جرم چوبیس گھنٹے!!

جمعہ 17 نومبر 2017

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

ملک میں کم عمر بچے اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کی وارداتوں میں تیزی آگئی ہے۔ قصور میں ایک روز قبل لاپتہ ہونے والی 8 سالہ بچی زیادتی کے بعد نیم مردہ حالت میں سبزی منڈی کے قریب پائی گئی۔لواحقین ڈی ایچ کیو ہسپتال قصور لے گئے تو وہاں کوئی ڈاکٹر موجود نہیں تھا۔ گھنٹوں انتظار کے بعد ڈاکٹروں نے علاج کے لئے لاہور ریفر کردیا۔یہ ایک المناک معاشرتی المیہ ہی نہیں ہماری اخلاقی اقدار کے بدترین زوال کی نشانی بھی ہے۔

ایسے واقعات میں ملوث افراد کسی رعایت کے مستحق نہیں انہیں ہر صورت کیفر کردار تک پہنچانا حکومت اور محکمہ پولیس کا فرض ہے۔ بدقسمتی سے ایسے واقعات کے بعد جو بچے یا بچیاں شدید زخمی یا نیم مردہ حالت میں پائی جاتی ہیں۔ ان کی زندگی بچانے کے لئے ہمارے پاس کوئی موثر علاج نہیں۔

(جاری ہے)

دور دراز علاقوں کی صورتحال ویسے ہی ابتر ہے۔ شہروں کے نزدیک ڈسٹرکٹ کوارٹر ہسپتالوں میں بھی ایسے کیس آئیں تو وہاں نہ تو کوئی ڈاکٹر دستیاب ہوتا ہے نہ طبی عملہ نہ ادویات۔

حکومت پنجاب کی طرف سے ہسپتالوں میں ہر ممکن علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے کے باوجود ان ہیلتھ مراکز میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کے روئیے اور حالات میں بہتری نہیں آئی۔ گزشتہ روز قصو رمیں نیم مردہ حالت میں ملنے والی زیادتی کا شکار بچی کو اسے لواحقین لے کر جب ڈی ایچ کیو ہسپتال پہنچے تو وہاں کئی گھنٹے ڈاکٹروں کے انتظار میں بیٹھے رہے جس سے بچی کی حالت مزید خراب ہوگئی جب ڈاکٹر آئے تو انہوں نے بچی کی سیریس حالت دیکھ کر اسے لاہور ریفر کردیا اور بہانہ یہ بنایا کہ ہمارے پاس جدید مشینری اور سہولیات موجود نہیں۔

اب معلوم نہیں حقیقت کیا ہے۔ حکومت ایسے واقعات کا سخت نوٹس لے اور حقائق کا پتہ چلانے کے بعد علاج میں تاخیر کے ذمہ داروں کا تعین کرکے انکے خلاف ایکشن لے اور زیادتی میں ملوث افراد کو ڈھونڈ نکال کر انہیں کڑی سے کڑی سزا دے۔پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہر روز چھ عورتوں کو قتل یا اقدام قتل جیسے سنگین جرم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس بات کا انکشاف پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے دفتر میں امن و امان کے حوالے سے قائم کیے جانیوالے اس مرکز کی ایک دستاویز میں کیا گیا ہے جسے جرائم پر نگاہ رکھنے کیلئے قائم کیا گیا ہے۔

سرکاری طور پر تیار کی جانیوالی اس دستاویز کے مطابق پنجاب میں روزانہ آٹھ خواتین جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ گیارہ عورتیں روزانہ حملوں کا شکار ہوتی ہیں جبکہ ہر روز بتیس خواتین کو اغوا کر لیا جاتا ہے۔ پولیس کے شعبہ تفتیش کے اعداد و شمار کی مدد سے تیار کی جانیوالی اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ عورتوں کے خلاف تشدد کے مرتکب افراد کو سزا ملنے کی شرح ایک فیصد سے ڈھائی فیصد کے درمیان ہے۔

رپورٹ کے مطابق تشدد کا شکار ہونیوالی خاتون کو اندراجِ مقدمہ کیلئے پولیس کے پاس جانا پڑتا ہے پھر میڈیکل معائنے اور فورینزک سے متعلقہ شواہد کے حصول کے لیے تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ اس کے بعد اسے پراسیکیوٹر سے رابطے اور عدالتی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ سانپ اور سیڑھی کے اس کھیل اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے رویوں کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بننے والی متاثرہ خواتین بعض اوقات حصول انصاف کی کوششوں کو ترک کر دیتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق شواہد کے حصول میں مشکلات کے حائل ہونے، متاثرہ خاتون کے پیچھے ہٹ جانے، متعلقہ حکام کی عدم دستیابی اور تاخیر سے ہونے والے طبی معائنے کی وجہ سے عورتوں کے خلاف ہونے والے تشدد کا مقدمہ بہت کمزور ہو جاتا ہے۔ اور کئی مرتبہ مظلوم خواتین کو انصاف دلانے کیلئے وزیر اعلیٰ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم عورت فاونڈیشن کی ریجنل ڈائریکٹر ممتاز مغل نے سرکاری دستاویز کے اعداد و شمار کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آرز کی بنیاد پر مرتب کیے جانیوالے ان اعداد و شمار کی ساکھ دیگر ذرائع سے حاصل ہونیوالے ڈیٹا سے بہتر ہے۔

ان کے بقول عورت فاوٴنڈیشن خواتین پر تشدد کے حوالے سے اخبارات کی خبروں کے ذریعے جو اعداد و شمار اکٹھاکر تی ہے وہ بھی اس دستاویز کی معلومات کی تصدیق کر تے ہیں۔ ممتاز مغل کہتی ہیں کہ عورتوں پر تشدد کے بہت سے واقعات بدنامی کے خوف سے متاثرہ خواتین پولیس کیے علم میں نہیں لاتیں۔ پولیس تک محدود واقعات پہنچتے ہیں اور پولیس سے میڈیا تک پہنچنے والے واقعات کی تعداد تو اور بھی کم ہو جاتی ہے ''ہمارے معاشرے میں تھانے جا کر مردوں کی طرف سے کیے جانیوالے تشدد کو رپورٹ کر کے گھر آنے والی عورت کا جو حشر ہوتا ہے اس کا اندازہ کر نا مشکل نہیں ہے “۔

دوسری طرف پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا نیوز ایجنسی میڈیا ڈور جو معاشی و معاشرتی ایشوز پر اعداد وشمار فراہم کرنے کے حوالے سے بھی ایک اہم تنظیم ہے کے مطابق 2014 اور اس کے بعد تک کے اعداد و شمار پر نگاہ ڈالیں تو اندازہ ہو تا ہے کہ پاکستان میں عورتوں پر تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ "اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب واقعات کو رپورٹ کیے جانے کی شرح میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے“۔

پاکستان میں عورتوں کو قتل، اقدام قتل، تیزاب پھینکنے، اعضا کاٹنے، اغوا کرنے اور مار پیٹ کرنے سمیت کئی قسم کے تشدد کا سامنا ہے۔ ان کے بقول گھریلو تشدد کو تو عام طور پر تشدد سمجھا ہی نہیں جا تا اور ایسے واقعات عموماً رپورٹ بھی نہیں ہو تے۔“عورتوں کے خلاف تشدد کے بڑے واقعات پر بھی بعض اوقات پولیس یا تو رپوٹ لکھنے پر اکتفا کرتی ہے یا پھر پنچایت کے ذریعے معاملے کو رفع دفع کرانے کا مشورہ دیتی ہے“۔

رپورٹ کے مطابق پنجاب کے دور دراز کے پسماندہ علاقوں میں صورتحال کافی تشویشناک ہے۔ عورتوں پر تشدد کی روک تھام کیلئے قوانین کو بہتر بنانے، خواتین کو آگاہی فراہم کر نے اور متاثرہ خواتین کو قانونی و نفسیاتی امداد فراہم کیے جانے کی ضرورت ہے۔پنجاب کی حکومت نے خواتین کو تشدد سے بچانے کیلئے ہر ضلعے میں خصوصی حفاظتی مرکز قائم کئے ہیں تو اس سلسلے میں ملتان میں قائم کیے جانیوالے مرکز میں ون ونڈو آپریشن کے تحت تشدد کی شکار خواتین کو ایک ہی جگہ پر پولیس ، پراسیکیوٹر اور سائیکالوجسٹ کی خدمات کے علاوہ دارالامان کی سہولتیں بھی میسر ہیں۔

غربت ، جہالت اور بے روزگاری کی وجہ سے تشدد کا شکار ہونیوالی خواتین کو اس مرکز کے ذریعے فنی تعلیم فراہم کر نے، بینکوں سے قرضے دلوانے اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مدد فراہم کروانے کی بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ادھر پنجاب حکومت نے قصور، مظفر گڑھ اور راولپنڈی کو خواتین کے تشدد کے حوالے سے وائلنس فری ڈسٹرکٹ بنانے کیلئے ایک پائلٹ پراجیکٹ کا آغاز کیا ہے۔

پہلے مرحلے میں ضلع قصور میں کام شروع کیا گیا ہے۔غیر ملکی امدادی ادارے اور سول سوسائٹی کے تعاون سے شروع کیے جانیوالے اس منصوبے کے تحت لوگوں کوعورتوں پر تشدد کے خلاف آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری اہلکاروں کو تربیت بھی دی جا رہی ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی کے بعد پنجاب کی حکومت اس کا دائرہ دیگر اضلاع تک پہنچانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ اس نمائندے کی طرف سے کی جانے والی مسلسل کوششوں کے باوجود پنجاب حکومت کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آ سکا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :