یا 140 ٹریلین ڈالرز ہوگیا ہے۔سالانہ رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا کی 0.7 فیصد آبادی کے پاس پوری دنیا کی دولت کا 46 فیصد ہے اور یہ اب 280 ٹریلین ڈالرزکی رقم بنتی ہے۔دوسری جانب دنیا کے غریب آبادی میں سے ہر ایک کے پاس 10 ہزار ڈالرز سے بھی کم کے اثاثے ہیں۔

ادھر دنیا کے 70 فیصد کام کرنیو الے لوگوں کے پاس دنیا کی دولت کا 2.7 فیصد موجود ہے۔رپورٹ کے مطابق غریب آبادی زیادہ تر ترقی پذیر ممالک کی ہے جن میں افریقہ اور بھارت جیسے لوگ شامل ہیں اور ان میں 90 فیصد لوگوں کے پاس 10 ہزار ڈالرز سے کم رقم موجود ہے۔دنیا بھر کی دولت میں ایک دہائی کے دوران ایک چوتھائی اضافہ ہوا ہے.دنیا کی دولت پر جاری ہونیو الی سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 10 برسوں میں دنیا کی دولت میں 27 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ 2016 سے 2016 کے درمیان دولت 6.4 فیصد بڑھی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 2007 میں شدید مالی بحران کا سامنا رہا ہے.پہلی بار رئیل اسٹیٹ نیبھی بلند سطح کو چھوا ہے۔ گزشتہ 12 ماہ میں امریکہ کے پاس ساڑھے 8 ٹریلین کے قریب جمع ہوئیجبکہ چین کی دولت 1.7 ٹریلین ڈالرز تھی۔جب ایک معاشرے میں علم و ہنر کی کمی ہو تو وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔جب کسی فر د کو یہ ہی نہ معلوم ہو کہ اس نے اپنی زمین میں کیا اور کیسے بونا ہے تو وہ کیا کاٹے گا۔

آبادیوں کا تناسب جو 1 اعشاریہ 25 ڈالر سے بھی کام آمدنی پر زندگی بسر کرتے ہیں تقریبا آدھی دنیا یعنی تین ارب سے زیادہ لوگ روزانہ ڈھاء امریکی ڈالر سے کم آمدنی پر گزارہ کرتے ہیں۔56 کروڑ 70 لاکھ لوگوں پر مشتمل 41 مقروض ممالک کی مجموعی جی ڈی پی دنیا کے 7 امیر ترین لوگوں کی مجموعی دولت سے کم ہے۔تقریبا ایک ارب لوگ اکیسویں صدی میں اس طرح داخل ہوئے کہ وہ نہ تو کوئی کتاب پڑھ سکتے ہیں اور نہ دستخط کر سکتے ہیں۔

اگر دنیا بھر کے ممالک اپنے دفاعی بجٹ کا صرف ایک فیصد تعلیم پر خرچ کرتے تو 2000 تک ہر بچے کے لیے اسکول جانا ممکن ہو جاتا جو نہ ہو سکا۔(اب دوہزار تیس تک کا ٹارگٹ ہے )دنیا کے دو ارب بچوں میں سے ایک ارب بچے غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 64 کروڑ بچوں کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں ہے۔ 40 کروڑ کو پینے کا صاف پانی نہیں ملتا۔ 27 کروڑ کو طبی سہولیات میسر نہیں ہیں۔

معاشی لوازمات زندگی کے اعتبار سے غربت کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ ؛ غربت کسی انسان (یا معاشرے) کی ایسی حالت کا نام ہے جس میں اسکے پاس کم ترین معیار زندگی کے لیے لازم اسباب و وسائل کا فقدان ہو۔ سادہ سے الفاظ میں کہا جائے تو یوں کہ سکتے ہیں کہ ؛ غربت، بھوک و افلاس کا نام ہے۔ جب کسی کو اتنی رقم میسر نا ہو کہ وہ اپنا یا اپنے اہل و عیال کا پیٹ بھر سکے تو یہی غربت ہے۔

اگر کوئی بیمار ہوجاوٴ اور اسکے پاس اتنی مالی استداد نا ہو کہ وہ دوا حاصل کر سکے تو یہ غربت ہے۔ جب کسی کے پاس سر چھپانے کی جاوٴپناہ نا ہو تو یہ غربت ہے، اور جب بارش میں کسی کے گھر کی چھت ایسے ٹپکتی ہو کہ جیسے وہ گھر میں نہیں کسی درخت کے نیچے بیٹھا ہو تو یہ غربت ہے۔ جب ایک ماں اپنے بچے کو دودھ پلانے کے بجاوٴچاوٴ پلانے پر مجبور ہو تو یہ غربت ہے۔

یہ وہ پیمانے ہیں جو کم از کم معیار زندگی کو مدنظر رکھ کر گنوائے جاسکتے ہیں۔عالمی اداروں (بشمول عالمی مخزن (ورلڈ بنک)) اور مختلف حکومتوں کے اعداد و شمار اور تعریفیں غربت کے بارے میں ایک نہایت عجیب صورتحال پیدا کرتی ہیں۔ ایک غریب کے لیے غربت یہ ہے کہ اس کو دن میں ایک وقت کا کھانا مشکل سے میسر آتا ہو جبکہ ایک امیر کے لیے غربت یہ ہے کہ وہ روزآنہ غذایت سے بھر پور متوازن غذا اور اعلی کھانے مشکل سے کھا سکتا ہو۔

غربت کی پیمائش کو مقامی سطح پر ناپنے کا ایک پیمانہ عتب غربت کو مقامی صورتحال کے مطابق لاگو کر کہ بنایا جاتا ہے۔ اس طریقے کے مطابق ایک خط غربت یا غربت کی لائن مقرر کر دی جاتی ہے اور پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی فرد (یا کسی معاشرے میں اسکے افراد) کا مقام اس خط یا حد (یعنی تھریشولڈ) سے کیا نسبت رکھتا ہے، گویا یوں کہ لیں کہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ فرد یا افراد، اس خط سے نیچے ہیں ، برابر ہیں یا اوپر ہیں۔

اب اگر ایک انسان (مرد یا عورت) کی آمدن اس خط سے نیچے ہے تو وہ بجا طور پر غریب کہلانے کا حقدار ہے، یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ اس خط غربت کا مقام وقت کے پیمانوں پر تو تبدیل ہوتا ہی ہے؛ جگہوں، ممالک اور اقوام کے لحاظ سے بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
جب عالمی پیمانے پر غربت کی پیمائش کی کوشش کی جائے تو کوئی ایسا خط غربت تلاش کرنا ہوتا ہے کہ جو تمام دنیا میں مشترکہ طور پر لاگو کیا جاسکتا ہو۔

عالمی مخزن اس سلسلے میں ایک اور دو ڈالر (یعنی قریبا پچاس تا سو رپے)کی یومیہ آمدنی کا پیمانہ مقرر کرتا ہے اور اسکے مطابق 2001ء میں دنیا کی 6 ارب سے زائد آبادی میں 1.1 ارب افراد کی آمدن یومیہ ایک ڈالر سے کم اور 2.7 ارب افراد دو ڈالر یومیہ سے کم آمدن پر زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ ”کرنسی کی تخلیق اورتقسیم کا موجودہ نظام انتہائی غیر منصفانہ ہے اور امیروں کو مزید امیر جبکہ غریبوں کو مزید غریب بناتا ہے۔

جب تک کرنسی کی تخلیق اور تقسیم کا نطام نہیں بدلے گا اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی“صوبائی دارالحکومت لاہور کے ریلوے اسٹیشن سے ملحقہ اسٹریلیا مسجد چوک میں محترم جمیل صاحب ”اخبار“ کی ترسیل کا کام کرتے ہیں ان پر ایک کالم آئندہ آپ کی خدمت میں پیش کرونگا جیسے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں، جمیل صاحب کے بقول پاکستان میں غربت کا خاتمہ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ ”ہر فرد کے پاس ”زیادہ سے زیادہ“ دولت کی حد مقرر کی جائے ، یعنی ایک شہری اپنے پاس کتنی رقم رکھنے کا پابند ہے۔

اس کے ساتھ پاکستان میں آئینی طور تمام پاکستانی شہریوں سے حلف لیا جائے کہ وہ کبھی بھی اپنی دولت”باہر“ کے ممالک کو غیر قانونی نہیں بھیجیں گے اور اگر وہ پکڑے گئے تو ساری عمرکسی بھی سرکاری عہدے کے لئے نااہل اور سیاسی و مذہبی نمائندگی بھی نہیں کر سکیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :